وزیراعظم آزاد کشمیر سے راجہ نجابت حسین کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اس موقع پر چوہدری انوارالحق کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ بیس کیمپ کی حکومت تحریک آزادی کشمیر کو اولین ترجیح دیتی ہے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں آزاد جموں و کشمیر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق سے جموں و کشمیر تحریک حق خودارادیت انٹرنیشنل کے بانی چئیرمین راجہ نجابت حسین (ستارہ پاکستان) نے جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس موقع پر آزاد جموں و کشمیر کی وزیر برائے سمال انڈسٹریز محترمہ پروفیسر تقدیس گیلانی بھی موجود تھیں۔ اس موقع پر وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر نے کہا کہ وہ نہ صرف بجٹ کے بعد برطانیہ اور یورپ کا دورہ کریں گے بلکہ ان کی پوری کوشش ہو گی کہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے نمائندہ وزیراعظم کی حیثیت سے وہ نہ صرف یورپ اور برطانیہ میں کشمیریوں کو متحرک کرنے کے لئے، کشمیریوں کے حق خودارادیت کے پروگرام کامیاب کروانے کے لئے خود آئیں بلکہ اس میں کشمیری تنظیموں، کشمیری راہنماؤں، کونسلروں، برطانوی ممبران پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے متحرک کارکنان و اداروں کو منظم کرنے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بیس کیمپ کی حکومت تحریک آزادی کشمیر کو اولین ترجیح دیتی ہے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں آزاد جموں و کشمیر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کو ساتھ لے کر چلیں گے تاکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام پر آج کل جو حالات چل رہے ہیں ان کے مطابق کشمیریوں کا نقطہ نظر عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد مل سکے، اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جس انداز میں بھارت نے ظلم و ستم ایک مرتبہ پھر زور و شور کے ساتھ شروع کر رکھا ہے، اس ظلم کے خلاف جاندار آواز کو پوری دنیا میں پہنچانے کے لئے پوری دنیا میں بسنے والے کشمیریوں کا پہلے بھی ایک کلیدی کردار رہا ہے اور میں توقع کرتا ہوں کہ تمام کشمیری سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ریاست جموں و کشمیر کی آزادی، پاکستان کے استحکام اور اپنے وطن کے اندر تعمیر و ترقی میں اپنی معاونت جاری رکھیں گے اور مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک اپنے اسلاف کی قربانیوں، نظریات اور تحریک تکمیل پاکستان کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاست جموں و کشمیر جموں و کشمیر کے کے لئے
پڑھیں:
پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مسئلہ جموں و کشمیر پر مؤثر اقدام کا مطالبہ
اسلام آباد:اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کے طویل اور اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مسئلہ جموں و کشمیر پر عالمی سطح پر فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
عاصم افتخار نے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہی، جس کا موضوع تھا: ’’سیاسی حل کے فروغ کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشنز کو ڈھالنا – ترجیحات اور چیلنجز۔‘‘
سفیر عاصم نے بتایا کہ پاکستان اب تک چار براعظموں میں 48 اقوام متحدہ امن مشنز میں 2لاکھ 35ہزار سے زائد فوجی بھیج چکا ہے، جن میں سے 182 اہلکاروں نے امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔ پاکستان نہ صرف سب سے بڑے فوجی بھیجنے والے ممالک میں شامل ہے بلکہ امن تعمیراتی کمیشن کا بانی رکن بھی ہے۔
اپنے بیان میں سفیر عاصم نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے تمام امن مشنز کی بنیاد سیاسی حل پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی ساکھ کا امتحان ہے کہ آیا وہ بین الاقوامی امن و انصاف کے اصولوں پر عملدرآمد کر پاتی ہے یا نہیں۔
سفیر نے کہا کہ ’’سیاسی حل کی ضرورت بالکل واضح ہے اور یہ ضرورت کہیں زیادہ شدید نہیں جتنی کہ مسئلہ جموں و کشمیر میں ہے، جو کہ طویل عرصے سے اس کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ سلامتی کونسل کو اپنی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس تنازع کا منصفانہ اور دیرپا حل نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان اقوام متحدہ کے قدیم ترین مشنوں میں سے ایک، قوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ برائے بھارت و پاکستان (UNMOGIP)، کی میزبانی کر رہا ہے، جو کہ لائن آف کنٹرول کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ خود اس مسئلے کے حل نہ ہونے کا بین الاقوامی ثبوت ہے۔
سفیر عاصم نے کہا کہ موجودہ سال اس حوالے سے اہم ہے کہ کئی بڑے جائزہ عمل جاری ہیں، جن میں ’’مستقبل کے لیے معاہدہ، امن سازی کے فن تعمیر کا جائزہ‘‘ اور UN80 Initiative شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کو امن مشنز کی سیاسی بنیاد کو تقویت دینی چاہیے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک دہائی سے کوئی نیا امن مشن تعینات نہیں ہوا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی تنازعات کے حل میں قائدانہ کردار کی بحالی کے لیے 2015 کے HIPPO رپورٹ کے بنیادی اصولوں ’’سیاست، شراکت داری، اور عوام‘‘ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشنز کو مضبوط بنانے کے لیے تجاویز دی گئیں۔
امن مشنز کا مقصد سیاسی عمل کو سپورٹ کرنا ہے، اس کی جگہ لینا نہیں۔ اگر سیاسی عمل غیر موجود ہو تو مشنز کو امن قائم رکھنے اور مکالمے کے لیے جگہ بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
سلامتی کونسل کو ’’کرسمس ٹری‘‘ طرز کی بھاری مینڈیٹ سازی سے گریز کرنا چاہیے، جو زمینی حقائق سے ہٹ کر ہوتی ہے۔
امن مشنز کی کامیابی کے لیے سلامتی کونسل کا متحد اور پائیدار سیاسی تعاون ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان برائے سیکرٹری جنرل (SRSGs) کو مکمل اختیارات دیے جانے چاہئیں۔
امن مشنز کو مقامی سطح پر امن قائم کرنے کے عمل کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے پاکستانی امن فوجیوں کی ابیئی (UNISFA) میں مقامی برادریوں سے کامیاب شراکت داری کو ایک مثبت مثال کے طور پر پیش کیا۔
موجودہ بجٹ کٹوتیوں سے امن مشنز متاثر ہو رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا کل امن مشنز کا بجٹ صرف 5.5 ارب ڈالر ہے، جو دنیا کے فوجی اخراجات کا صرف 0.3 فیصد ہے۔ اس کے باوجود یہ سب سے مؤثر عالمی ہتھیار ہے۔
امن مشنز کے انخلا کا فیصلہ زمینی حالات کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ کسی طے شدہ کیلنڈر کے مطابق۔
قرارداد 2719 پر مؤثر عملدرآمد اور علاقائی تنظیموں (OIC, EU, ASEAN وغیرہ) سے قریبی شراکت داری ناگزیر ہے۔
مشنز کے مینڈیٹ کی تیاری اور جائزے میں فوجی اور پولیس بھیجنے والے ممالک کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ زمینی تجربات پالیسی سازی میں جھلکیں۔
سفیر عاصم نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط، جامع اور سیاسی بنیادوں پر مبنی اقوام متحدہ امن مشن نظام کی حمایت جاری رکھے گا جو اقوام متحدہ کے چارٹر پر مبنی ہو، انصاف کے اصولوں کو فروغ دے، اور دنیا بھر کے تنازعات زدہ علاقوں، خصوصاً جموں و کشمیر کے عوام کے لیے امن کی راہ ہموار کرے۔
اختتام پر انہوں نے کہا کہ ’’امن مشن کوئی جادوئی حل نہیں، مگر یہ متروک بھی نہیں۔ سیاست راستہ دکھاتی ہے اور امن مشنز اس راستے کو محفوظ بناتے ہیں جب تک کہ دیرپا امن کا ہدف حاصل نہ ہو جائے۔ سلامتی کونسل کو اس راستے اور منزل، دونوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔‘‘