پاک بھارت کشیدگی اور بین الاقوامی قانون
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارتی اقدامات نے صورتحال کو بہت کشیدہ کردیا ہے اور کئی اہم قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔ تاہم اس مسئلے کی درست قانونی نوعیت کے فہم کے لیے ضروری ہے کہ بات پہلگام میں سیاحوں پر حملے تک محدود نہ رہے، بلکہ ابتدا سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے۔
کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہےکشمیر کا مسئلہ دراصل تقسیمِ ہند کا منصوبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ انگریزوں نے برصغیر سے ’شرمناک فرار‘ (تقسیمِ ہند پر سٹینلے وولپرٹ کی کتاب کا عنوان ہے: Shameful Flight) اختیار کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ لاینحل چھوڑ دیا تھا اور یہاں مستقل خونریزی کے بیج بو دیے تھے۔ بھارت کا موقف ہے کہ ریاستِ جموں و کشمیر کے مہاراجا نے اس کے ساتھ الحاق کیا جس کا حق اسے قانونِ آزادیِ ہند 1947ء نے دیا تھا۔ تاہم ایک تو اس دستاویز کی صداقت مشتبہ ہے؛ پھر مہاراجا نے چونکہ پہلے قائدِ اعظم کے ساتھ حالات کو ’جوں کا توں رکھنے‘ کا معاہدہ کیا تھا، اس لیے اس الحاق کی قانونی حیثیت بھی مشتبہ ہے؛ بالخصوص اس دستاویز پر دستخط کے وقت مہاراجا کا ریاست پر کنٹرول ختم ہوچکا تھا اور بھارتی فوجیں بھی ریاست میں داخل ہوچکی تھیں۔
ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ جب بھارت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا فیصلہ مان لیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے، تو اس کا قانونی مطلب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ الحاق کےدعوے سے دستبردار ہوگیا ہے۔
چنانچہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے کشمیر میں بھارت کی حیثیت ’قابض طاقت‘ کی ہے۔
بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر کو ’مقبوضہ علاقہ‘ قرار دینے کے کئی اہم قانونی نتائج ہیں؛ مثلاً:
قابض طاقت کو مقبوضہ علاقے پر ملکیت حاصل نہیں ہوتی اور جلد یا بدیر اسے وہاں سے نکلنا ہوگا؛ جب تک قبضہ برقرار ہے، تب تک قانوناً حالتِ جنگ برقرار رہتی ہے، خواہ اس قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہورہی ہو؛ مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے قابض طاقت کی وفاداری کا حلف نہیں لیا جاسکتا؛ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔یہ رہی اس مسئلے کی قانونی بنیاد۔
کشمیر کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کی بھارتی کوششیںبعد میں بھارت نے کئی بار اس بنیاد کو ڈھا دینے کی کوشش کی۔ ایسی 3 کوششوں پر خصوصاً بحث ہونی چاہیے۔
1957ء میں بھارت نے اپنے زیرِ تسلط علاقے میں نام نہاد انتخابات کرائے اور پھر ان انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلی وجود میں آئی، اس سے اپنے حق میں الحاق کی قرارداد منظور کروائی۔تاہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک دفعہ پھر قراردادوں کے ذریعے طے کیا کہ اس کارروائی کی وجہ سے کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ انتخابات اس استصوابِ رائے کی جگہ لے سکتے ہیں جو پوری ریاستِ کشمیر میں ہونے ہیں۔ یوں اس کوشش کے بعد بھی کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوسکی۔
ایک اور کوشش بھارت نے تب کی جب مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد پاکستان فوج کی ایک بڑی تعداد کو قید کیا گیا تھا۔ اس کمزوری اور مجبوری کی حالت میں جولائی 1972ء میں جو شملہ معاہدہ طے پایا، اس کے 3 نکات اہم ہیں:
اس نے ’جنگ بندی کی لکیر‘ کا نام تبدیل کرکے اسے ’تسلط کی لکیر‘ کردیا، اور یہ بھارت کے اصرار پر ہوا؛ بعض علاقے جو پہلے پاکستان کے پاس تھے، اب بھارت کے تسلط میں آگئے (اگرچہ ایسا بہت کم ہوا)؛ اور اس نے طے کیا کہ تمام تنازعات فریقین باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔بھارت کا یہ موقف ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔
تاہم یہ موقف غلط ہے کیونکہ کوئی بھی 2 ریاستیں آپس میں معاہدہ کرکے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کو کالعدم نہیں کرسکتیں۔ پھر اس معاہدے میں تو یہ صراحت کی گئی ہے کہ دونوں ریاستیں اقوامِ متحدہ کے منشور اور اصولوں کی پابندی کریں گی۔ نیز یہ صراحت بھی کی گئی کہ کوئی فریق صورتحال میں یکطرفہ تبدیلی نہیں کرے گا۔ اس لیے عملاً اس معاہدے نے تو حالات کو ’جوں کا توں رکھنے‘ کا فیصلہ کیا، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
بھارت نے تیسری کوشش تب کی جب 5 اگست 2019ء کو اس نے اپنے آئین کی دفعہ 370 منسوخ کردی۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے نظام میں ریاستِ جموں و کشمیر کے لیے خصوصی حیثیت متعین کی گئی تھی۔ اس کے بعد بھارت نے ڈومیسائل اور زمین کی ملکیت کے متعلق قوانین بھی تبدیل کرلیے۔
بھارت کے یہ اقدامات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے علاوہ شملہ معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی مبنی تھے۔ تاہم ان اقدامات کے بعد کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے مقبوضہ علاقوں (occupied territories) کو اپنے ملک کا حصہ بنانا (annexation) قطعاً ناجائز ہے۔ یہ اسی طرح کا settler colonialism ہے جیسے اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں آباد کرکے کرتا رہا ہے۔
مسئلے کی ان قانونی بنیادوں کی تفہیم کے بعد موجودہ بحران کے متعلق قانونی مسائل پر بحث کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
موجودہ بحران پر قانونی سوالاتموجودہ بحران کا آغاز پہلگام میں سیاحوں پر حملے سے ہوا۔ اس لیے پہلے اس پر بحث ضروری ہے۔
پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاحوں اور عام شہریوں پر حملے غیر قانونی ہیں اور جنگ کے دوران میں بھی ایسے حملوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی رو سے یہ دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ تاہم اس حملے کو بھارت کا ’اندرونی مسئلہ‘، یا ’بھارت پر حملہ‘ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ پہلگام اور ریاستِ جموں و کشمیر کے دیگر علاقے بھارت کا حصہ نہیں ہیں۔
کیا اس حملے کےلیے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟بھارت نے تو حسبِ معمول پاکستان پر الزام دھرا ہے، لیکن ’ریاست کی ذمہ داری‘ کے جو اصول بین الاقوامی قانون میں طے شدہ ہیں (جیسا کہ ’نکاراگوا بنام امریکا‘ اور دیگر مقدمات میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے طے کیے ہیں)، ان کی رو سے اس حملے کے لیے پاکستان کو تب تک ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ یہ حملے پاکستان نے کروائے، یا ایسے علاقے سے ہوئے جو پاکستان کے کنٹرول میں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ پاکستان کو اس حملے کے بارے میں پیشگی علم تھا لیکن اس نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔
میڈیا پر شوروغل الگ بات ہے لیکن بھارت ابھی تک ایسی کوئی چیز پیش نہیں کرسکا ہے جس کی بنا پر پاکستان کو اس حملے کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاسکے۔
کیا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا منسوخ کیا جاسکتا ہے؟کسی بھی معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے اسی معاہدے میں دیکھنا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کیا طریقِ کار مقرر کیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے میں ایسا کوئی طریقِ کار مقرر نہ کیا گیا ہو، تو اس کے بعد ویانا کنونشن برائے معاہدات، 1969ء، میں طے کیے گئے اصولوں پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے میں صراحت کی گئی ہے کہ اس معاہدے کو فریقین باہمی معاہدے کے ذریعے ہی تبدیل یا منسوخ کرسکتے ہیں اور اس کے لیے اس معاہدے کی دفعہ 12 میں طریقِ کار دیا گیا ہے۔ نیز تنازعات کے حل کے لیے فریقین کی جانب سے ایک ایک کمشنر مقرر کرنے کا طے کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ’ثالثی عدالت‘ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ نیز معاہدات پر اختلاف یا تنازعے کی صورت میں اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستیں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے ذریعے فیصلہ کرا سکتی ہیں۔ ان ساری باتوں کو ترک کرکے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے بھارتی اقدام کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا موضوع دریاؤں کے پانی کی تقسیم ہے اور پہلگام کے واقعے کا پانی کی تقسیم کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسے بنیاد بنا کر پانی کی تقسیم کا معاہدہ معطل کرنا قانوناً بالکل غلط ہے۔
سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے قانونی نتائج کیا ہیں؟یہ معاہدہ معطل کرکے بھارت نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان پر دریاؤں کا پانی اپنی مرضی سے بند کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ 25 کروڑ انسانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے اور بھارت کا یہ اقدام ہر لحاظ سے ’جارحیت‘ (aggression) کی تعریف میں داخل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4، کی رو سے صرف ’طاقت کا استعمال‘ ہی ناجائز نہیں ہے، بلکہ اس کی ’دھمکی‘ بھی ناجائز ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1974ء میں ’جارحیت‘ کی جو تعریف متعین کی، اس میں بھی ’طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی‘ کا ذکر کیا۔ نیز اقوامِ متحدہ کے وجود میں آنے سے قبل ’رواجی بین الاقوامی قانون‘ میں ’اقتصادی جارحیت‘ کو بھی ’مسلح جنگ‘ کے مترادف مانا جاتا تھا، اور ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور نے اس رواجی قانون کو منسوخ کردیا ہو۔
بھارتی اقدام کے بعد کیا پاکستان کو دفاع کا حق حاصل ہے؟جب یہ مان لیا گیا کہ بھارت کی یہ ’اقتصادی جارحیت‘ اور ’آبی جارحیت‘ دراصل اس ’جارحیت‘ کی ایک قسم ہے جس کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے منشور نے ناجائز قرار دیا ہے، تو اس کے بعد یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ پاکستان کو اس کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 نے حقِ دفاع کو صرف ’مسلح حملے‘ کی صورت میں ہی جائز مانا ہے، وہ کئی باتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہی دفعہ 51 حقِ دفاع کو ریاستوں کا ایسا حق قرار دیتی ہے جسے ان سے چھینا نہیں جاسکتا (inherent right)؛ نیز، جیسا کہ ذکر کیا گیا، منشور نے طاقت کے استعمال کے علاوہ اس کی دھمکی کو بھی ناجائز قرار دیا ہے؛ اس کے علاوہ یہ کہ دفعہ 51 میں مذکور قیود اس مفروضے پر مبنی تھیں کہ سلامتی کونسل جارح ریاست کو روکنے کی ذمہ داری پوری کرے گی، لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا؛ اور سب سے اہم بات یہ کہ منشور نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ اس نے اس حقِ دفاع کو منسوخ کردیا ہے جو منشور سے پہلے ریاستوں کے پاس تھا۔
شملہ معاہدے کی معطلی کے قانونی نتائج کیا ہیں؟پاکستان کی قومی سلامتی کونسل نے شملہ معاہدے کی معطلی کی جو بات کی ہے، وہ دراصل سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بھارتی اعلان کا جواب ہے۔ اوپر واضح کیا گیا کہ شملہ معاہدے نے کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں کی ہے، لیکن بھارت اس معاہدے کو بنیاد بنا کر کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں سے جان چھڑانے کی بات کرتا ہے۔ اس لیے اس معاہدے کی معطلی کی بات سے مقصود بھارت کو یہ پیغام دینا ہے کہ جس بنیاد پر وہ دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھتا ہے، وہ بنیاد ہی اس سے چھین لی جائے گی۔ یہ اقدام، جیسا کہ ذکر کیا گیا، 2019ء میں کرلینا چاہیے تھا، لیکن بہرحال، دیر آید درست آید۔
کیا حقِ دفاع کے تحت پاکستان بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں کو نشانہ بنا سکتا ہے؟پاکستان کو دفاع کا حق حاصل ہے اور بھارت کی جانب سے مسلح حملے سے قبل بھی وہ دفاع کا یہ حق استعمال کرسکتا ہے۔ تاہم یہ اصول یاد رہے کہ جنگ کو منضبط کرنے کا بین الاقوامی قانون، جسے بین الاقوامی قانونِ انسانیت کہا جاتا ہے، ہر ایسے ہدف پر حملے کو ناجائز قرار دیتا ہے جس کا نقصان فوجیوں کے علاوہ عام شہریوں کو بھی پہنچے۔ اس لیے ڈیم، بجلی گھر، نیوکلیر ری ایکٹر وغیرہ پر حملہ قانوناً ناجائز ہے۔ البتہ حقِ دفاع کو استعمال کرتے ہوئے نئے ڈیم بنانے سے روکنے کے لیے اور نیز اپنے لیے پانی کا بہاؤ یقینی بنانے اور بھارت کو یہ پانی بند کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان مناسب اقدامات اور جنگی کارروائی کرسکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پہلگام میں سیاحوں پر حملے کشمیر کی قانونی حیثیت متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی قانون بھارت کا حصہ نہیں سندھ طاس معاہدے معاہدے کی معطلی متحدہ کے منشور کا حق حاصل ہے اس معاہدے کی اس معاہدے کو شملہ معاہدے پاکستان کو معاہدے میں پاکستان کے اس حملے کے اور بھارت قرار دیا کے علاوہ بھارت کے بھارت نے کشمیر کے کی رو سے دفاع کا کی دفعہ کے ساتھ کیا گیا نہیں ہے لیے اس اس لیے کے بعد ہے اور کی گئی اور اس گیا ہے دیا ہے کے لیے گئی ہے
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے، جنگ بندی جاری رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے استنبول میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سردست اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک جنگ بندی جاری رکھیں گے۔ چھے روزہ مذاکرات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق 25 سے 30 اکتوبر تک پاک افغان مذاکرات کا اول مقصد دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی معاہدے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
استنبول اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے ملک پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جنگ بندی کے قواعد و ضوابط طے کرنے اور دو طرفہ امن کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور 6 نومبر سے استنبول میں ہوگا جس میں معاملات کو حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ دوحہ قطر سے استنبول ترکیہ تک ہونے والے دو مذاکراتی دورکے بعد بھی معاملات کا طے نہ پانا، اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ افغان طالبان دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے جائز مطالبات پر بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف موثر، ٹھوس اور عملی اقدام کے حوالے سے پوری طرح سنجیدہ نہیں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے دو ٹوک لفظوں میں افغان حکومت پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی گئی تو پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور اپنی سلامتی و دفاع کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
باخبر اطلاعات کے مطابق پاک افغان مذاکرات کے دوران اگرچہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے واضح موقف اختیار کیا جب کہ افغان مذاکرات کار اپنے رویوں، لہجے اور موقف میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مذاکراتی عمل کے دوران ٹھوس بات کرنے سے گریزاں نظر آئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ افغان طالبان معاہدہ کرنے کے باوجود اس کی تمام شقوں پر کماحقہ عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں جس کا اندازہ طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں انھوں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کو حل کرے۔ افغان سفیر نے بھی ایک غیر سنجیدہ بیان دے کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی جس پر پاکستان نے احتجاج کیا جو ناقابل فہم نہیں۔
6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ مذاکرات کے باوجود جنگ بندی تو ہو گئی لیکن پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ چار روز پیشتر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے اہم کمانڈر سمیت 24 دہشت گرد ہلاک ہو گئے، اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ عسکری قیادت کا یہ دو ٹوک اعلان ہے کہ ملک کے دونوں اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرکے دونوں صوبوں کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے گا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کے پی کے عوام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور صوبے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ افغان طالبان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھارتی پشت پناہی میں اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا کر خود اپنی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہا ہے بعینہ خطے کے امن کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، قطر اور ترکیہ کی ثالثی قابل تعریف لیکن خطے کے امن کے لیے چین، ایران، روس اور امریکا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا پاکستان اور دنیا اس کی معترف ہے۔ ٹرمپ کو پاک افغان جنگ بندی میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔