جنگ بندی کے بعد بنگلادیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا امکان روشن
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
جنگ بندی کے اعلان کے بعد بنگلا دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا امکان روشن ہوگیا۔ بنگلادیشی کرکٹ بورڈ نے دورہ کے لیے گرین سگنل دےدیا۔
پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے5 میچز 25 مئی سے 3 جون تک فیصل آباد میں کھیلے جانے ہیں۔ اس سے قبل بنگلا دیشی ٹیم شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں متحدہ عرب امارات کے خلاف دو ٹی ٹوئنٹی میچز 17 اور 19 مئی کو کھیلے گی۔
قبل ازیں بنگلادیشی کرکٹ بورڈ نے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا کہ آئندہ دورہ پاکستان کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ کھلاڑیوں اور معاون عملے کی حفاظت اور تحفظ بورڈ کی اولین ترجیح ہے اوردورے سے متعلق تمام فیصلے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق بنگلا دیشی کرکٹ بورڈ نے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد آئی پی ایل اور پی ایس ایل کے التوا کو دیکھتے ہوئے دورہ کا فیصلہ موخر کردیا تھا۔
بنگلا دیشی بورڈ کے ڈائریکٹرز نے ہفتہ کو شیر بنگلا نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں صورتحال پر غور کے بعد میزبان کرکٹ بورڈ سے تبادلہ خیال کیا۔
دریں اثنا پی سی بی کے ترجمان نے دورہ کے حوالے سے دونوں ممالک کے بورڈز کے درمیان رابطہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق فیصلہ سامنے آئے گا۔
ابتدائی شیڈول کے مطابق بنگلادیشی کرکٹ ٹیم کی 21 مئی کو پاکستان آمد طے ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ایک پیچیدہ مگر ناگزیر حقیقت رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے لے کر آج تک، واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہے، مگر ہر دور میں خواہ وہ جمہوری حکومت ہو یا عسکری اقتدار امریکہ کو ایک تزویراتی شراکت دار کے طور پر دیکھا گیا۔
1950 ء کی دہائی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جانب سے امریکہ کو پہلے دورے کی ترجیح دینا اس تعلق کی بنیاد کا اظہار تھا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں جنرل مشرف نے بھی امریکہ سے فوجی و اقتصادی مفادات حاصل کرنے کے لیے سفارتی راستے اختیار کیے۔ ہر دورہ کسی نہ کسی داخلی بحران، بیرونی دبائو یا اسٹرٹیجک ضرورت کے پس منظر میں ہوا چاہے وہ سرد جنگ کے ایام ہوں یا نائن الیون کے بعد کی جنگی حکمتِ عملی۔اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے حالیہ دنوں میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ نہ صرف پاک امریکہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہے بلکہ یہ دورہ بدلتی ہوئی عالمی سفارتی فضا، خطے میں سٹرٹیجک تبدیلیوں اور پاکستان کی داخلی سیاسی و اقتصادی ضرورتوں کے تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ دورہ محض ایک رسمی ملاقات نہیں، بلکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک طرف پاکستان معاشی چیلنجز، دہشت گردی کی نئی لہر، اور بین الاقوامی تنہائی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف عالم اسلام ایک دشوار گزار مرحلے سے گزر رہا ہے۔ چنانچہ یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ دورہ پاکستان کے لیے کچھ خاطر خواہ نتائج کا حامل بھی ہوگا یا صدر امریکہ اور پاکستان کے آرمی چیف کے درمیان ایک فوٹو سیشن چند ملاقاتوں وہ بھی صرف ’’دکھاوے‘‘ کی اور بس ۔ اس کے نتائج عملی طور پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں؟ اور کیا جنرل عاصم منیر اپنے پیش روں سے ہٹ کر کوئی نئی راہ متعین کر پائے؟
جنرل ایوب خان نے اس وقت امریکہ کا دورہ کیا جب پاک امریکہ اتحادی تھے تبھی صدر جان کینیڈی نے شاندار استقبالئے کا بھی اہتمام کیا یوں سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے تحت پاکستان کے امریکہ سے دفاعی امداد اور اسلحہ لینے کی راہ ہموار ہوئی۔وہ ایک باوقار اور ثمر بار دورہ تھا۔آمر ضیا کی افغان جہاد کے تناظر میں امریکہ سے پینگیں بڑھیں یوں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاوشوں سے روس کے حلاف مزاحمت پروان چڑھی اور اقتصادی پیکیجز ،دفاع ‘کمک اور اسلحے کی آمد کا تسلسل دکھائی دیا۔
اس زعم میں امریکہ نے ضیا ء آمریت کی جمہوریت دشمنیوں سے بھی صرف نظر کیا۔آمر پرویز مشرف جمہوریت کو روندتا ہوا آیا تو اس نے مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت کی لاش پر کھڑے ہوکر امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگایا اور متعدد بار امریکی دورے کئے اور وہ پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کے حصول میں کامیاب ہوا بھلے اس نے اپنی داخلی اور خارجی صورت حال کو نہ صرف دہشت گردی کے حوالے کیا بلکہ قو می سالمیت اور خود مختاری کے کئی سوالات کھڑے کر دیئے۔
بعد ازاں یہ ہوا کہ امریکہ خود ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا۔تب پاکستان امریکہ کی قربت کی بہت ساری قیمت ادا کرچکاتھا ۔موجودہ جنرل عاصم منیر کایہ دورہ عالمی صف بندی کے تناظر میں ہوا ہے ۔ بظاہر اس میں کسی طرح کا کوئی امریکی مطالبہ منصہ شہود پر نہیں آیا ،انسداد دہشت گردی ،دفاعی رابطوں اور اقتصادی معاملات کے گر د میل ملاقات گھومتے رہے ،کہیں کہیں اعتماد کی بحالی کا تاثر بھی چہرہ نمائی کرتا رہا مگر اس دورے کے فوری امور و رموز کسی سطح پر دکھائی نہیں دیئے۔
علاقائی تناظر میں دورے کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو امریکہ آج سے نہیں اول دن سے بھارت کو چین کے خلاف اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر ڈیل کرتا رہا ہے یوں پاک امریکہ تعلق کا نیا سفر بھارت کے لئے یقینا گراں بار ۔ بھارت کبھی یہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی فورم پر پاکستان کے کشمیریا دہشت گردی کے موقف کو قا بل سماعت گردانا جائے۔
جنرل عاصم منیر نے گو اس امرکا اعادہ کیا ہے کہ سی پیک اور چین کے ساتھ ناقابل تردید قومی مفادکا حصہ ہیں مگر امریکہ کی طرف پاکستان کے ایک بار پھر جھکائو کی روش اختیار کرنے پر پاک چین تعلقات میں ہلکی پھلکی سرد مہری کا خدشہ تو ہو ہی سکتا ہے ۔