پاک ایئرفورس کی تباہ کن کاروائی، فرانسیسی حکام کا رافیل طیارے تباہ ہونے کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
پاکستان کی جانب سے رافیل طیارہ گرانے کی فرانسیسی حکام کی تصدیق ، دنیا میں جدید ترین رافیل جنگی طیارہ گرانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس اہلکار نے پاکستان کی جانب سے بھارت کے جوابی حملے میں جدید ترین رافیل طیارہ مار گرانے کی تصدیق کر دی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتاتے ہوئے فرانسیسی انٹیلی جنس اہلکار نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے رافیل طیارہ مار گرانے کی تصدیق کی بلکہ اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس جدید ترین جنگی طیارے کو مار گرانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ تاہم رافیل بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن نے میڈیا کو اس حوالے سے جواب دینے سے گریز کیا ہے۔ واضح رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب بھارت نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا اور شہری آبادیوں کو نشانہ بناتے ہوئے 26 پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ پاکستان فوج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور اپنےدفاع میں دشمن کے 5 طیارے، ایک ڈرون مارگرایا، 3 رافیل، ایک مگ 29 اور ایک ایس یو طیارے کو مار گرایا۔ تاہم بھارتی حملے میں پاک فضائیہ کے تمام طیارے اور اثاثے محفوظ ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے رافیل طیارہ گرائے جانے کے بعد یہ طیارہ بنانے والی فرانسیسی کمپنی کے عالمی مارکیٹ میں شیئرز گر گئے جبکہ جے ایف 17 تھنڈر طیارہ ساز چینی کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان کی جانب سے رافیل طیارہ
پڑھیں:
ہر 15 سال بعد تباہ کن سیلاب یا خشک سالی؟ پاکستان کے لیے مصنوعی ذہانت کی چونکا دینے والی پیش گوئی
پاکستان کے مستقبل سے متعلق ایک نئی سائنسی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جنوبی کوریا کی پوسٹیک یونیورسٹی (Pohang University of Science and Technology) کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان آئندہ برسوں میں باقاعدگی سے “سپر فلڈز” یعنی شدید سیلاب اور سنگین خشک سالی کا سامنا کرے گا — اور یہ سلسلہ تقریباً ہر 15 سال بعد دہرایا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف بین الاقوامی سائنسی جریدے Environmental Research Letters میں شائع ہوئی ہے، جس کی قیادت پروفیسر جونگہُن کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اس تحقیق میں پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم حسن رضا، اور چین کی سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر داگانگ وانگ اور ان کی ٹیم بھی شامل ہے۔
پاکستان تحقیق کا مرکز کیوں؟
تحقیقی ٹیم نے پاکستان پر فوکس اس لیے کیا کیونکہ یہاں کی بقاء بڑی حد تک دریاؤں، خصوصاً دریائے سندھ پر منحصر ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے ان دریاؤں کے بہاؤ کو غیر یقینی بنا دیا ہے، جس کے باعث پانی کی مؤثر منصوبہ بندی اور انتظامی حکمتِ عملی ایک چیلنج بن چکی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، جو گلوبل ساؤتھ کا حصہ ہیں، نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار معاشی اور تکنیکی وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت سے موسمیاتی پیش گوئیوں میں انقلاب
اس تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ ماہرین نے روایتی موسمی ماڈلز پر انحصار کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیا۔ عام ماڈلز پہاڑی علاقوں، جیسے گلگت بلتستان یا شمالی خیبرپختونخوا میں بارش اور دریا کے بہاؤ کی درست پیش گوئی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ AI کی مدد سے ماہرین نے دریا کے ماضی کے ڈیٹا اور زمینی مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے ایسے موسمیاتی رجحانات دریافت کیے جو پہلے چھپے ہوئے تھے۔
نتائج کے مطابق بالائی دریائے سندھ میں ہر 15 سال کے لگ بھگ ایک بڑا سیلاب یا خشک سالی متوقع ہے۔
دیگر قریبی دریا تقریباً 11 سال کے وقفے سے ایسے ہی شدید موسمی حالات کا سامنا کریں گے۔
حکومت کے لیے ایک واضح انتباہ
یہ تحقیق پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے:
تمام دریاؤں کے لیے ایک جیسی حکمت عملی کارگر نہیں۔ ہر دریا کی بنیاد پر الگ، سائنسی اور مقامی حالات کے مطابق منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
پروفیسر جونگہُن کام کا کہنا ہے کہ یہ نئی AI ٹیکنالوجی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان خطوں کے لیے بھی مفید ہے جو موسمیاتی لحاظ سے کمزور اور ڈیٹا کے فقدان کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو AI موسمیاتی خطرات سے نمٹنے میں انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے۔