UrduPoint:
2025-06-17@22:31:17 GMT

دبئی میں یوم پاکستان روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

دبئی میں یوم پاکستان روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا

دبئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 2 مئی 2025ء) قونصلیٹ جنرل آف پاکستان دبئی نے یوم پاکستان کی مناسبت سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا، جس میں سفارتی نمائندوں، اماراتی حکام، پاکستانی کمیونٹی اور دیگر معزز مہمانوں نے شرکت کی۔ وزارت خارجہ دبئی آفس سے خالد محمد الکعبی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ تقریب کا آغاز پاکستانی اور اماراتی بچوں کی جانب سے دونوں ممالک کے قومی ترانوں پر ثقافتی پرفارمنس سے ہوا، جس نے پاکستان اور یو اے ای کے گہرے دوستانہ تعلقات کو اجاگر کیا۔

وفاقی وزیر احسن اقبال اور پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی نے تقریب میں خصوصی شرکت کی۔ وزیر منصوبہ بندی نے اپنے خطاب میں 23 مارچ کی تاریخی اہمیت اور "اُڑان پاکستان" وژن کے تحت پاکستان کو 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر معیشت بنانے کے عزم پر روشنی ڈالی۔

(جاری ہے)

قونصل جنرل حسین محمد نے پاکستان کی ترقی، معاشی مواقع اور پاکستان-امارات تعلقات کو سراہتے ہوئے اماراتی قیادت اور پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

تقریب کا خاص لمحہ شیخ زاید بن سلطان النہیان کی زندگی پر لکھی گئی کتاب "شیخ زاید: دی بلڈر آف دی نیشن" کی پیشکش تھی، جسے پاکستانی کمیونٹی کے بزرگ رکن خان زمان سرور نے تحریر کیا ہے۔ تقریب میں پاکستان اور یو اے ای کی قیادت کی تاریخی تصاویر پر مبنی ویڈیو بھی پیش کی گئی جو دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کی عکاس تھی۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا

اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تحریر: محمد عامر رانا 

ایران پر اسرائیلی حملوں نے علاقائی اور عالمی بحران جنم دیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان میں داخلی امن کی صورت حال اور جغرافیائی سیاست میں اس کی پوزیشن پر اثرانداز ہوگا بالخصوص اس تناظر میں کہ جب اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔ امریکی فوج کے 250 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ امریکا، پاک امریکا تعلقات میں تبدیلی کا عکاس ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جہاں دو جوہری قوت سے لیس ممالک، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں ثالثی کے طور پر اپنی کامیابی پر جشن منا رہے ہیں وہیں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے جبکہ مبینہ طور پر اس نے یہ حملہ اس شک کی بنیاد پر کیا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے۔

اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ جیسا کہ ماہرِ تعلیم ولی نصر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے، اس حملے نے واشنگٹن کی شمولیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔

بہت سے مبصرین اب پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی پذیرائی کی ٹائمنگ سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ امریکا، ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس تناظر میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر غور کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران پر امریکی رضامندی سے حملہ کیا ہے تو اس نے صدر ٹرمپ کے ’عالمی امن پسند‘ کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ تشخص انہوں نے حال ہی میں روس-یوکرین اور پاک-بھارت کے مابین کشیدگی کو کم کرنے میں ثالث کا سہرا اپنے سر لے کر بنایا تھا۔

جنرل ضیاالحق کے دور سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ تاہم جنوری 2024ء میں مختصر تنازع کے بعد ان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دونوں ریاستوں کے سربراہان اور اعلیٰ عسکری قیادت نے دورے کیے ہیں جوکہ تعلقات میں بہتری کا عکاس ہے۔ پاکستان کے ساتھ مزید تصادم سے بچنے کے علاوہ، ایران نے دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ پیچیدہ معاہدہ ہے اور یہ خدشات تھے کہ ایران، پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایران نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ارادے کے تحت اس منصوبے کے ذریعے بڑے اقتصادی اور اسٹریٹجک اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہے اور ان کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال ایران نے انڈس شیلڈ مشق میں حصہ لیا تھا جوکہ ایک بڑی کثیر الملکی فضائی مشق ہے جس کا اہتمام پاک فضائیہ نے کیا تھا۔ رواں سال ہی ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری جوکہ 13 جون کی اسرائیلی فضائی اسٹرائیکس میں شہید ہوگئے ہیں، پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ابھی حال ہی کہ بات کریں تو بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد وسطی ایشیا کے اپنے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کا بھی دورہ کیا اور مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت کرنے پر اظہار تشکر کیا۔

ایران اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا حل طلب مسئلہ انسدادِ دہشتگردی ہے۔ بلوچ باغی، سیکولر اور اسلامک عسکریت پسند دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ دونوں ممالک کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر سرکاری سطح پر بارہا بات ہوئی ہے لیکن عسکریت پسند گروپ دونوں ممالک کے صبر کو آزماتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر بداعتمادی پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مخالف ملک پُرتشدد گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے یا ان کی حفاظت کررہا ہے۔

اس کے برعکس، انسدادِ دہشتگردی میں تعاون پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کا اہم نقطہ ثابت ہوا ہے۔ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ حال ہی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیل کوریلا نے امریکی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا۔ اسلام آباد کے داعش خراساں کے خلاف مؤثر آپریشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی شراکت داری کے ذریعے پاکستان نے داعش خراساں کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔

اطلاعات ہیں کہ بھارت جو امریکا کا قریبی اسٹریٹجک پارٹنر ہے، واشنگٹن کے لہجے میں اس تبدیلی پر قدرے حیران تھا۔ ان کے گہرے دفاعی، اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کے باوجود امریکی مؤقف میں تبدیلی آئی ہے جو بالخصوص اسرائیل اور ایران تصادم کے بعد بتاتی ہے کہ واشنگٹن اُبھرتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں پاکستان کے لیے زیادہ فعال اور غیرجانبدار کردار کا خواہاں ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ پاکستان، چین اور مغرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تناظر میں امریکا کے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانے کو پاکستان کے ساتھ مزید تعمیری انداز میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

اگرچہ لوگ اکثر عالمی جغرافیائی سیاست کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے تمام قسم کی بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل عزم کا مظاہرہ کیا ہے بالخصوص جب افغان سرحد کے ساتھ مقابلوں کی بات ہو۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ ایران-اسرائیل تنازعے کے مشرق وسطیٰ پر اثرات، امریکا کے عالمی مؤقف اور علاقائی جغرافیائی سیاست پر پاکستان کی سمت کے تزویراتی نتائج سے ہٹ کر، اس تنازع نے ملک کے اندر بنیادی طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر عوامی جذبات کو ابھارا ہے۔

یہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں فرقہ وارانہ تشدد کو کسی حد تک قابو میں لایا ہے حالانکہ کچھ علاقے جیسے کہ کرم ضلع اب بھی اس کی زد میں ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایران کے حق میں اور اس کی مخالفت میں پوسٹس کی بھرمار ہوچکی ہے۔ اگرچہ سڑکوں پر کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا ہے لیکن آئندہ دنوں میں اسے خارجِ از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ہر صورت حال میں اندرونی سلامتی کے خطرات اور ممکنہ جغرافیائی سیاسی پھیلاؤ دونوں کا جائزہ لینے کے لیے حالات پر گہری نظر رکھیں گے۔ اسی دوران ریاست بحران میں ایک متعلقہ کردار کے طور پر اپنی پوزیشن طے کرنے کے طریقے تلاش کرسکتی ہے۔ تاہم ریاستی حکمت عملی اور عوامی جذبات کے درمیان ایک بار پھر خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے لے کر غزہ میں اسرائیل کی بار بار کی بربریت تک، پاکستان کا سرکاری ردعمل محتاط رہا ہے جس نے خطے کے تمام بڑے کھلاڑیوں بشمول ایران، اسرائیل، امریکا اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی سیاست اور عوامی جذبات کے درمیان، کس حد تک مؤثر طریقے سے اس توازن کو سنبھالے گا۔

اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1917273/crisis-management-balance

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا
  • واشنگٹن، پاکستانی کمیونٹی سے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ملاقات
  • بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا امریکہ میں افواج پاکستان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو شاندارخراج تحسین
  • فیلڈ مارشل کا اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ روابط کے تسلسل، باہمی تعاون کی ضرورت پر زور
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کا امریکا کا سرکاری دورہ، پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات
  • اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف سے اماراتی نائب وزیر ملاقات کررہے ہیں، چھوٹی تصویر میں ایرانی سفیرسے مصافحہ کررہے ہیں
  • پاکستان حج مشن کی 2025 کے کامیاب حج آپریشنز کی شاندار تکمیل پر تقریب، آئندہ مزید بہتری کا عزم
  • یوم شہادت عثمان غنی ؓبھرپور طریقہ سے عقیدت واحترام سے منایا گیا
  • فلپائن کے دو طرفہ تعلقات کے 76 سال مکمل ہونے کے موقع پر تقریب
  • پاکستانی حلوہ پوری اور سری پائے کو عالمی سطح پر پذیرائی، دنیا کے بہترین ناشتوں میں شامل