UrduPoint:
2025-11-05@03:00:32 GMT

خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) خوبصورتی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے، مگر یہ خواہش کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا، اشتہارات، اور ٹی وی اسکرینز "خوبصورتی" کی ایک مخصوص، غیر فطری اور اکثر ناقابلِ حصول شکل متعین کر چکی ہیں، تو کیا یہ فیصلہ اب بھی عورت کے اپنے اختیار میں ہے؟

صاف رنگت، متناسب خدوخال اور خوش لباسی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔

عورت کو جمالیاتی حسن کا پیکر مانا گیا، مگر جیسے ہی وہ خوبصورتی کے ساتھ ذہانت، علم، حسِ مزاح یا فکری بلوغت کا اظہار کرتی ہے، تو یہی معاشرہ جو اس کی ظاہری دلکشی پر فریفتہ تھا، اس کی ذہنی گہرائی سے خائف ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

معاشرہ عورت کے ذہن کو ظاہری خوب صورتی کے پردے کے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ عورت یا تو حسن کی علامت ہو، یا دانائی کی، دونوں کا امتزاج اکثر ناقابلِ قبول ٹھہرتا ہے۔

یہی سوچ کاسمیٹکس اور بیوٹی انڈسٹری کے تسلط کو دوام بخشتی ہے، جو عورت کو صرف ایک جسمانی مظہر میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ صرف ظاہری خوب صورتی کے عمیق سمندر میں ہی بہتی رہے۔ کم عمر نظر آنے کے لیے جدوجہد کرتی رہے۔

مختلف ذرائع کے مطابق 2023 میں عالمی بیوٹی انڈسٹری کی مالیت 400 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی، اور 2025 تک اس کے مالیت 677 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

گویا خوبصورتی صرف ایک خواب نہیں، ایک زبردست کاروبار بھی ہے۔ یہ وہ صنعت ہے جو ہر عورت کو باور کراتی ہے کہ "تم جیسی ہو، وہ کافی نہیں۔"

پچھلے سال دنیا میں پنجے گاڑھتی استھیٹک کی صنعت اور معاشرے کے بے رحم رویوں پر مبنی ایک جرأت مندانہ فلم سامنے آئی Substance۔

سبسٹینس یعنی مادہ یا اصل۔ یہ فلم صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ آج کے سماج میں پنپتے ہوئے اس جنون کی عکاسی ہے جسے ہم نے "خوبصورتی" کا نام دے رکھا ہے۔

یہ فلم علامتی انداز میں یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا واقعی عورتیں خوبصورت اور جوان دکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں یا مردوں کا معاشرہ انہیں اس جانب دھکیل رہا ہے؟ کیا جسمانی ساخت، رنگ و روپ، اور ظاہری نقوش ہی انسانی پہچان کے بنیادی اجزا بن چکے ہیں؟

فرانسیسی خاتون ہدایتکارہ کی یہ علامتی فلم دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ جیسے کیمرہ نہیں، آئینہ دکھایا جا رہا ہو۔

فلم کا مرکزی کردار ڈیمی مور ہیں، جنہوں نے ایک عمر رسیدہ ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔وہ اپنی شناخت اور خوبصورتی کی بازیابی کے لیے ایک نئی دوا کا استعمال شروع کرتی ہیں۔ یہ دوا جسمانی تبدیلی کے ذریعے اسے "نئی زندگی" دیتی ہے، مگر اس نئی زندگی میں وہی پرانا سچ چھپا ہوتا ہے کہ عورت جتنی بھی بدلے، معاشرہ اسے اپنی اصل صورت میں کبھی قبول نہیں کرتا۔

ایک منظر میں وہ اداکارہ، جوان ہو چکی ہوتی ہے، آئینے میں خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف و حیرانی کا امتزاج ہے۔ وہ اپنے نئے چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہے، مگر اندر ایک گھبراہٹ ہے: کیا میں یہی ہوں؟

ایک اور منظر میں اس کا پرانا وجود، ایک بے جان جسم کی مانند ایک کرسی پر گرا ہوا ہے وہ اصل، جسے خوبصورتی کی نئی تعریف نے مار دیا ہے۔

سبسٹینس ایک سوالنامہ ہے کہ ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ اور کیوں؟ کیا یہ صرف ذاتی انتخاب ہے؟ یا دباؤ؟

ڈیمی مور نے فلم Substance میں مرکزی کردار قبول کرنے کا فیصلہ محض اداکاری کے جوہر دکھانے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے ایک ذاتی اور گہرا تجربہ پوشیدہ تھا۔ وہ خود اپنی زندگی میں کاسمیٹک سرجریوں کے ایک ایسے کٹھن سفر سے گزر چکی ہیں جس نے نہ صرف ان کے چہرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، بلکہ ان کی شناخت، خود اعتمادی اور اندرونی سکون پر بھی کاری ضرب لگائی۔

ڈیمی مور کا اعتراف ہے کہ خوب صورتی کے تعاقب میں انہوں نے کئی ایسے فیصلے کیے جو وقتی طور پر دل کو بھلے لگے، مگر وقت کے ساتھ یہ تجربات ان پر بھاری پڑے۔ ان کا چہرہ، جو برسوں سے شائقینِ سینما کے لیے ایک پہچان تھا، مصنوعی تبدیلیوں کے بعد اجنبی سا محسوس ہونے لگا۔ نہ وہ خود کو پہچان سکیں، نہ دوسروں کی نظر میں وہ پہلے والی رہیں۔

مگر وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔

ڈیمی مور کہتی ہیں، "مجھے وقت کے ساتھ یہ ادراک ہوا کہ بڑھتی عمر میں بھی خوب صورتی، وقار اور کشش ممکن ہے۔" یہ ایک عورت کی وہ داخلی جیت ہے، جو عمر کے ہر مرحلے پر نئی شناخت کے ساتھ جینا سیکھتی ہے۔

وہ کہتی ہیں، "آج اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں ماضی کی 'ڈیمی مور' بن جاؤں، تو میں صاف انکار کر دوں گی کیونکہ یہ دور میری زندگی کا اصل عروج ہے، نہ صرف میرے کیریئر کا، بلکہ میری ذہنی سطح، شعور اور خود فہمی کا بھی۔

"

یہ الفاظ محض ایک اداکارہ کی خود کلامی نہیں، بلکہ ہر اس عورت کی آواز ہیں جو "جوانی کی خوب صورتی" کے بت کو پاش پاش کر کے وقار کی خوب صورتی کو اپنا شعار بناتی ہے۔ ڈیمی مور کا یہ انتخاب، Substance میں ان کی اداکاری، اور ان کی ذاتی کہانی سب مل کر ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیتے ہیں کہ اصل خوب صورتی وہی ہے جو وقت کی چھاپ کو عزت کے ساتھ قبول کرے، نہ کہ اسے مٹانے کی کوشش میں اپنا اصل مٹا دے۔

کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ان کی قدر صرف ان کے چہرے میں ہے؟

کیا سوشل میڈیا، فلٹرز اور اشتہارات ہمیں خود سے بیگانہ کر رہے ہیں؟ جب استھیٹک کلینکس کے دروازے ہر گلی میں کھلنے لگیں، جب "enhance yourself" جیسی زبان معمول کا حصہ بن جائے تو انسان خود سے دور ہونے لگتا ہے۔

یہ عورت ہی نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ خوب صورت نظر آئے لیکن فقط ظاہری خوب صورتی کے حصول میں کہیں اپنی اصل شناخت نہ کھو بیٹھیں یہ اس وقت کا اہم سوال ہے۔

خوبصورتی کا قفس، چاہے وہ شفاف ہو یا سنہرے رنگ کا قفس ہی رہتا ہے۔ اور اصل آزادی تب ہے جب عورت آئینے میں صرف چہرہ نہیں، اپنی اصل پہچان دیکھ سکے اور اس پر فخر کر سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خوب صورتی کے ڈیمی مور کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی