پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر پھر سے اجاگر کر دیا، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان پھر سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اب امریکا بھی ثالث کا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کشمیر مسئلے کو عالمی سطح پر لانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں غیور اور بہادر پاکستانیوں نے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کے حق میں ریلیاں نکالیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔
مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں نے بھی پاک فوج کی بہادری اور دلیری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کا وقت آگیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کشمیر کے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، لداخ میں جمہوری حقوق کی بحالی کیلئے پُرتشدد مظاہرے
اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے پارلیمنٹ ممبر سید ناصر حسین نے کہا کہ لیہہ لداخ کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے، مودی حکومت اور لداخ کے لوگوں کے درمیان جاری تنازعات اور تناؤ نے شہری بدامنی اور آتش زنی کو جنم دیا ہے۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: جاوید عباس رضوی
مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع لیہہ (لداخ) میں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کو لیکر پُرتشدد مظاہرے ہوئے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان سخت جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے بی جے پی کے مقامی دفتر کو آگ لگا دی۔ لیہہ میں تحریک کی قیادت لیہہ اپیکس باڈی (ایک آزاد تنظیم) کرتی ہے۔ وہ لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیہہ لداخ کا دارالحکومت ہے، جو ایک مرکز کے زیرانتظام علاقہ ہے، اسے جموں و کشمیر کی تقسیم (2019ء) کے بعد یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا گیا تھا۔ ادھر لیہہ اپیکس باڈی کے رہنماء بھوک ہڑتال پر ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ جب تک ان کے ریاستی مطالبات پورے نہیں ہوتے، وہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ وہ 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ معروف سماجی کارکن سونم وانگچک بھی اسی تنظیم کے تحت بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اب جبکہ مظاہرین نے تشدد کا سہارا لیا ہے، وانگچک نے امن کی اپیل کی ہے۔ تشدد میں چار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ وانگچک نے اپنی 15 روزہ بھوک ہڑتال ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس گذشتہ چار برسوں سے بھارتی وزارت داخلہ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔ لیہہ اپیکس باڈی نے مودی حکومت سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے مذاکرات کے لئے 6 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ وزارت داخلہ کے ساتھ سابقہ میٹنگ مئی میں ہوئی تھی۔ لیہہ اپیکس باڈی کا مطالبہ ہے کہ جب بھی حکومت میٹنگ کا وقت طے کرتی ہے، تاریخ کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس سے مشورہ کیا جانا چاہیئے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت خود بخود مذاکرات کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے اور انہیں بغیر اطلاع کے چھوڑ دیتی ہے۔ لیہہ ایپکس باڈی کے شریک چیئرمین چیرنگ دورجے نے کہا کہ ہمارا احتجاج پُرامن ہے، لیکن لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، صورتحال ہاتھ سے نکل سکتی ہے، مذاکرات پہلے ہی ملتوی ہوچکے ہیں۔
سونم وانگچک چاہتے ہیں کہ حکومت آئندہ ہل کونسل انتخابات سے قبل لداخ کو "چھٹے شیڈول" میں شامل کرنے کا مطالبہ تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ مطالبہ مان لے تو لداخ کے لوگ ووٹ میں حصہ لیں گے اور اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ میڈیا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت چاہتے ہیں اور اس میں چھٹے شیڈول کے تحفظات پر بات چیت شامل ہونی چاہیئے، یہ وعدہ 2020ء میں گزشتہ انتخابات کے دوران کیا گیا تھا۔ چھٹے شیڈول میں لداخ کو شامل کرنا بی جے پی کے منشور میں نمبر ایک عہد تھا۔ اس نے ایک بار پھر ہل کے انتخابات میں جیتنے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے مظاہرین کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے، جس سے ملک کی بدنامی ہو، اس لئے ہم پُرامن طریقے سے تحریک جاری رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا "میرا یہ مطالبہ پچھلے پانچ سال سے تھا، آپ کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ملک کا آئین بھی دو سال میں تیار ہوگیا تھا، پھر تاخیر کیوں۔"
سونم وانگچک نے کہا کہ جموں و کشمیر کو پہلے ہی اپنی اسمبلی اور اپنی حکومت مل چکی ہے، تو لداخ کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سونم وانگچک نے کہا کہ لداخ اب بھی مودی حکومت کے اہلکار چلا رہے ہیں۔ وانگچک نے پہلے کہا تھا کہ یہ مطالبات آئین کے دائرے میں ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی نے خود اپنے منشور میں آرٹیکل 244 کے تحت لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وانگچک نے 2024ء میں لیہہ سے دہلی کا سفر پیدل چل کر کیا۔ ان کے مطابق وزارت داخلہ نے صرف دو مطالبات پر بات چیت پر اتفاق کیا: علیحدہ سروس کمیشن کی تشکیل اور دو پارلیمانی نشستیں۔ لیہہ اپیکس باڈی سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ لداخ جموں و کشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ان کا بنیادی مطالبہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرنا تھا اور اسے یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا گیا تھا، اس لئے ان کا مطالبہ پورا ہوچکا ہے، اس لئے اس پر بات نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک "چھٹے شیڈول" میں شمولیت کا تعلق ہے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ چھٹا شیڈول، دفعہ 244 کے تحت بیان کیا گیا ہے، آسام، میگھالیہ، میزورم اور تریپورہ جیسے قبائلی علاقوں کو زیادہ خود مختاری فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت اے ڈی سی یا خود مختار ضلع کونسل، زمین کے استعمال، وراثت کے قوانین اور سماجی رسم و رواج کا انتظام کرتی ہے۔ اے ڈی سی قانون سازی، ایگزیکٹو اور مالیاتی اختیارات بھی استعمال کرتا ہے۔ اس کا کردار مقامی وسائل کا انتظام کرنا بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اے ڈی سی ریاستی قوانین کی جگہ لے کر اپنے قوانین بنا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے گورنر کی رضامندی درکار ہے۔ فی الحال لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے پاس ضلعی سطح پر منصوبہ بندی اور ترقی کو نافذ کرنے کا اختیار ہے۔
لداخ کے احتجاج کرنے والے طلباء بھی بے روزگاری سے ناراض ہیں۔ کچھ مظاہرین نے ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ لداخ کے 26 فیصد گریجویٹس بے روزگار ہیں، جبکہ قومی سطح پر یہ 13.4 فیصد ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لداخیوں کو 95 فیصد سرکاری نوکریاں ملیں۔ کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے اہم رہنماء سجاد کرگلی نے سوشل میڈیا پر لکھا "لیہہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بدقسمتی کی بات ہے۔ لداخ، جو کبھی پُرامن تھا، اب حکومت کی جانب سے یونین ٹیریٹری بنانے کی ناکام کوشش کی وجہ سے مایوسی اور عدم تحفظ کے احساس میں گھرا ہوا ہے۔" انہوں نے کہا کہ یہ مودی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات چیت کو دوبارہ شروع کرے اور لداخ ریاست کے مطالبات کو پورا کرے اور اس کے بغیر ریاست کا مطالبہ پورا کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں لوگوں سے امن برقرار رکھنے اور صبر کی اپیل کرتا ہوں۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارتی حکومت کے لئے یہ وقت مناسب ہے کہ وہ ایمانداری سے اور پوری طرح سے اس بات کا جائزہ لے کہ 2019ء کے بعد سے واقعی کیا بدلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ویڈیو وادی کشمیر کی نہیں ہے، جسے بدامنی کا مرکز سمجھا جاتا ہے، بلکہ لداخ کے دل کا ہے، جہاں مشتعل مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں اور بی جے پی کے دفتر کو آگ لگا دی ہے۔ لیہہ جو طویل عرصے سے اپنے امن و آشتی کے لئے جانا جاتا ہے، لیکن اب تشویشناک مظاہروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ لوگ صبر کھو چکے ہیں، دھوکہ دہی، غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ادھورے وعدوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ حکومت روز مرہ کے بحران کے انتظام سے آگے بڑھے اور اس عدم اطمینان کی بنیادی وجوہات کو فوری اور شفاف طریقے سے حل کرے۔
ادھر کانگریس کمیٹی کے رکن پارلیمنٹ سید ناصر حسین نے کہا کہ لیہہ لداخ کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے۔ مودی حکومت اور لداخ کے لوگوں کے درمیان جاری تنازعات اور تناؤ نے شہری بدامنی اور آتش زنی کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مودی حکومت سے لوگوں کو پُرسکون کرنے اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے، ہم خطے میں امن اور استحکام کو بحال کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ لداخ کے لوگوں کے جائز مطالبات کو حل کرنے کے لئے مودی حکومت اور احتجاجی رہنماؤں کے درمیان فوری بات چیت، بشمول ریاست کا درجہ اور چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں، جبکہ لداخ کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رائے پور مک مل اجلاس میں منظور کردہ قرارداد کے مطابق، آئین کے چھٹے شیڈول کو لداخ تک توسیع دینے کے لئے پُرعزم ہے۔ لیہہ میں پُرتشدد مظاہروں اور سونم وانگچک کا پیغام ویڈیو کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial