UrduPoint:
2025-09-20@03:55:08 GMT

خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) خوبصورتی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے، مگر یہ خواہش کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا، اشتہارات، اور ٹی وی اسکرینز "خوبصورتی" کی ایک مخصوص، غیر فطری اور اکثر ناقابلِ حصول شکل متعین کر چکی ہیں، تو کیا یہ فیصلہ اب بھی عورت کے اپنے اختیار میں ہے؟

صاف رنگت، متناسب خدوخال اور خوش لباسی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔

عورت کو جمالیاتی حسن کا پیکر مانا گیا، مگر جیسے ہی وہ خوبصورتی کے ساتھ ذہانت، علم، حسِ مزاح یا فکری بلوغت کا اظہار کرتی ہے، تو یہی معاشرہ جو اس کی ظاہری دلکشی پر فریفتہ تھا، اس کی ذہنی گہرائی سے خائف ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

معاشرہ عورت کے ذہن کو ظاہری خوب صورتی کے پردے کے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ عورت یا تو حسن کی علامت ہو، یا دانائی کی، دونوں کا امتزاج اکثر ناقابلِ قبول ٹھہرتا ہے۔

یہی سوچ کاسمیٹکس اور بیوٹی انڈسٹری کے تسلط کو دوام بخشتی ہے، جو عورت کو صرف ایک جسمانی مظہر میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ صرف ظاہری خوب صورتی کے عمیق سمندر میں ہی بہتی رہے۔ کم عمر نظر آنے کے لیے جدوجہد کرتی رہے۔

مختلف ذرائع کے مطابق 2023 میں عالمی بیوٹی انڈسٹری کی مالیت 400 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی، اور 2025 تک اس کے مالیت 677 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

گویا خوبصورتی صرف ایک خواب نہیں، ایک زبردست کاروبار بھی ہے۔ یہ وہ صنعت ہے جو ہر عورت کو باور کراتی ہے کہ "تم جیسی ہو، وہ کافی نہیں۔"

پچھلے سال دنیا میں پنجے گاڑھتی استھیٹک کی صنعت اور معاشرے کے بے رحم رویوں پر مبنی ایک جرأت مندانہ فلم سامنے آئی Substance۔

سبسٹینس یعنی مادہ یا اصل۔ یہ فلم صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ آج کے سماج میں پنپتے ہوئے اس جنون کی عکاسی ہے جسے ہم نے "خوبصورتی" کا نام دے رکھا ہے۔

یہ فلم علامتی انداز میں یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا واقعی عورتیں خوبصورت اور جوان دکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں یا مردوں کا معاشرہ انہیں اس جانب دھکیل رہا ہے؟ کیا جسمانی ساخت، رنگ و روپ، اور ظاہری نقوش ہی انسانی پہچان کے بنیادی اجزا بن چکے ہیں؟

فرانسیسی خاتون ہدایتکارہ کی یہ علامتی فلم دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ جیسے کیمرہ نہیں، آئینہ دکھایا جا رہا ہو۔

فلم کا مرکزی کردار ڈیمی مور ہیں، جنہوں نے ایک عمر رسیدہ ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔وہ اپنی شناخت اور خوبصورتی کی بازیابی کے لیے ایک نئی دوا کا استعمال شروع کرتی ہیں۔ یہ دوا جسمانی تبدیلی کے ذریعے اسے "نئی زندگی" دیتی ہے، مگر اس نئی زندگی میں وہی پرانا سچ چھپا ہوتا ہے کہ عورت جتنی بھی بدلے، معاشرہ اسے اپنی اصل صورت میں کبھی قبول نہیں کرتا۔

ایک منظر میں وہ اداکارہ، جوان ہو چکی ہوتی ہے، آئینے میں خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف و حیرانی کا امتزاج ہے۔ وہ اپنے نئے چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہے، مگر اندر ایک گھبراہٹ ہے: کیا میں یہی ہوں؟

ایک اور منظر میں اس کا پرانا وجود، ایک بے جان جسم کی مانند ایک کرسی پر گرا ہوا ہے وہ اصل، جسے خوبصورتی کی نئی تعریف نے مار دیا ہے۔

سبسٹینس ایک سوالنامہ ہے کہ ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ اور کیوں؟ کیا یہ صرف ذاتی انتخاب ہے؟ یا دباؤ؟

ڈیمی مور نے فلم Substance میں مرکزی کردار قبول کرنے کا فیصلہ محض اداکاری کے جوہر دکھانے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے ایک ذاتی اور گہرا تجربہ پوشیدہ تھا۔ وہ خود اپنی زندگی میں کاسمیٹک سرجریوں کے ایک ایسے کٹھن سفر سے گزر چکی ہیں جس نے نہ صرف ان کے چہرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، بلکہ ان کی شناخت، خود اعتمادی اور اندرونی سکون پر بھی کاری ضرب لگائی۔

ڈیمی مور کا اعتراف ہے کہ خوب صورتی کے تعاقب میں انہوں نے کئی ایسے فیصلے کیے جو وقتی طور پر دل کو بھلے لگے، مگر وقت کے ساتھ یہ تجربات ان پر بھاری پڑے۔ ان کا چہرہ، جو برسوں سے شائقینِ سینما کے لیے ایک پہچان تھا، مصنوعی تبدیلیوں کے بعد اجنبی سا محسوس ہونے لگا۔ نہ وہ خود کو پہچان سکیں، نہ دوسروں کی نظر میں وہ پہلے والی رہیں۔

مگر وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔

ڈیمی مور کہتی ہیں، "مجھے وقت کے ساتھ یہ ادراک ہوا کہ بڑھتی عمر میں بھی خوب صورتی، وقار اور کشش ممکن ہے۔" یہ ایک عورت کی وہ داخلی جیت ہے، جو عمر کے ہر مرحلے پر نئی شناخت کے ساتھ جینا سیکھتی ہے۔

وہ کہتی ہیں، "آج اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں ماضی کی 'ڈیمی مور' بن جاؤں، تو میں صاف انکار کر دوں گی کیونکہ یہ دور میری زندگی کا اصل عروج ہے، نہ صرف میرے کیریئر کا، بلکہ میری ذہنی سطح، شعور اور خود فہمی کا بھی۔

"

یہ الفاظ محض ایک اداکارہ کی خود کلامی نہیں، بلکہ ہر اس عورت کی آواز ہیں جو "جوانی کی خوب صورتی" کے بت کو پاش پاش کر کے وقار کی خوب صورتی کو اپنا شعار بناتی ہے۔ ڈیمی مور کا یہ انتخاب، Substance میں ان کی اداکاری، اور ان کی ذاتی کہانی سب مل کر ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیتے ہیں کہ اصل خوب صورتی وہی ہے جو وقت کی چھاپ کو عزت کے ساتھ قبول کرے، نہ کہ اسے مٹانے کی کوشش میں اپنا اصل مٹا دے۔

کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ان کی قدر صرف ان کے چہرے میں ہے؟

کیا سوشل میڈیا، فلٹرز اور اشتہارات ہمیں خود سے بیگانہ کر رہے ہیں؟ جب استھیٹک کلینکس کے دروازے ہر گلی میں کھلنے لگیں، جب "enhance yourself" جیسی زبان معمول کا حصہ بن جائے تو انسان خود سے دور ہونے لگتا ہے۔

یہ عورت ہی نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ خوب صورت نظر آئے لیکن فقط ظاہری خوب صورتی کے حصول میں کہیں اپنی اصل شناخت نہ کھو بیٹھیں یہ اس وقت کا اہم سوال ہے۔

خوبصورتی کا قفس، چاہے وہ شفاف ہو یا سنہرے رنگ کا قفس ہی رہتا ہے۔ اور اصل آزادی تب ہے جب عورت آئینے میں صرف چہرہ نہیں، اپنی اصل پہچان دیکھ سکے اور اس پر فخر کر سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خوب صورتی کے ڈیمی مور کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

اداریے کے بغیر اخبار؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-7

 

شاہنواز فاروقی

کیا دنیا میں انسان کا تصور روح کے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دل کے بغیر انسان کہلا سکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دماغ کے بغیر انسان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہوگا جس کا کوئی موقف ہی نہ ہو جس کا کوئی تناظر ہی نہ ہو، جس کا کوئی ردعمل ہی نہ ہو؟ جیسا کہ ظاہر ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہ مثال صرف انسان کے لیے نہیں اخبار کے لیے بھی صحیح ہے۔ اخبار کا اداریہ اخبار کی روح ہے۔ اخبار کا دل ہے۔ اخبار کا دماغ ہے۔ اخبار کا موقف ہے۔ اخبار کا تناظر ہے۔ اخبار کا ردعمل ہے۔ چنانچہ اخبار کا تصور اداریے کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ نے اداریہ شائع کرنا بند کردیا ہے۔ اخبار کے مالکان نے اس سلسلے میں قارئین کے سامنے اداریہ ترک کرنے کی وجوہات بھی نہیں رکھیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اخبارات اپنے اداریوں سے پہچانے جاتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کامریڈ کا اداریہ لکھتے تھے اور جب انہیں انگریزوں سے کوئی بات منوانی ہوتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ میری بات مان لو ورنہ میں انگریزوں کے خلاف اداریہ لکھ دوں گا۔ ایک دنیا کامریڈ کے اداریوں کی دیوانی تھی، عہد ِ حاضر میں روزنامہ جسارت نے اداریے کی حرمت کو نباہ کر دکھایا۔ 1970ء کی دہائی میں جسارت پاکستان کا واحد اخبار تھا جس نے اپنے اداریوں میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں اس بات پر اصرار کیا کہ شیخ مجیب کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں واضح کیا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کو سیاسی ہونا چاہیے، عسکری نہیں۔ یہ اداریے جسارت کے مدیر عبدالکریم عابد صاحب لکھا کرتے تھے۔ جسارت کے سوا پاکستان کے تمام اخبارات اور ان کے اداریے جنرل یحییٰ کے فوجی آپریشن کی حمایت کررہے تھے۔ یہاں تک کہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جسارت نے بھٹو گردی کے زمانے میں

بھی اداریے کی حرمت کو پوری طرح بحال رکھا۔ جسارت نے ڈٹ کر اپنے اداریوں میں بھٹو کی فسطائیت کی مزاحمت کی۔ چنانچہ بھٹو نے جسارت کے اداریوں میں موجود شعور سے گھبرا کر جسارت ہی کو بند کردیا۔ کراچی میں الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کی تاریخ 30 برسوں پر محیط ہے۔ ان برسوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے اخبارات کیا لاہور کے اخبارات میں بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوتا تھا۔ اس عرصے کے آٹھ دس سال ایسے تھے جب ہمیں جسارت کے اداریے لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے اپنے اداریوں میں کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر تنقید کی۔ ایم کیو ایم ہر دوسرے تیسرے دن دھمکی دیتی تھی کہ وہ جسارت کے دفتر کو بم سے اُڑا دے گی۔ مگر جسارت حق و صداقت کا پرچم بلند کیے کھڑا رہا۔ یہ عرصہ اتنا خوف ناک تھا کہ ملک کے ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی لاہور میں رہتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا آپ سب کے خلاف لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے بھائی میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ کراچی سے ایک ہزار کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے صحافی کے خوف کا یہ عالم تھا مگر جسارت پوری بے خوفی کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے آگے ڈٹا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

روزنامہ جنگ ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ بڑے اداروں کی ذمے داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں مگر روزنامہ جنگ نے کبھی ذمے داری کے حوالے سے بڑا بن کر نہیں دکھایا۔ روزنامہ جنگ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نے کبھی ملک میں فوجی آمریت کی مزاحمت نہیں کی۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے کبھی کسی فوجی آمر کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں کیا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا اُٹھایا تو جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر اچھا نہیں کیا۔ جنرل ایوب نے کہا آپ جنگ کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں پھر سے مارشل لا لگادوں گا۔ جنرل ضیا الحق تقریباً گیارہ سال ملک پر مسلط رہے، جنگ سمیت پاکستان کے تمام اخبارات نے کبھی جنرل ضیا الحق سے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا۔ بالخصوص اپنے اداریوں میں۔ بلاشبہ جنگ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک خاص مرحلے پر ایک کردار ادا کیا اور اس کردار کی تعریف کی جانی چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا جنرل پرویز کے ساتھ تھا جبکہ دوسرا دھڑا وکلا تحریک اور جنرل کیانی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ دھڑے بندی نہ ہوتی تو شاید جنگ اور جیو کبھی اینٹی جنرل پرویز مشرف کردار ادا نہ کرتے۔

روزنامہ جنگ میں اداریے کے خاتمے کی بعض لوگ یہ توجیہ کررہے ہیں کہ فی زمانہ اخبار کا اداریہ سب سے کم پڑھی جانے والی چیز ہے اور یہ بات سو فی صد درست ہے۔ مگر اس میں ایک صنف کی حیثیت سے اداریے کا کوئی قصور نہیں۔ ہم طویل تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی روزنامہ جسارت اور انگریزی اخبار Daily dawn کے اداریے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسارت اور ڈان کھل کر اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں، امریکا اور یورپ پر تنقید کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اخبارات کے اداریوں میں جان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے اخبارات اپنے اداریوں میں حکمرانوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور وہ ایک ایسی زبان و بیان اختیار کرتے ہیں جس میں کوئی گہرائی، معنویت اور دلکشی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جسارت اور ڈان کے سوا کسی اخبار کا اداریہ قاری کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر قارئین اداریہ کیوں پڑھیں؟ جنگ اپنے اداریہ نویسوں کو تمام بالادست طبقات پر تنقید کی آزادی دے۔ اگر صرف 6 ماہ میں جنگ کے اداریے اخبار کی جان نہ بن جائیں تو ہمارا نام بدل دیجیے گا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافت کبھی ’’مشن‘‘ تھی مگر اب ’’کاروبار‘‘ بن گئی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اصل مسئلہ صحافت کا نہیں صحافت کرنے والوں کا ہے۔ انسان، انسان ہو تو وہ کاروبار کو بھی مشن بنالیتا ہے۔ ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تو مشن کو کاروبار بنالیتے ہیں۔ کیا ہم اسلام کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔ برصغیر میں اسلام فاتحین کے ذریعے نہیں تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ عرب دنیا کے جو تاجر برصغیر آئے سب سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنایا۔ حالانکہ یہ ان کی ’’ذمے داری‘‘ نہیں تھی۔ وہ تاجر تھے اور انہیں خود کو تجارت تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر یہ تاجر ’’صاحب ایمان‘‘ تھے، چنانچہ انہوں نے تجارت کو بھی اسلام پھیلانے کے مشن میں ڈھال لیا۔ اس کے برعکس آج کے مسلمان ہیں جو اسلام کو بھی ’’دکانداری‘‘ میں تبدیل کررہے ہیں۔ چنانچہ اصل چیز صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کا ’’ایقان‘‘ یا Conviction ہے۔ روزنامہ جسارت بھی زیادہ اشاعت رکھنے والا اخبار بننا چاہتا ہے مگر اصولوں پر سودے بازی کرکے نہیں اصولوں پر قائم رہ کر۔ ڈیلی ڈان کے مالکان مذہبی نہیں ہیں بلکہ سیکولر ہیں مگر ان کے بھی کچھ ’’اصول‘‘ ہیں۔ ان اصولوں پر وہ کوئی سودے بازی نہیں کرتے۔ چنانچہ جنرل عاصم منیر اور شریف بدمعاشوں کے عہد میں ڈان کو بھی جسارت کی طرح سرکاری اشتہارات نہیں مل رہے، لیکن ڈان اسٹیبلشمنٹ اور شریف بدمعاشوں پر تنقید سے باز نہیں آرہا۔ یہی وہ صحافت ہے جو قوم کے ضمیر اور شعور کی محافظ ہے۔ ایسی صحافت کے دائرے میں اخبار کی خبریں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اداریہ بھی۔ چنانچہ نہ جسارت کبھی اپنا اداریہ بند کرے گا نہ ڈان۔ ایک زمانہ تھا کہ بادشاہوں تک کو یہ خیال ہوتا تھا کہ انہیں تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مگر اب اخبارات تک کے مالکان کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہے کہ انہیں تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے فیصلے سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے اخبارات کو اداریوں سے پاک کررہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • منی بجٹ کی خبریں بے بنیاد ہیں، چیئرمین ایف بی آر کا بیان
  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • ’میری بیوی عورت ہی ہے، ٹرانس جینڈر نہیں‘ فرانسیسی صدر نے ثبوت پیش کرنے کا اعلان کردیا
  • توجہ کا اندھا پن
  • ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • لازوال عشق
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش