شعبہ تعلیم و تربیت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکومتوں اور حکام نے طاقت کا استعمال غزہ میں قتل عام کے لئے کیا، جہاں ممکن ہو سکا وہاں جنگ کی آگ بھڑکانے اور اپنے آلہ کاروں کی حمایت کرنے کے لئے کیا، انہوں نے کبھی اپنی طاقت کو صلح و آشتی کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اسلام ٹائمز۔ راہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حالیہ علاقائی دورے کے دوران ایران کے بارے میں امریکی صدر کے بیانات کو امریکی عوام کے لئے باعث شرمساری قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ باتیں اس قابل نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔ شعبہ تعلیم و تربیت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے خطاب میں راہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی طاقت کو صلح و آشتی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ سراسر جھوٹ ہے۔

امریکی حکومتوں اور حکام نے طاقت کا استعمال غزہ میں قتل عام کے لئے کیا، جہاں ممکن ہو سکا وہاں جنگ کی آگ بھڑکانے اور اپنے آلہ کاروں کی حمایت کرنے کے لئے کیا، انہوں نے کبھی اپنی طاقت کو صلح و آشتی کے لئے استعمال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم دشمن کو خاطر میں لائے بغیر انشاءاللہ روزبروز اپنی طاقت و توانائی میں اضافہ کرتے رہیں گے۔

راہبر انقلاب اسلامی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکی صدر علاقے کے عرب ممالک کو ایک ایسے ماڈل کی تجویز دے رہے ہیں جس کے ساتھ بقول خود ٹرمپ کے، یہ ممالک امریکہ کے بغیر 10 دن بھی نہیں ٹِک سکتے اور ان ممالک پر امریکی صدر اپنا یہ ماڈل مسلط کر رہے ہیں، جبکہ یہ ماڈل یقینی طور پر شکست و ناکامی سے دوچار ہوگا اور امریکہ کو علاقائی اقوام کے عزم کے مقابلے میں تسلیم ہو کر یہاں سے نکل جانا ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی کے لئے کیا اپنی طاقت

پڑھیں:

چین نے گرین انرجی کی جنگ جیت لی

 ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ گرین انرجی (سبز توانائی) کے پروگرام ختم کر تے فوسل فیول کی سیاست کی طرف واپس لوٹ رہا ، توچین ایک بالکل مختلف لیگ میں داخل ہو چکا۔ واشنگٹن سبسڈی اور ضابطوں پر بحث کرنے میں مصروف، بیجنگ صنعتی پیمانے پر مکمل صاف توانائی کے نظام برآمد کر رہا ہے ۔پاکستان اور افریقہ طاقت کے توازن میں اس تبدیلی کی سب سے نمایاں مثال ہیں۔

چینی سولر پلانٹس، منی گرڈ اور بیٹری ہب ایسے علاقوں کو روشن کر رہے جو کئی دہائیوں تک توانائی کی کمی کا شکار رہے تھے۔ اور یہ سب ایسے آلات کی بدولت ممکن ہوا جن کی قیمت اور حجم کے مقابلے میں امریکہ کا کوئی مقابلہ نہیں۔ نہایت سستے سولر پینلز کی ہر نئی کھیپ بیجنگ کو ان بازاروں میں مزید مقبول بنا رہی جہاں کبھی واشنگٹن کافی اثرورسوخ رکھتا تھا ۔ اس تبدیلی نے چین کے کردار کو اگلی صدی کی فیصلہ کن ٹیکنالوجیز میں مضبوط مقام عطا کر ڈالا ہے۔

یہ مقابلہ اب نظریاتی نہیں رہا،چین دنیا میں توانائی کا مستقبل تشکیل دے رہا تو دوسری سمت مستقبل امریکہ کی دسترس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ابھرتا ہوا عالمی توانائی نظام کس حد تک چینی شرائط پر تشکیل پائے گا اور امریکہ کے لیے اس میں کتنی گنجائش باقی رہے گی۔

چین کی صنعتی مشین

صاف توانائی کے شعبے میں چین کا عروج نہ تو اتفاق ہے اور نہ ہی محض مارکیٹ کی کامیابی۔ یہ ایک ریاستی صنعتی مشین کا نتیجہ ہے جو سولر سپلائی سلسلے(چین) کے ہر حصے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی … پالی سلیکون کی پروسیسنگ اور ویفر کٹنگ سے لے کر بیٹری کیمسٹری اور گرڈ اسکیل اسٹوریج تک! دنیا میں کوئی اور ملک اس لحاظ سے چین کے برابر نہیں۔

2024 ء میں چین نے تقریباً 329 گیگاواٹ نئی سولر صلاحیت نصب کی جس سے اس کی کل صلاحیت 1,100 گیگاواٹ سے بڑھ گئی۔یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور جس کا کوئی عالمی مقابلہ نہیں۔ صرف ایک سال کا اضافہ ہی کئی ممالک کی مجموعی سولر صلاحیت سے زیادہ ہے۔یہ پیمانہ صرف متاثر کن نہیں بلکہ صنعت کی اقتصادیات بدل دیتا ہے۔ چینی سولر پینلز اب 0.07 تا 0.09 سینٹ فی واٹ قیمت پر دستیاب ہیں اور جس کا مقابلہ مغربی کمپنیاں سبسڈی ملنے کے باوجود نہیں کر سکتیں۔

ان اعداد کے پیچھے ایک ایسا چینی ماڈل ہے جو بڑے پیمانے کی معیشت، سرکاری سبسڈی اور صنعتی پالیسی پر مبنی ہے جو لاگت کو کم رکھنے اور سپلائی چین کے انضمام پر توجہ دیتی ہے۔ اس امتزاج نے چین کو قیمتیں مسلسل کم رکھنے کے قابل بنایا ہے جبکہ اس کا پیداواری ماحولیاتی نظام تیزی سے پھیل رہا ہے، اس سے بھی زیادہ جتنا چین مقامی طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

چین کی تیز رفتار پیداواری صلاحیت اس کی اندرونی طلب سے بہت بڑھ چکی اور یہی اضافی صلاحیت اب اس کے عالمی پھیلاؤ کو وسعت دے رہی ہے۔ اس فاضل پیداوار کو اسٹریٹجک برآمدی صنعت میں بدل کر بیجنگ انتہائی سستے آلات ایسی مقدار میں فراہم کر رہا جس کا مغربی ممالک مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جسے مغربی پالیسی مباحث میں "زیادتی صلاحیت" کہا جاتا ہے، وہ دراصل چین کے لیے ایک دانستہ صنعتی فائدہ ہے جو اسے نئے بازار پانے اور عالمی توانائی کی معیشت میں اپنا مقام مضبوط کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

بیجنگ کی قیادت واضح کر چکی کہ توانائی کی تبدیلی کوئی تجربہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک سمت ہے۔ 2025 ء میں اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر شی جن پِنگ نے کم کاربن منتقلی کو ایک تاریخی راستہ قرار دیا جسے ممالک کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ایک سفارتی اپیل سے کم اور ارادے کے اظہار سے زیادہ تھا: چین اس منتقلی کو ایک اسٹریٹجک میدان سمجھتا ہے جسے وہ اپنی شرائط پر تشکیل دینا چاہتا ہے، جبکہ دوسرے ممالک ابھی تک اس پر غور کر رہے ہیں کہ آیا انہیں اس میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔

پاکستان کی مثال

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کچھ غیر معمولی ہوا ہے۔اور افریقہ پاکستان کی مثالی سولر کامیابی کو دہرانا چاہتا ہے۔سولر پینلز جو حال تک پاکستان میں انتہائی کم نظر آتے تھے، حیران کن حد تک مقبول ہو گئے ہیں۔ سیٹلائٹ اور فضائی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووِڈ وبا سے پہلے کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں سولر پینلز تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ 2021 ء اور 2022 ء میں چند تنصیبات کا آغاز ہوا جو 2023 ء اور 2024 ء میں تیزی سے ایک بھرپور لہر کی شکل اختیار کر گئیں۔ آج شہری علاقوں کے نسبتاً خوشحال محلّوں کی تقریباً ہر چھت سولر پینلز سے ڈھکی ہوئی ہے۔

توانائی کے تحقیقی ادارے ’’ایمبر‘‘(Ember) کے اعداد و شمار کے مطابق، چین نے جو دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل بنانے والا ملک ہے ، پاکستان کو برآمد کیے گئے سولر پینلز کی مقدار 2022 ء میں 3.3 گیگاواٹ سے بڑھا کر 2023ء میں 19 گیگاواٹ اور 2024 ء میں 17 گیگاواٹ تک پہنچا دی۔ جولائی 2025 ء تک کے بارہ مہینوں میں پاکستان نے چین سے اتنے زیادہ پینلز درآمد کیے جتنے کسی اور ملک نے نہیں (سوائے نیدرلینڈز کے جو یورپ کی سب سے بڑی بحری گزرگاہ ہونے کے ناتے اپنے درآمد شدہ پینلز کا بڑا حصہ دوبارہ برآمد کر دیتا ہے)۔

پاکستان میں ’’سولر بوم‘‘ اپنی رفتار اور پیمانے کے لحاظ سے حیران کن ہے۔ لیکن اس بوم کی ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ زیادہ تر ’’غیر منصوبہ بند‘‘ تھا۔’’یہ ایک کنزیومر انقلاب ہے۔" ایمبر کے چیف تجزیہ کار ،ڈیو جونز کہتے ہیں۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں سولر پینلز 60 سے 80 ڈالر میں دستیاب ہیں۔ عام لوگ ہارڈویئر کی دکان سے پینل خرید کر یوٹیوب ویڈیو کی مدد سے خود بھی لگا سکتے ہیں۔جونز کہتے ہیں: "پاکستان بھر میں سب سے پہلا سوال یہی تھا کہ اس کے لیے پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ کون ان لوگوں کو قرض دے رہا ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ کوئی نہیں۔" وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پینلز کی قیمت اتنی کم ہو گئی ہے کہ اب انہیں آبادی کے ایک بڑے حصے کی پہنچ میں لایا جا سکتا ہے۔

پاکستان سے سیکھنا

انسٹال شدہ سولر صلاحیت کے ڈیٹا کا درآمدی ڈیٹا سے موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا انقلاب نچلی سطح سے ابھر رہا ہے۔عالمی توانائی ایجنسی، آئی رینا (IRENA) کے اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ پاکستان نے صرف 3.7 گیگاواٹ سولر صلاحیت نصب کی ہے۔ لیکن ایمبر (Ember) کے ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ 2017 ء سے اب تک پاکستان نے چین سے مجموعی طور پر 48 گیگاواٹ کی صلاحیت کے سولر پینلز درآمد کیے ہیں۔دوسرے لفظوں میں پاکستان میں سولر پینلز کی بڑی تعداد صاف قطاروں میں سولر فارموں میں نصب نہیں جو گرڈ کو بجلی فراہم کرسکیں۔ بلکہ ان میں سے زیادہ تر پینلز بے ترتیبی سے گھروں کی چھتوں پر لگے ہیں۔یہ سرکاری اعدادوشمار میں شامل نہیں مگر گھریلو اور تجارتی صارفین کو بجلی فراہم رکھنے میں مددگار ہیں۔

پاکستان افریقی پالیسی سازوں کے لیے ایک دلچسپ کیس اسٹڈی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس کا فی کس جی ڈی پی 6,950 ڈالر ہے جو سب صحارا افریقہ کی اوسط 5,460 ڈالر کے قریب ہے۔اور بہت سے افریقی ممالک کی طرح پاکستان بھی کئی برسوں سے غیر معتبر بجلی کے نظام سے نبردآزما رہا ہے۔ سولر پر منتقل ہونا پاکستانی گھروں کو غیر مستحکم گرڈ کے مقابلے میں ایک قابلِ اعتماد متبادل اور ڈیزل جنریٹرز کے مقابلے میں کہیں سستا حل فراہم کر رہا ہے۔یہ معاملہ ایک اہم سوال اٹھاتا ہے: کیا پاکستان کا نچلی سطح سے اٹھنے والا سولر انقلاب براعظم افریقہ کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل بن سکتا ہے؟

افریقہ کا سولر انقلاب رفتار پکڑ رہا

اگرچہ افریقہ کے وسیع علاقے دنیا میں بہترین شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اب تک یہ براعظم دوسرے خطوں کے مقابلے میں سولر صلاحیت نصب کرنے میں پیچھے رہا ہے۔ آئی رینا کے مطابق افریقہ نے عالمی سولر صلاحیت کا صرف 1فیصد نصب کیا ہے، جبکہ ایشیا کا حصہ 62 فیصد ہے۔

اگرچہ یہ اعدادوشمار بڑی سطح کے منصوبوں پر بھی مرتکز ہو سکتے ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ افریقہ کی زیادہ تر سولر بجلی بڑے مقامات پر نصب کی جاتی ہے جو یوٹیلیٹیز یا بڑی صنعتی و تجارتی کمپنیوں کے لیے بجلی پیدا کرتی ہیں۔ افریقن سولر انڈسٹری ایسوسی ایشن (AFSIA) کے ایک ترجمان کا کہنا ہے، جنوبی افریقہ کے علاوہ بقیہ افریقی ممالک میں رہائشی سولرسسٹم کل نصب شدہ صلاحیت کا تقریباً 2 یا 3 فیصد حصہ ہے، جبکہ جنوبی افریقہ میں یہ اندازہ 5 فیصد کے قریب ہے۔

تاہم دلچسپ بات یہ کہ اب اس رجحان میں تبدیلی کے شواہد نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ایمبر کی نئی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران افریقہ کی چین سے سولر پینلز کی درآمدات میں 60 فیصد اضافہ ہوا جو 15 گیگاواٹ تک پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ بارہ مہینوں میں 20 افریقی ممالک نے ریکارڈ سطح پر سولر درآمدات کی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے علاوہ پورے براعظم نے دو سال میں اپنی درآمدات تین گنا بڑھائی ہیں۔جونز کے مطابق سولر درآمدات میں یہ ’’بڑی تیزی‘‘ کچھ ممالک کے توانائی نظام بہت جلد بدل سکتی ہے۔

ایمبر کی رپورٹ کے مطابق اگر سیرالیون نے پچھلے سال چین سے درآمد کیے گئے تمام پینلز نصب کر دیے، تو وہ اتنی زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں جو 2023 ء میں ملک کی کل رپورٹ شدہ بجلی پیداوار کے 61 فیصد کے برابر ہوگی۔ایمبر کے برآمدی ڈیٹا سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پینلز کیسے استعمال ہوں گے۔

چونکہ سیرالیون کے سب سے بڑے سولر منصوبوں کی منصوبہ بندی شدہ صلاحیت صرف 25 سے 50 میگاواٹ ہے، اس لیے یہ سمجھنا درست ہوگا کہ گزشتہ سال درآمد کیے گئے 138 میگاواٹ کا بڑا حصہ گھروں کی چھتوں پر نصب ہونا ہے۔چھتوں پر سولر نصب کرنے کی منطق نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ ایمبر کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں تقریباً 60 ڈالر کا ایک 420 واٹ سولر پینل سالانہ 550 کلوواٹ گھنٹے بجلی پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 60 ڈالر کا ڈیزل صرف 257 کلوواٹ گھنٹے بجلی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں، ان کے لیے سولر پینل کی سرمایہ کاری تقریباً چھ ماہ میں پوری ہو جاتی ہے۔

احتیاط کی وجوہ

آئی رینا کے ڈائریکٹر جنرل، فرانچسکو لا کیمرا پاکستان کے سولر انقلاب کو ایک ’’معجزہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترقی کی اسی سطح پر موجود دوسرے ممالک پاکستان کی مثال پر چل سکتے ہیں۔لیکن ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ’’سوال یہ نہیں کہ یہ کسی اور ملک میں ہوگا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ کتنی رفتار اور کس بڑے پیمانے پر ہوگا۔‘‘افریقہ کو اب بھی اپنے سولر انقلاب میں رفتار لانی ہے۔ اس کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے، پھر بھی گزشتہ سال جنوبی ایشیائی ملک نے پورے افریقہ کے مقابلے میں زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔گوگل ارتھ کی تازہ ترین تصاویر پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ افریقہ کے بڑے شہروں میں اب بھی سولر پینلز کم یاب ہیں، خاص طور پر امیرانہ مضافاتی علاقوں کے باہر۔

ایک افریقی ملک درحقیقت پہلے ہی اپنے ایک سولر بوم سے گزر چکا ۔ جنوبی افریقہ میں سولر پینلز کی درآمدات میں 2023 ء میں ڈرامائی اضافہ ہوا، کیونکہ درمیانے طبقے کے لوگ ’لوڈشیڈنگ‘ کے بحران کی بدترین سطح پر چھتوں پر سولر لگانے کے لیے لپک پڑے۔گھروں اور کاروباروں کی جانب سے سولر کی تنصیب نے جنوبی افریقہ کو بجلی کی شدید قلت کے بحران سے نکلنے میں مدد دی۔ لیکن دولت مند گھرانوں اور کچھ کاروباروں کی جانب سے گرڈ پر کم انحصار کرنے یا مکمل طور پر منقطع ہو جانے کا بڑھتا رجحان اس خدشے کو جنم دیتا ہے کہ یہ سولر رجحان ’’ایسکم‘‘ یعنی مشکلات کا شکار سرکاری یوٹیلیٹی ایجنسی کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ مالی بحران کا شکار بلدیاتی ادارے، جو روایتی طور پر صارفین سے حاصل ہونے والی بجلی کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں، بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

اسی طرح کے خدشات پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں قائم غیر منافع بخش تنظیم،Renewables First کے پروگرام ڈائریکٹر محمد مصطفیٰ امجد نے ایک بیان میں کہا کہ حکومتوں کو کم از کم چھتوں پر نصب کیے جانے والے سولر سسٹمز کا ریکارڈ رکھنا چاہیے، کیونکہ اس کے پورے توانائی نظام پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا:’’ان تنصیبات کا ریکارڈ رکھنا ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ منتقلی بے ترتیبی سے ہوتی ہے یا منظم اور تیز رفتار انداز میں۔ جب آپ ریکارڈ نہیں رکھتے تو وقت اور مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ پاکستان کا تجربہ اس کی واضح مثال ہے۔ افریقہ کی توانائی منتقلی بہرحال ہو کر رہے گی، لیکن بروقت ڈیٹا اسے زیادہ منصفانہ، منصوبہ بند اور جامع بنا سکتا ہے۔‘‘

دیگر ماہرین بھی افریقہ میں نچلی سطح سے ابھرنے والے چھتوں کے سولر انقلاب کے بارے میں کچھ حد تک محتاط ہیں۔گلوبل انرجی الائنس فار پیپل اینڈ پلانیٹ کے ڈائریکٹر برائے یوٹیلیٹی انوویشن، دامولا اومولے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر منصوبہ بندی کے ہونے والی سولر تنصیب کم از کم عدم تنصیب سے بہتر ہے۔ تاہم وہ دلیل دیتے ہیں کہ زیادہ مربوط عمل درآمد سے زیادہ کارکردگی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق:’’اس کام کے لیے منصوبے کی ضرورت نہیں، لیکن منصوبہ ہونا بہتر ہے۔ کیونکہ یوں نظام زیادہ منصفانہ بنتا ہے اور آپ کم وسائل میں زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

افریقہ اور چین کی سبز توانائی

اگر کوئی خطہ چین کی صاف توانائی کی مہم کے پیمانے کو بے نقاب کرتا ہے تو وہ افریقہ ہے۔ براعظم میں دنیا کی بہترین شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اسی کے ساتھ کچھ سب سے کمزور توانائی کے نظام بھی۔ بیجنگ کے لیے یہ امتزاج ایک بڑا موقع ہے۔تقریباً ساٹھ کروڑ افریقی اب بھی قابلِ اعتماد بجلی تک رسائی سے محروم ہیں۔ پورے قومی گرڈز پرانے انفراسٹرکچر پر چلتے ہیں۔ بلیک آؤٹ کئی گھنٹوں یا دنوں تک جاری رہ سکتے ہیں اور ڈیزل جنریٹرز ہر جگہ …ہسپتالوں سے چھوٹی دکانوں تک بیک اپ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 0.70 ڈالر فی کلوواٹ گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہیجو گھریلو صارفین کے لیے مالی طور پر ناقابلِ برداشت اور مقامی کاروباروں کے لیے مستقل رکاوٹ ہے۔

چین کے شمسی توانائی منصوبے اس ماحول میں فوری اثر دکھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نائیجیریا میں آزمائے گئے چینی سولر منی گرڈ تقریباً 0.16 ڈالر فی کلوواٹ گھنٹہ کے حساب سے بجلی فراہم کرتے ہیں اور ابتدائی سرمایہ چند مہینوں میں واپس آ جاتا ہے۔ یہ فرق معمولی نہیں، یہ ’’انقلاب‘‘ ہے۔ کچھ دیہی علاقوں میں چینی سولر تنصیبات وہ پہلی باقاعدہ بجلی فراہم کر رہی ہیں جو لوگوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔

اپنانے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ جون 2024 ء سے جون 2025 ء تک افریقہ کی جانب سے چینی سولر پینلز کی درآمدات میں 60 فیصد اضافہ ہواہے ، 9.4 گیگاواٹ سے بڑھ کر 15 گیگاواٹ تک کا اضافہ! صرف جنوبی افریقہ نے 3.7 گیگاواٹ کے سولر پینلز خریدے۔ نائیجیریا کی درآمدات چار گنا بڑھ کر 1.7 گیگاواٹ ہو گئیں۔ الجزائر کی درآمدات 33 گنا بڑھ گئیں۔ یہ اعداد صرف طلب نہیں دکھاتے، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چین تیزی سے سولر سسٹمز کی فروخت میں اس براعظم کا ’’ڈیفالٹ سپلائر‘‘ بن رہا جو غیر مساوی رفتار کے باوجود صاف توانائی کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

بیجنگ کا طریقہ ایک ہی پیکج میں سولر ہارڈ ویئر، مالی معاونت اور انفراسٹرکچر کو یکجا کرتا ہے۔ سرکاری ایجنسیاں، پالیسی بینک اور پاور چائنا جیسی کمپنیاں پورا سلسلہ سنبھالتی ہیں جو جگہوں کے سروے، سسٹمز کی تعمیر، آلات کی فراہمی، انجینئرز کی دستیابی اور طویل المدتی ادائیگی کے ڈھانچے پر مشتمل ہے۔ افریقی حکومتوں کو نہ منتشر ٹھیکیداروں سے نمٹنا پڑتا ہے نہ مغربی قرض دہندگان کی سیاسی شرائط سے۔ چین پینل سے لے کر بیٹریوں اور مرمت کرنے والی ٹیموں تک ایک ’’ٹرن کی‘‘ نظام فراہم کرتا ہے۔

 FOCAC یعنی چین اور افریقہ کے مابین شراکت کا سرکاری ادار ہ اس نظام کو سفارتی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کے حالیہ ایکشن پلان شمسی، ہوائی، پن بجلی اور اْبھرتے ہوئے ہائیڈروجن منصوبوں کی توسیع کے علاوہ کم کاربن صنعتی زونز کی تعمیر کا وعدہ کرتے ہیں۔ یہ معاہدے براعظم میں توانائی کی ترقی کو وسیع تر اقتصادی تعاون کے ساتھ جوڑتے اور بیجنگ کے کردار کو انفرادی منصوبوں سے کہیں آگے تک گہرا کرتے ہیں۔اور چین کے لیے اس کا فائدہ واضح ہے۔

ہر نئی تنصیب افریقی ریاستوں کو چینی معیاروں اور سپلائی چینز کے ساتھ باندھ دیتی ہے۔ معدنیات جیسے کوبالٹ، مینگنیز، گریفائٹتک رسائی اکثر متوازی معاہدوں کے ذریعے آتی ہے جو انہی انفراسٹرکچر منصوبوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ سیاسی طور پر بیجنگ خود کو ایک ’’اسٹریٹجک ترقیاتی شریک‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے…وہ پیغام جو مغربی شرائط اور سست رفتاری سے تنگ آئے براعظم افریقہ میں خاصی پذیرائی پا رہا ہے۔

مراکش کی ایک غیرسرکاری تنظیم ،پالیسی سینٹر فار دی نیو ساؤتھ کے ماہر مارکس وینیسیئس ڈی فریٹاس کہتے ہیں’’افریقہ کی ترقی کو لین دین نہیں بلکہ اسٹریٹجک اہداف کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں افریقہ میں چینی موجودگی کو قابلِ اعتماد موقع مل سکتا ہے۔ اگر چین اپنے طریقہ کار کو منصوبہ-مرکز ماڈل سے حقیقی شراکت دارانہ ماڈل کی طرف منتقل کردے، تو اس کی سرمایہ کاری افریقی اسٹریٹجک وڑن سے کہیں بہتر طور پر ہم آہنگ ہو جائے گی۔’’

نئی سوفٹ پاور

چین کی توسیع سیاسی ہے۔ صاف توانائی کے نظام وقت کے ساتھ گہری ہوتی انحصاریت پیدا کرتے ہیں۔ پینل مطابقت رکھنے والے انورٹرز چاہتے ہیں۔ بیٹریاں مخصوص کیمیا پر انحصار کرتی ہیں۔ اسمارٹ گرڈ ملکیتی سافٹ ویئر پر چلتے ہیں۔ ایک بار جب کوئی ملک چینی نظام اختیار کر لے، تو سپلائر تبدیل کرنا انتہائی مہنگا اور تکنیکی طور پر خطرناک ہو جاتا ہے۔بیجنگ اس ماڈل کو چھوٹے مگر ’’خوبصورت‘‘ منصوبوں کے ذریعے مضبوط کرتا ہے… صاف توانائی کی ماڈیولر تنصیبات جن سے بڑے منصوبوں کے برعکس عوامی مخالف ردِ عمل کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ان میں سے کئی کو ایسے معاہدوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے جو چینی کمپنیوں کو کوبالٹ، مینگنیز اور گریفائٹ جیسے اہم معدنیات تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ انفراسٹرکچر وسائل تک رسائی کھولتا ہے اور وسائل ادائیگی کی ضمانت بنتے ہیں۔ یہ چکر خود کو جاری رکھتا ہے۔

یہ طرزِ اثر و رسوخ عالمی سیاست میں نیا نہیں۔ یہ بیسویں صدی کی تیل سفارتکاری کے کلاسیکی نمونے کی بازگشت ہے، جہاں توانائی سپلائی چینز پر کنٹرول نے اتحاد اور سیاسی حلقے متعین کیے۔ چین اب اسی ماڈل کو صاف توانائی کے دور میں ڈھال رہا ہے…شمسی آلات، بیٹری نظام اور گرڈ انفراسٹرکچر کے ذریعے ان ملکوں میں اثر و رسوخ بناتے ہوئے جہاں کبھی تیل سے طاقت کا تعین ہوتا تھا۔افریقی تجزیہ کار اس تبدیلی کو اجاگر کر رہے ہیں۔ آکسفورڈ کی محققہ فیکایو آکریڈولو نوٹ کرتی ہیں:2021 ء کے ڈاکار ایکشن پلان کے برعکس جس میں تیل اور گیس کا واضح ذکر تھا، بیجنگ پلان قابلِ تجدید توانائی کے تعاون اور صاف توانائی کی فراہمی پر مرکوز ہے۔ یہ فوسل فیول منصوبوں سے ایک مختلف ماڈلِ اور اثر و رسوخ کی طرف فیصلہ کن پیش رفت ہے۔‘‘

حریف جواب دینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر ان کے انتہائی بلند بانگ اقدامات بھی چین کی رفتار، پیمانے یا قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ امریکہ، یورپ، خلیجی ریاستیں اور روس بھی عزائم رکھتے ہیں مگر وہ اس انفراسٹرکچر کے قریب بھی نہیں پہنچ پائے جو چین پہلے ہی تشکیل دے چکا ۔

واشنگٹن کی کمزوری تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں قابلِ تجدید توانائی کے لیے وفاقی حمایت کم کر دی گئی، ماحولیاتی پروگرام ختم کیے گئے اور طویل المدتی منصوبہ بندی مفلوج ہو گئی۔ ہر انتخابی چکر امریکہ کی توانائی ترجیحات ری سیٹ کر دیتا ہے۔امریکہ جدت لا اور سبسڈی دے سکتا ہے۔ لیکن وہ اْس چینی نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو امریکہ سے ’’دس گنا‘‘ سستے نرخوں پر ہارڈ ویئر تیار کرتا اور طلب پر گیگاواٹ کے حساب سے سامان روانہ کر سکتا ہے۔ ٹیرف یہ خلا نہیں بھرسکتے۔

یورپ خود کو عالمی موسمیاتی قائد کے طور پر پیش کرتا ہے، مگر اس کی توانائی منتقلی کا انحصار چینی اجزا پر ہے…سولر ماڈیولز، بیٹریاں، خام مال کی پراسیسنگ، انورٹرز اور گرڈ ہارڈ ویئر۔ مقامی پیداوار کی بحالی بلند لاگت، پالیسی کی تقسیم اور سالہا سال کی آؤٹ سورسنگ سے ٹکرا جاتی ہے۔2025 ء میں ووکس ویگن نے مانگ کی کمزوری کے باعث جرمنی میں دو الیکٹرک گاڑی پلانٹس بند کر دیے۔ اسپین کو CATL–Stellantis کی نئی بیٹری فیکٹری کے آغاز کی خاطر 2دو ہزار چینی ٹیکنیشنز کی ضرورت پڑی۔ یورپ کے پاس اہداف ہیںلیکن صنعتی گہرائی نہیں۔

یو اے ای اور سعودی عرب افریقی قابلِ تجدید توانائی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے۔ مسدر اور ACWA پاور اہم کھلاڑی بن چکے ۔ مگر ان کی طاقت ’’سرمایہ کاری‘‘ ہے، پیداوار نہیں۔ وہ سپلائی چین نہیں بدل سکتے۔روس افریقہ میں جوہری توانائی کے ذریعے نمایاں موجودگی رکھتا ہے۔ مصر میں 28.75 ارب ڈالر کا الضبعہ پلانٹ اس کی مثال ہے۔ مگر جوہری طاقت بڑے پیمانے پر قابلِ تعیناتی حل نہیں۔ یہ سستی، ماڈیولر شمسی تنصیبات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔مختصراً کوئی بھی چین کے مکمل پیکج…پیداوار، لاگت، رفتار، انفراسٹرکچر، فنانسنگ اور پالیسی استحکام کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری زندگی کا مقصد دنیا میں اللہ کی رضاحاصل کرنا ہے، اورنگزیب بھٹو
  • چین نے گرین انرجی کی جنگ جیت لی
  • اسلام آباد: سرد موسم میں دودھ جلیبی کی طلب میں اضافہ، شہریوں کا رش برقرار
  • اللہ کے علاوہ کسی میں طاقت نہیں کہ سندھ کو پاکستان سے الگ کرسکے، وزیراعلیٰ سندھ
  • وزن بڑھانے کے لیے جنک فوڈ استعمال کرنے والا فٹنس انفلوئنسر ایک ماہ میں انتقال کر گیا
  • عظمیٰ گیلانی ڈراموں میں پھر کام کی خواہشمند، کام کیوں نہیں کر رہیں؟
  • رہبر انقلاب اسلامی کا انتباہ
  • فیس بک گروپس میں ’نِک نیم‘ کیساتھ پوسٹ کی سہولت متعارف
  • ایران نے 12 روزہ جنگ میں امریکا اور اسرائیل کو شکست دی، آیت اللہ خامنہ ای
  • توبہ کو معمول بنائیں ۔۔۔