بھارت بھر میں کشمیریوں کو نشانہ بنانا ناانصافی اور غیر انسانی اقدام ہے، میرواعظ عمر فاروق
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے کہا کہ کشمیر کے اندر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور کریک ڈاؤن کے بعد اب کشمیر سے باہر عام شہریوں، طلباء اور چھوٹے تاجروں پر حملے ہورہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے مسوری علاقے میں کشمیری شال فروشوں پر جسمانی اور زبانی حملے انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان متاثرہ کشمیریوں کو پولیس کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی نہ ملنے پر وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے اندر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور کریک ڈاؤن کے بعد اب جموں و کشمیر سے باہر عام شہریوں، طلباء اور چھوٹے تاجروں پر حملے ہو رہے ہیں اور انہیں کشمیر واپس لوٹنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہائیوں سے ہر قسم کے تشدد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اذیتوں کے شکار کشمیریوں کی طرف سے پہلگام کے خونین سانحے کی مذمت، ہمدردی اور غم ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہے، اس کے باوجود انہیں بدنام کیا جا رہا ہے اور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے بھارت کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ نفرت اور میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں جو کشمیریوں کے خلاف بداعتمادی پیدا کر رہا ہے، وہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، جیسا کہ کشمیریوں نے ہمیشہ تمام آنے والے مہمانوں اور سیاحوں کے ساتھ بحران کے وقت میں کیا ہے۔ کشمیریوں کو اندرونِ جموں و کشمیر اور اس کے باہر اجتماعی سزا دینا سراسر ناانصافی اور غیر انسانی اقدام ہے۔ واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد باہر کی ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور تاجروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ اب تک کئی کشمیریوں نوجوانوں کو بھارت کی مختلف ریاستوں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔