اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ فوجی کشیدگی کے پس منظر میں معطل کی جانے والی دونوں ملکوں کی بڑی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگز — انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) — آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہونے جا رہی ہیں۔

بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے پیر کے روز اعلان کیا کہ دنیا کی سب سے مہنگی ٹی ٹوئنٹی لیگ آئی پی ایل کا دوبارہ آغاز 18 مئی بروز ہفتہ ہوگا۔

پہلے مرحلے میں معطل کیا گیا پنجاب کنگز اور دہلی کیپیٹلز کا میچ، جو دھرم شالہ میں 11ویں اوور میں روک دیا گیا تھا، دوبارہ کھیلا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ پی ایس ایل مقابلے 17 مئی سے بحال ہو جائیں گے، جس دوران آٹھ میچ کھیلے جائیں گے اور فائنل 25 مئی کو ہوگا۔

(جاری ہے)

پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی کے باعث بھارت میں شمال مغربی علاقوں کے 32 ہوائی اڈے بند کر دیے گئے تھے، جنہیں اب دوبارہ کھولا جا چکا ہے۔ تاہم بی سی سی آئی نے سکیورٹی اور لاجسٹک وجوہات کی بنا پر میچوں کے مقامات کو محدود کر کے صرف چھ شہروں تک کر دیا ہے۔ پنجاب کی ٹیم اپنے باقی میچ اب جے پور میں کھیلے گی۔

پاکستان میں پی ایس ایل کو اس وقت معطل کیا گیا تھا، جب راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب ایک بھارتی ڈرون گرنے کا وہ واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی خدشات کے باعث آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو واپس ان کے ممالک بھیج دیا گیا تھا۔

پی ایس ایل کے باقی میچ راولپنڈی اور لاہور میں کھیلے جانے کا امکان ہے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ کتنے غیر ملکی کھلاڑی واپسی پر آمادہ ہوں گے۔ پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 13 پوائنٹس کے ساتھ پہلے ہی پلے آف مرحلے میں پہنچ چکی ہے، جب کہ کراچی کنگز، اسلام آباد یونائیٹڈ، لاہور قلندرز اور پشاور زلمی باقی تین پوزیشنوں کے لیے میدان میں ہیں۔

محمد رضوان کی قیادت میں ملتان سلطانز کی ٹیم پہلے ہی ان مقابلوں سے باہر ہو چکی ہے۔

ادھر آئی پی ایل میں بھی سات ٹیمیں پلے آف کی دوڑ میں شامل ہیں، جب کہ حیدرآباد، راجستھان اور چنئی کی ٹیمیں مقابلے سے باہر ہو چکی ہیں۔ ٹورنامنٹ کا فائنل اب تین جون کو کھیلا جائے گا، جب کہ ناک آؤٹ مرحلے کے میچ انتیس مئی، تیس مئی اور یکم جون کو کھیلے جائیں گے۔

آئی پی ایل کا دوبارہ آغاز رائل چیلنجرز بنگلورو اور کولکتہ نائٹ رائڈرز کے درمیان بنگلورو میں ہونے والے میچ سے ہوگا، جس میں اسٹار بلے باز ویراٹ کوہلی ٹیسٹ کرکٹ سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی بار ایکشن میں نظر آئیں گے۔

شکور رحیم، اے پی کے ساتھ

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ایس ایل آئی پی ایل

پڑھیں:

ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق

ریاض احمدچودھری

تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ کے حکمران نواب سر مہابت خانجی نے مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ انکا یہ فیصلہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے عین مطابق تھا جس میں562ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جونا گڑھ کی اسٹیٹ کونسل کے سامنے جو مسلمانوں، ہندوئوں، پارسیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی پیش کیا جس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ منظور کیا۔یوں 15ستمبر1947 کو الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے قائداعظم محمد علی جنا ح نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جبکہ ریاست جونا گڑھ کی طرف سے نواب مہابت خانجی نے دستخط کئے۔ پاکستان کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے اس الحاق کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ بھارت جس نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔ کانگریسی رہنمائوں نے نواب صاحب کو مختلف ترغیبات دے کر اس فیصلے کو تبدیل کرانے کی بے انتہا کوششیں کیں حتیٰ کہ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا مگر نواب جونا گڑھ ثابت قدم رہے۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اس نے ریاست جونا گڑھ کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور ریاست پر غیر قانونی تسلط جمانے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ بعد ازاں9 نومبر 1947 کو بھارت نے جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط قائم کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جونا گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور مسلمانوں کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا اور اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس منعقدہ 11فروری 1948 میں پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت جونا گڑھ سے اپنی فوجیں واپس بلائے تاہم بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے فروری 1971 میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور بے اصولی کے باعث اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔بھارت نے جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کے وقت یہ دلیل دی تھی کہ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت سے متصل ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ متصل ہے اور جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند ہیں ، پر بھی بھارت گزشتہ 78برس سے قابض ہے اور کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی کے مطالبے کی پاداش میں روز بھارتی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء ) کو خط لکھا جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی۔”یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا”ـ
بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • سری لنکا کے خلاف سیریز شاہینوں کا نیا امتحان
  • طالبان سے دوبارہ بات ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان اپنے دوستوں کو انکار نہیں کر سکتا، خواجہ آصف
  • ایشیا کپ،بھارت کی اکڑ نکل گئی، ٹرافی کیلئے منتیں کرنے لگا
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • ون ڈے اور ٹی 20 سہ ملکی سیریز کیلیے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچ گئی
  • امریکا بھارت دفاعی معاہدے کے بعد
  • امریکی عوام میں اعتماد بحالی: اسرائیل نے لاکھوں ڈالر خرچ کرڈالے، ہارٹز کا انکشاف
  • وہاب ریاض ویمن کرکٹ ٹیم کے کنسلٹنٹ مقرر؟،  پی سی بی کی وضاحت بھی آگئی
  • بھارت کو ویمنز کرکٹ ورلڈکپ جتوانے کے بعد کرنٹی گاؤڈ اپنے والد کو انصاف دلوانے کے قریب پہنچ گئیں