Express News:
2025-06-28@05:47:32 GMT

سیز فائر کی کہانی

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہو گیا ہے۔ سیز فائرکا کریڈٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ لے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی ٹیم جس میں سیکریٹری خارجہ اور نائب صدر شامل ہیں وہ بھی اس سیز فائزکا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ لیکن سب جاننا چاہتے ہیں کہ اس سیز فائر کی کہانی کیا ہے۔

عجیب صورتحال ہے کہ بھارت کہتا ہے کہ اس نے تو امریکیوں کو سیز فائر کے لیے کہا ہی نہیں۔ اس نے تو امریکیوں سے بات ہی نہیں کی ہے۔ جب کہ پاکستان کہتا ہے کہ اس نے سیز فائر کی کوئی درخواست بھارت کو نہیں کی ہے۔ اس لیے سیز فائر کی کہانی ایسی ہے کہ یہ سیز فائر ہے بھی اور اس کو دونوں فریقین مان بھی رہے ہیں۔ لیکن کیسے ہوا، پر اختلاف ہے۔

سب سے پہلے یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کو امریکا کی ثالثی پر کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ پاکستان کو تو دنیا کے کسی ملک کی ثالثی پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے تقریباً دنیا کے تمام بڑے ممالک جو ثالثی کا کردارادا کر سکتے تھے انھیں جنگ روکنے اور ثالثی کے لیے کہا۔ پاکستان پہلگام کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور کسی عالمی ایجنسی سے تحقیقات کے لیے بھی تیار تھا۔

ہم جس کو بھی جنگ روکنے کے لیے کہہ رہے تھے ساتھ غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بات بھی کر رہے تھے۔ ہمارا سادہ بیانیہ تھا کہ پہلے تحقیقات کر لیں، اگر تحقیقات میں کچھ ثابت ہو تو جنگ کر لیں۔ تحقیقات سے پہلے جنگ کیسے ممکن ہے۔ لیکن بھارت کسی بھی ملک کی ثالثی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ جنگ کے لیے تیار تھا۔

اسی لیے آپ دیکھیں کہ جنگ سے پہلے امریکا نے اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ وہی امریکا جو اب ثالثی کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ جنگ سے پہلے امریکی صدر اور نائب صدر دونوں کہہ رہے تھے کہ اگر دونوں ملک لڑتے ہیں تو ہم کیا کریں ۔

یہ دونوں ملک صدیوں سے لڑ رہے ہیں۔ نائب صدر نے تو کہا کہ یہ امریکا کا کام نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ روکے۔ اگر دونوں لڑنا چاہتے ہیں تو لڑیں۔ یہ بھارتی لائن تھی۔ بھارت نے امریکا کو کہا کہ وہ لڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے کسی بھی قسم کی ثالثی قبول نہیں۔ جب بھارت کو ثالثی قبول ہی نہیں تھی تو اکیلے پاکستان کے ثالثی ماننے سے تو ثالثی نہیں ہونی تھی۔ اس لیے امریکا نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی خود کو الگ کر لیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران نے کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں رہی۔ سعودی وزیر پاکستان سے گئے اور لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے بھی کوئی کامیاب نہیں رہے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی امریکا ہے جو پہلے ثالثی کروانے کو تیار نہیں تھا۔ اب کریڈٹ لے رہا ہے۔

لہٰذا صاف بات ہے کہ بھارت نے ہی امریکا کو اشارہ دیا کہ وہ ثالثی کے لیے تیار ہے اور بھارت کے ثالثی پر تیار ہونے کے بعد ہی امریکا نے پاکستان سے بات کی تھی۔ اس لیے یہ بات کوئی راز نہیں کہ پہلے بھارت نے ہی امریکا کو ثالثی سے روکا ہوا تھا اور پھر بھارت نے ہی امریکا سے ثالثی کی درخواست کی۔

حالانکہ بھارت نے آئی ایم ایف میں پاکستان کے قرض کی قسط رکوانے کی بہت کوشش کی۔ بھارتی نمایندہ نے آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے بائیکاٹ بھی کیا۔لیکن امریکا سمیت تمام ممالک نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اس لیے سمجھیں بھارت امریکا سے خوش نہیں ہوگا کہ اس نے جنگ کے دوران آئی ایم ایف میں پاکستان کے قرض کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا۔ ایسے میں بھارت کا پھر امریکا کو ثالثی اور سیز فائر کے لیے کہنا ۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جنگ بند کرنا چاہتا تھا۔ وہ اب مزید جنگ کا متحمل نہیں تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔

اب تک جو خبریں سامنے آئی ہیں۔ پہلے امریکا کو جنگ سے الگ کرنے کے لیے بھی بھارت نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو استعمال کیا تھا۔کیونکہ وہ پہلگام کے واقعہ کے وقت بھارت میں تھے۔ اور بعد میں سیز فائر کے لیے بھی بھارت نے امریکی نائب صدر سے ہی رابطہ کیا تھا۔ بہرحال اب بھارت امریکا کے کسی بھی قسم کے کردار کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ بھارت کہہ رہا ہے کہ سیز فائر میں کوئی امریکی کردار نہیں یہ تو پاکستان نے سیز فائر کی درخواست کی جس کو بھارت نے قبول کر لیا ہے۔ بات اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی ہوتی تو سب سے پہلے سیز فائر کی خبر امریکا سے کیسے آگئی۔ لیکن بھارت اور بالخصوص نریندر مودی اس وقت بھارت میں شدید مشکل میں ہیں۔ اس لیے سیز فائر پر بار بار موقف بدل رہے ہیں۔

بھارت کی فوجی کمان نے جو پریس بریفنگ کی ہے۔ اس میں یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کی درخواست پر سیز فائر کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں بھارت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سات مئی کو پہلے بھارت نے اپنے ڈی جی ایم او کے ذریعہ پاکستان کو سیز فائر کا پیغام بھجوایا تھا۔ لیکن پاکستان نے اس پیغام کے جواب میں کہا تھا کہ ہم واپس اسٹرائیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب بھارت نے مریدکے اور بہاولپور پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ پاکستان نے بھارت کے جنگی جہاز گرا لیے تھے۔ لیکن پاکستان نے تب بھارت کی سیز فائر کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ یہ بات بھارتی فوجی قیادت نے اپنی پریس بریفنگ میں کہی ہے کہ پہلے انھوں نے سیز فائر کی درخواست بھیجی تھی لیکن پاکستان نے قبول نہیں کی۔ بھارت کا موقف ہے کہ سیز فائر کی جو درخواست پاکستان نے سات آٹھ مئی کو مسترد کر دی تھی۔

وہ پاکستان نے 11مئی کی شام قبول کر لی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ہمارے پاس ان کی سیز فائر کی درخواست کافی دن سے موجود تھی۔ ہم مان نہیں رہے تھے۔ پھر جب ہم نے واپس اسٹرائیک مکمل کر لی تو ہم مان گئے۔ لیکن پہلے بھارت نے درخواست کی تھی۔ بھارت اپنی پہلے والی درخواست مانتا ہے۔ لیکن کہتا ہے کہ 11مئی کو کوئی درخواست نہیں کی۔

یقیناً سادہ بات ہے جب بھارت نے امریکا کو سیز فائر کے لیے کہا تو سچا بننے کے لیے یہ بھی کہا ہوگا کہ ہم نے تو پہلے دن ہی سیز فائر کی درخواست بھیجی تھی پاکستان نہیں ما ن رہا۔ آپ پاکستان کو سیز فائر پر منائیں۔ جب امریکا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر پر بات طے ہوگئی ہوگی۔ تو امریکا نے پاکستان سے کہا ہوگا کہ آپ کے پاس بھارت کی جانب سے سیز فائر کی درخواست زیر التوا ہے اسے قبول کر لیں۔ پاکستان نے قبول کر کے بھارت کو اطلاع کر دی۔ لیکن اس میں بھارت کا یہی خیال ہوگا کہ امریکا سیز فائر میں اپنا کردار خفیہ ہی رکھے گا۔ لیکن شاید بھارت کو اندازہ نہیں تھا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے سیز فائر کے اعلان سے پہلے خود اعلان کر دے گا۔ اور دنیا کوپتہ چل جائے گا کہ امریکا نے سیز فائر کروایا ہے۔

امریکا کی جانب سے پہلے سیز فائر کے اعلان اور بعد میں ڈولنڈ ٹرمپ کے دوسرے ٹوئٹ نے بھارت میں نریدر مودی کی حکومت کی پوزیشن بہت خراب کر دی ہے۔ ٹرمپ نے کشمیر پر بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ جو بھی مودی کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں۔ اسی لیے ایک طرف پاکستان امریکا کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت جس نے امریکا کو سیز فائر کی درخواست کی ہے وہ شکریہ بھی نہیں ادا کر پا رہا ہے۔ بلکہ یہ صفائیاں دے رہا ہے کہ اس نے سیز فائر کی درخواست نہیں کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیز فائر کی درخواست سیز فائر کے لیے نے سیز فائر کی کے لیے تیار کو سیز فائر درخواست کی پاکستان نے کہ پاکستان پاکستان کو پاکستان کے بھارت نے ا امریکا کو امریکا نے ہی امریکا کی ثالثی نہیں تھا کہ بھارت بھارت کو کہ اس نے رہے ہیں ہوگا کہ رہے تھے ہی نہیں سے پہلے نہیں کی قبول کر اس لیے رہا ہے تھا کہ

پڑھیں:

بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔

اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔

اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔

اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا،  اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔

بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔

امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔

پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔

بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • توفیقِ باری تعالیٰ
  • اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی امریکا کا ساتھ دیں، اسحاق ڈار
  • کیا پاکستان امریکا  تک مار کرنے والا میزائل تیار کر رہا ہے؟ بھارتی پراپیگنڈا بےنقاب
  • سیز فائر کے بعد ایران کو امریکا سے اربوں ڈالر ممکنہ امداد کی امید
  • بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
  • آخریہ سب ہنگامہ کس بات کا ہے امریکی نائب صدرکا طنزیہ ٹویٹ
  • ایئر انڈیا حادثہ؛ پاکستان اور بھارت کیلیے برطانیہ، یورپ، امریکا کا دہرا معیار
  • پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ
  • کچرے کے ڈھیر سے نکلا خزانہ، جانیں اس حیران کن کہانی کی تفصیل
  • ٹیسٹنگ گراؤنڈ