خوبصورتی کا قفس اور آئینے میں قید عورت
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) خوبصورتی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے، مگر یہ خواہش کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا، اشتہارات، اور ٹی وی اسکرینز "خوبصورتی" کی ایک مخصوص، غیر فطری اور اکثر ناقابلِ حصول شکل متعین کر چکی ہیں، تو کیا یہ فیصلہ اب بھی عورت کے اپنے اختیار میں ہے؟
صاف رنگت، متناسب خدوخال اور خوش لباسی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
عورت کو جمالیاتی حسن کا پیکر مانا گیا، مگر جیسے ہی وہ خوبصورتی کے ساتھ ذہانت، علم، حسِ مزاح یا فکری بلوغت کا اظہار کرتی ہے، تو یہی معاشرہ جو اس کی ظاہری دلکشی پر فریفتہ تھا، اس کی ذہنی گہرائی سے خائف ہو جاتا ہے۔(جاری ہے)
معاشرہ عورت کے ذہن کو ظاہری خوب صورتی کے پردے کے پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ عورت یا تو حسن کی علامت ہو، یا دانائی کی، دونوں کا امتزاج اکثر ناقابلِ قبول ٹھہرتا ہے۔
یہی سوچ کاسمیٹکس اور بیوٹی انڈسٹری کے تسلط کو دوام بخشتی ہے، جو عورت کو صرف ایک جسمانی مظہر میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ صرف ظاہری خوب صورتی کے عمیق سمندر میں ہی بہتی رہے۔ کم عمر نظر آنے کے لیے جدوجہد کرتی رہے۔مختلف ذرائع کے مطابق 2023 میں عالمی بیوٹی انڈسٹری کی مالیت 400 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی، اور 2025 تک اس کے مالیت 677 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
گویا خوبصورتی صرف ایک خواب نہیں، ایک زبردست کاروبار بھی ہے۔ یہ وہ صنعت ہے جو ہر عورت کو باور کراتی ہے کہ "تم جیسی ہو، وہ کافی نہیں۔"پچھلے سال دنیا میں پنجے گاڑھتی استھیٹک کی صنعت اور معاشرے کے بے رحم رویوں پر مبنی ایک جرأت مندانہ فلم سامنے آئی Substance۔
سبسٹینس یعنی مادہ یا اصل۔ یہ فلم صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ آج کے سماج میں پنپتے ہوئے اس جنون کی عکاسی ہے جسے ہم نے "خوبصورتی" کا نام دے رکھا ہے۔
یہ فلم علامتی انداز میں یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا واقعی عورتیں خوبصورت اور جوان دکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں یا مردوں کا معاشرہ انہیں اس جانب دھکیل رہا ہے؟ کیا جسمانی ساخت، رنگ و روپ، اور ظاہری نقوش ہی انسانی پہچان کے بنیادی اجزا بن چکے ہیں؟فرانسیسی خاتون ہدایتکارہ کی یہ علامتی فلم دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ جیسے کیمرہ نہیں، آئینہ دکھایا جا رہا ہو۔
فلم کا مرکزی کردار ڈیمی مور ہیں، جنہوں نے ایک عمر رسیدہ ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔وہ اپنی شناخت اور خوبصورتی کی بازیابی کے لیے ایک نئی دوا کا استعمال شروع کرتی ہیں۔ یہ دوا جسمانی تبدیلی کے ذریعے اسے "نئی زندگی" دیتی ہے، مگر اس نئی زندگی میں وہی پرانا سچ چھپا ہوتا ہے کہ عورت جتنی بھی بدلے، معاشرہ اسے اپنی اصل صورت میں کبھی قبول نہیں کرتا۔ایک منظر میں وہ اداکارہ، جوان ہو چکی ہوتی ہے، آئینے میں خود کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوف و حیرانی کا امتزاج ہے۔ وہ اپنے نئے چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہے، مگر اندر ایک گھبراہٹ ہے: کیا میں یہی ہوں؟
ایک اور منظر میں اس کا پرانا وجود، ایک بے جان جسم کی مانند ایک کرسی پر گرا ہوا ہے وہ اصل، جسے خوبصورتی کی نئی تعریف نے مار دیا ہے۔
سبسٹینس ایک سوالنامہ ہے کہ ہم کس حد تک جا سکتے ہیں؟ اور کیوں؟ کیا یہ صرف ذاتی انتخاب ہے؟ یا دباؤ؟ڈیمی مور نے فلم Substance میں مرکزی کردار قبول کرنے کا فیصلہ محض اداکاری کے جوہر دکھانے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے ایک ذاتی اور گہرا تجربہ پوشیدہ تھا۔ وہ خود اپنی زندگی میں کاسمیٹک سرجریوں کے ایک ایسے کٹھن سفر سے گزر چکی ہیں جس نے نہ صرف ان کے چہرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، بلکہ ان کی شناخت، خود اعتمادی اور اندرونی سکون پر بھی کاری ضرب لگائی۔
ڈیمی مور کا اعتراف ہے کہ خوب صورتی کے تعاقب میں انہوں نے کئی ایسے فیصلے کیے جو وقتی طور پر دل کو بھلے لگے، مگر وقت کے ساتھ یہ تجربات ان پر بھاری پڑے۔ ان کا چہرہ، جو برسوں سے شائقینِ سینما کے لیے ایک پہچان تھا، مصنوعی تبدیلیوں کے بعد اجنبی سا محسوس ہونے لگا۔ نہ وہ خود کو پہچان سکیں، نہ دوسروں کی نظر میں وہ پہلے والی رہیں۔
مگر وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔
ڈیمی مور کہتی ہیں، "مجھے وقت کے ساتھ یہ ادراک ہوا کہ بڑھتی عمر میں بھی خوب صورتی، وقار اور کشش ممکن ہے۔" یہ ایک عورت کی وہ داخلی جیت ہے، جو عمر کے ہر مرحلے پر نئی شناخت کے ساتھ جینا سیکھتی ہے۔وہ کہتی ہیں، "آج اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں ماضی کی 'ڈیمی مور' بن جاؤں، تو میں صاف انکار کر دوں گی کیونکہ یہ دور میری زندگی کا اصل عروج ہے، نہ صرف میرے کیریئر کا، بلکہ میری ذہنی سطح، شعور اور خود فہمی کا بھی۔
"یہ الفاظ محض ایک اداکارہ کی خود کلامی نہیں، بلکہ ہر اس عورت کی آواز ہیں جو "جوانی کی خوب صورتی" کے بت کو پاش پاش کر کے وقار کی خوب صورتی کو اپنا شعار بناتی ہے۔ ڈیمی مور کا یہ انتخاب، Substance میں ان کی اداکاری، اور ان کی ذاتی کہانی سب مل کر ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیتے ہیں کہ اصل خوب صورتی وہی ہے جو وقت کی چھاپ کو عزت کے ساتھ قبول کرے، نہ کہ اسے مٹانے کی کوشش میں اپنا اصل مٹا دے۔
کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ان کی قدر صرف ان کے چہرے میں ہے؟
کیا سوشل میڈیا، فلٹرز اور اشتہارات ہمیں خود سے بیگانہ کر رہے ہیں؟ جب استھیٹک کلینکس کے دروازے ہر گلی میں کھلنے لگیں، جب "enhance yourself" جیسی زبان معمول کا حصہ بن جائے تو انسان خود سے دور ہونے لگتا ہے۔
یہ عورت ہی نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ خوب صورت نظر آئے لیکن فقط ظاہری خوب صورتی کے حصول میں کہیں اپنی اصل شناخت نہ کھو بیٹھیں یہ اس وقت کا اہم سوال ہے۔
خوبصورتی کا قفس، چاہے وہ شفاف ہو یا سنہرے رنگ کا قفس ہی رہتا ہے۔ اور اصل آزادی تب ہے جب عورت آئینے میں صرف چہرہ نہیں، اپنی اصل پہچان دیکھ سکے اور اس پر فخر کر سکے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خوب صورتی کے ڈیمی مور کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ججز کے تبادلہ کو آئینی اور قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سنیارٹی کا معاملہ طے ہونے تک بطور چیف جسٹس کام جاری رکھنے کا بھی کہا ہے۔
تاہم سنیارٹی کا معاملہ طے کرنے کے لیے صدر مملکت کو کہا گیا ہے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ واپس صدر مملکت کے پاس چلا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے خود یہ معاملہ طے نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ تبادلہ کو نئی تعیناتی نہیں کہا جاسکتا ۔
یہ فیصلہ دو تین کے تناسب سے آیا ہے۔ تین ججز نے تبادلہ کو درست قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا ہے اور اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ تین ججز نے ججز کے تبادلے کے نوٹفکیشن کو آئینی قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے نوٹفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا کہا ہے۔
صدر مملکت کا ججز کے تبادلے کا اختیار آئین میں موجود ہے۔ اسی لیے اکثریتی ججز نے قرار دیا ہے کہ آئین میں دیے گئے اختیارات کو کوئی قانون ختم نہیں کر سکتا۔ یہ سادہ بات ہے کہ آئین کو قانون پر ترجیح حاصل ہے۔ اگر آئین وقانون میں اختلاف ہو تو آئین کی جیت ہوگی۔قانون کی آئین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے صدر مملکت کے آئینی اختیار کو نہ تو کوئی عدالت ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون ختم کر سکتا ہے۔
یہ کیس اس لیے بھی دلچسپ تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کی تعیناتی کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے۔ اس لیے عدالت کے سامنے یہ نقطہ بھی تھا کہ ججز کے تبادلے کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کیا ججز کے تبادلے بھی جیوڈیشل کمیشن کے پاس نہیں ہونے چاہیے۔ ان تبادلوں کی توثیق جیوڈیشل کمیشن سے ہونی چاہیے۔ لیکن اب یہ آئین کی دو الگ الگ شقیں ہیں۔ تبادلے کا اختیار صدر کو بھی آئین نے دیا ہے۔ جب کہ نئے ججز کی تعیناتی کا اختیار بھی صدر مملکت کو آئین نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے دنوں شقوں کو درست قرار دیا ہے۔
یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ جن کا موقف تھا کہ یہ تبادلے غیر آئینی ہیں اور ان ججز کا موقف تھا کہ جب ایک جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوتا ہے تو اسے نئی تعیناتی قرار دیا جائے۔ اسے نیا حلف لینا چاہیے۔ اس کی پرانے ہائی کورٹ کی سنیارٹی ختم تصور کی جائے اور تبادلے کے بعد نئے ہائی کورٹ میں نئی سنیارٹی اور نئی تعیناتی قرار دی جائے۔ اب یہ منطق قابل فہم نہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ججز بھی ریاست کے ملازم ہیں۔ ان کی خود مختاری انھیں نہ تو آئین سے بالا بناتی ہے اور نہ ہی قانون سے بالا بناتی ہے۔ ججز آئین وقانون کے ماتحت ہی ہیں۔ انھیں کام بھی آئین وقانون کے دائرے میں ہی کرنا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہم ججز کی ایک یونین بھی دیکھتے ہیں۔ پہلے چھ ججز نے ایک خط لکھا۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس عدلیہ کے نظام میں مداخلت روکنے کے تمام اختیارات موجود ہیں۔ اسے کسی سے مدد مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بیرونی مداخلت تھی تو جج خود روک سکتے تھے۔
اب دوسری طرف کی یہ دلیل بھی ہے کہ جب بانی تحریک انصاف کے مقدمات کے لیے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اسلام آباد ہائی کورٹ اکٹھے ہوتے ہیں، چیف جسٹس کے سیکریٹری کو ملتے ہیں، رجسٹرار کو ملتے ہیں تو کیا یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں۔ کیا صرف اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ڈالنا غلط ہے اور تحریک انصاف کا دباؤ ڈالنا جائز ہے۔ کیا اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی خط لکھ دینا چاہیے۔ نہیں میں خطوں کو سیاسی خط سمجھتا تھا۔ اور سمجھتا ہوں۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے ججز جس مقصد کے لیے سپریم کورٹ گئے تھے انھیں وہ حاصل نہیں ہوا بلکہ الٹا کافی نقصان ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو تا حکم ثانی چیف جسٹس کے عہدہ پر برقرا ر رہنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اب وہ جیوڈیشل کمیشن کی توثیق کے بھی محتاج نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پہلے صدر مملکت سنیارٹی کا معاملہ طے کریں گے۔ پھر کچھ ہو گا۔
اس میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ صدر مملکت کو کوئی طاقت بھی فوری فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کوئی عدالتی فیصلہ بھی صدر مملکت کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ فوری فیصلہ کریں۔ صدر مملکت کو عدالتی استثناء بھی حاصل ہے۔ اس لیے صدر مملکت کوئی جلدی میں نہیں ہونگے۔ اور پھر جب تک وہ فیصلہ نہیں کرتے جسٹس سرفراز ڈوگر نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے طور پر کام کرتے رہنا ہے۔ اس لیے صورتحال کافی کنٹرول میں ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جسٹس ڈوگر جسٹس محسن اختر کیانی سے چھ ماہ پہلے جج بنے۔ اس لیے بطور جج وہ سینئر ہیں۔ وہ پہلے جج بنے اس میں کوئی ابہام نہیں۔
جہاں تک جسٹس محسن اختر کیانی کا تعلق ہے۔ اس کیس کے فیصلہ سے انھیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر ججز کے تبادلہ کو غیر آئینی قرار دے دیا جاتا تو جسٹس محسن اختر کیانی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار ہوجاتی۔اب وہ راستہ بند ہو گیا ہے۔ اب انھیں صرف بطور جج ہی کام کرنا ہے اور وہ بھی جسٹس ڈوگر کے ماتحت کام کرنا ہے۔ کیا وہ اب مستعفی ہونگے یا وہ کام جاری رکھیں گے۔ ان کے مستعفیٰ ہونے کا بھی اسٹبلشمنٹ کو فائدہ ہوگا۔ جیوڈیشل کمیشن سے نئی تعیناتی ہو جائے گی۔ ویسے بھی عدلیہ میں اب اگر آپ سپر سیڈ ہو جائیں تو مستعفیٰ ہونے کا کلچر نہیں۔ اب یہی کلچر ہے کہ کام جاری رکھیں اور وقت کا انتظار کریں۔