توبہ کو معمول بنائیں ۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو کثرت سے توبہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپؐ ایک حدیث میں توبہ کے حوالے سے اپنے عمل کا اظہار فرمارہے ہیں کہ آپؐ دن بھر میں سو مرتبہ توبہ کرتے تھے۔ آپؐ کی ذات مبارک گناہوں اور خطاؤں سے پاک تھی۔ آپؐ معصوم ومغفور تھے۔ اس کے باوجود آپ کثرت سے توبہ کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت یہ سیکھے کہ جب آپ مغفور ومعصوم ہوکر بھی اتنی کثرت سے توبہ کرتے ہیں؛ تو ہمیں تو اور زیادہ توبہ واستغفار کرنا چاہیے؛ کیوں کہ ہم سے چھوٹے بڑے بے شمار گناہ شب وروز ہوتے رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ”اے لوگو! خدا کے سامنے توبہ کرو، کیوں کہ میں دن بھر میں سو بار توبہ کرتا ہوں“ (صحیح مسلم)۔ ایک دوسری روایت میں ہے: ”خدا کی قسم! میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالی کے سامنے استغفار اور توبہ کرتا ہوں“ (صحیح بخاری)۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نبی اکرمؐ نے ایک حدیث میں دن بھر میں سو مرتبہ اور دوسری میں ستّر سے بھی زیادہ مرتبہ توبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ عدد کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کے رسول صرف سو بار یا ستّر بار ہی توبہ کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کثرت سے دن رات توبہ کرتے تھے، اس سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی کثرت سے توبہ کریں۔
رات ودن توبہ کا انتظار
اللہ تعالی اتنے سخی اور کریم ہیں کہ اپنے بندے کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ گناہوں کی گٹھڑی لے کر، کب ہمارے در پر آئے گا اور توبہ کرے۔ آپ اتنے کریم و غفور ہیں کہ آپ ہر وقت اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار کرتے ہیں چاہے وہ دن میں توبہ کریں یا رات میں توبہ کریں۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے؛ تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے۔ ذات باری تعالی اس بندے سے راضی ہوجاتے ہیں اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس بندے کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: ”اللہ پاک رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے گناہ گار توبہ کرلیں۔ اور اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہے تاکہ رات کے گناہ گار توبہ کرلیں، یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے“ (صحیح مسلم)۔ یعنی قیامت کے قریب تک اللہ پاک ایسا کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالی کا اپنے ہاتھ کو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑے سخی وکریم ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے گناہوں کو معاف کرتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرکے خوش ہوتے ہیں۔
توبہ ایک پسندیدہ عمل
توبہ اللہ تعالی کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتے ہیں: ”اگر تم گناہ کا ارتکاب نہ کرو؛ تو اللہ تعالی ایسی مخلوق پیدا فرمائیں گے جو گناہ کا ارتکاب کرے گی، (پھر توبہ کرے گی اور) اللہ تعالی انھیں معاف کردیں گے“ (صحیح مسلم)۔
ایک حدیث شریف میں توبہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کے ذمے کوئی گناہ ہو ہی نہیں۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: ”گناہ سے توبہ کرنے اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو“ (سنن ابن ماجہ)۔
اللہ تعالی توبہ سے بے انتہا خوش ہوتے ہیں
اللہ پاک توبہ کرنے والے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے اپنا گم شدہ اونٹ پالیا ہو۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: ”اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتا ہے، جس نے اپنا اونٹ پالیا ہو، جبکہ وہ اسے ایک چٹیل میدان میں گم کرچکا تھا“ (صحیح بخاری)۔
اس تحریر کا اختتام ایک قرآنی آیت پر کیا جارہا ہے جس میں اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ اگر بندہ کبائر اور بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیتا ہے تو اس کے چھوٹے گناہوں کو رحیم وکریم مولا خود ہی معاف کردیں گے اور اس بندے کو ایک باعزت جگہ میں داخل کریں۔ اس باعزت جگہ کا مطلب جنت ہے۔ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں: ”اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو، جن سے تمھیں روکا گیا ہے، تو تمھاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے“ (النساء: 31)۔ اللہ تعالی ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور جنت میں داخل فرمائے۔
مولانا خورشید عالم
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: توبہ کرتے تھے خوش ہوتے ہیں کثرت سے توبہ اللہ تعالی توبہ کرتا توبہ کرنے گناہوں کو اللہ پاک میں توبہ کرتے ہیں ہیں کہ ا کو معاف
پڑھیں:
ہمارے بھاجی…جج صاحب (آخری قسط)
ہائی کورٹ کے بہت سے ریٹائرڈ جج صاحبان جنھوں نے بھائی جان کے ساتھ serve کیا تھا، تعزیّت کے لیے آتے رہے اور ان کے مختلف واقعات سناتے رہے ۔ (ر) جسٹس افتخار شاہ صاحب نے بتایا کہ ’’ جج صاحب ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج تھے، میں بھی وہیں تعیّنات تھا۔ ڈسٹرکٹ جج نے تمام جج صاحبان کو چائے پر بلایا، چیمہ صاحب آئے تو سب سے بڑے تپاک سے ملے مگر ایک جج سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ڈسٹرکٹ جج نے وجہ پوچھی تو چیمہ صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا، ’’یہ حرام کھانا چھوڑ دے اور کرپشن سے توبہ کرلے تو میں اس سے گلے ملا کروں گا‘‘۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا ’’عدلیہ اور انتظامیہ کے کئی افسروں نے کرپشن کے بارے میں ’ Zero tolerance‘ کے صرف بورڈ اور اشتہار لگائے ہوئے ہیں۔
اگر کسی نے کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کیا اور ضلعی عدالتوں سے کرپشن کا مکمّل خاتمہ کیا ہے تو وہ صرف جسٹس افتخار چیمہ صاحب تھے، بلکہ عدلیہ ہی نہیں دُوسرے محکموں کے افسرا بھی ان کے ڈر سے محتاط ہوجاتے تھے اور ہر محکمے میں کرپشن کم ہوجاتی تھی‘‘۔ درجنوں جج صاحبان بتاتے رہے کہ ’’جسٹس چیمہ صاحب جہاں کرپٹ لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے وہاں ایماندار افسروں کو بے پناہ عزّت دیتے تھے، ان کی سرپرستی کرتے تھے اور ان کے لیے ڈھال بن جاتے تھے‘‘۔
(ر) جسٹس مجاہد مستقیم نے بھائی جان کے ساتھ بڑا عرصہ گذارا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’’جج صاحب کرپٹ لوگوں کے لیے ننگی تلوار مگر رزقِ حلال کھانے والے ایماندار ججوں کے لیے پیار ہی پیار تھے۔ وہ اپنی تمام تر شفقتیں نیک نام منصفین پر نچھاور کردیتے تھے اور ان کے لیے جج صاحب کی حیثیّت ایک باپ کی ہوتی تھی۔
لوگ اپنے ذاتی مسائل بھی جج صاحب کو بتاتے اور وہ انھیں حل کرنے کی پوری کوشش کیا کرتے تھے‘‘۔ جسٹس مجاہد مستقیم صاحب کا کہنا تھا کہ کئی سیشن جج صاحبان خود رشوت نہیں لیتے، مگر لوگوں کو انصاف دینے کا جو جذبہ اور جنون (passion) جسٹس افتخار چیمہ صاحب میں تھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، لگتا تھا کہ وہ قرونِ اولیٰ کی مثالوں کی پورے اخلاص کے ساتھ پیروی کررہے ہیں۔
ان کی بہت سی چیزیں inspire کرتی ہیں، سادگی ایسی کہ انسان حیران رہ جائے۔اپنے خالق و مالک کا ڈر اور آخرت میں جوابدہی کا احساس اس قدر تھا کہ چاہے کسی بڑے سے بڑے وی آئی پی نے مٹینگ کے لیے بلایا ہوا ہے مگر نماز کا وقت ہوگیا ہے تو سب کچھ چھوڑ کر بارگاہِ الٰہی میں جاکر سجدہ ریز ہوجائیں گے، دین اور ملک کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے، ایسی غیرمعمولی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوکر بھائی جان نے کسی شہر میں رہائش اختیار نہیں کی بلکہ وہ اپنے گاؤں آگئے اور آبائی گھر میں ساری زندگی گذاردی۔ بلاشبہ ان کا لباس، خوراک اور طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھی۔ گاؤں کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور نمازِ فجر کے بعد ماسٹر مشتاق احمد سمیت کچھ اور نمازیوں کے ساتھ لمبی سیر کیا کرتے تھے۔ مگر جہاں وہ تعیّنات ہوتے تھے وہاں سابق آئی جی پرویز راٹھور کے بقول عدالتی عملے کے علاوہ دوسرے محکموں کے ملازم بھی ان کے ڈر کی وجہ سے ایک دوسرے کو پوچھتے پھرتے تھے ’’جج صاحب ٹرین سے اترے ہیں کہ نہیں؟ چیمہ صاحب (جو کافی عرصہ بس یا ٹرین پر سفر کرتے رہے) ٹرین سے اتر آتے تو حرام خوروں کے چہرے اُتر جاتے اور رنگ اُڑ جاتے تھے‘‘۔ پنجاب کے سابق آئی جی چوہدری سردار محمد بھی کہا کرتے تھے کہ ’’جس ضلع میں افتخار چیمہ صاحب سیشن جج لگے ہوں وہاں قتل اور ڈا کے سمیت سنگین جرائم کا گراف نیچے گرجاتا ہے‘‘۔
وہ ایک شاندار اور یادگار اننگ کھیلنے کے بعد منصبِ قضا سے ریٹائر ہو کر گاؤں آگئے اور کاشتکاری میں مصروف ہوگئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد 2008کے انتخابات قریب آئے تو وزیرآباد کے معزّزین کا وفد انھیں ملا اور انھیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ’’ہم اس حلقے کی جاگیردارانہ سیاست تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام صرف آپ کرسکتے ہیں، آپ کی فیمیلی اور تینوں بھائیوں کی قابلِ رشک شہرت اور نیک نامی ہی عوام کو سیاست کے قابضین سے نجات دلا سکتی ہے‘‘۔ راقم عملی سیاست (اس کے پست اور غیر اخلاقی کلچر کی وجہ سے) کے خلاف تھا، مگر کچھ لوگ ہمارے ماموں جان جسٹس افضل چیمہ صاحب کے پاس جاپہنچے اور ان سے اپنے حق میں فیصلہ لے کر مسلم لیگ ن کے لیے جج صاحب کی درخواست بھیج دی۔ انٹرویو کے روز وزیرآباد کے انتہائی باکردار اور باضمیر قانون دان خواجہ جمیل بھی ان کے ہمراہ گئے۔
چند روز پہلے خواجہ صاحب نے پہلی بار بتایا کہ ’’مختلف امیدواروں کے انٹرویو ز طویل ہوگئے تو جج صاحب کہنے لگے خواجہ صاحب اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے، میں نے ایک دو بار کہا کہ انٹرویو کے وقت آپ کی یہاں موجودگی ضروری ہے مگر انھوں نے سختی سے کہا چھوڑیں انٹرویو کو، اُٹھیں نمازکا وقت جارہا ہے، ہم نے مسجد تلاش کی وہاں جج صاحب نے نماز ادا کی، اتنے میں دوسری نماز کا وقت بھی ہوگیا،میںانٹرویو یاد کراتا رہا مگر جج صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نماز ادا کرنے کے بعد واپس آئے تو انٹرویو ز ختم ہوچکے تھے۔ ایک دو روز بعد ان کا ٹکٹ ان کے گھر پہنچا دیا گیا، جج صاحب واحد امیدوار تھے جنھیں مسلم لیگ کی قیادت نے بغیر ملے اور دیکھے ٹکٹ دے دیا‘‘ ۔
ان کی مہم بھی وکھری ٹائپ کی تھی، وہ اپنی پرانی سی کرولا کار میں نکلتے، پھر اور ساتھی بھی شامل ہوجاتے مگر اللہ نے ان کی شخصیّت میں اتنی جاذبیّت اور تقریر میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ لوگ کہنے لگے کہ ’’جج صاحب جہاں تقریر کر آتے ہیں، سارا گاؤں ان کا مرید ہوجاتا ہے‘‘۔ ان کی خلوصِ دل سے نکلی ہوئی باتیں لوگوں کے دلوں میں اترگئیں اور وہ انتہائی بااثر حریف کو پچیّس ہزار کی لیڈ سے شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جج صاحب کے ایم این اے بننے کے بعد پوری تحصیل (اب ضلع) وزیرآباد کا سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہوگیا، ان کے آس پاس بڑے چوہدریوں کے بجائے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے افراد نظر آنے لگے، شرافت اور دیانت کو عزّت و توقیر ملی، بدمعاش اور ٹاؤٹ قسم کے لوگ دبک گئے اور میرٹ، انصاف اور خدمت کا کلچر پروان چڑھنے لگا۔
جج صاحب عدلیہ سے سیاست میں آئے تھے مگر یہاں بھی کرپشن کے خلاف ان کا جوش اور ولولہ اسی طرح قائم رہا، علاقے کے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انھوں نے وزیرآباد کے ایک جلسے میں صوبائی اسمبلی کے دونوں ممبران کی موجودگی میں کہا کہ ’’ترقیاتی کاموں کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کام اگر غیر معیاری ہوا تو ٹھیکیدار کو پوری سڑک نئے سرے سے بنانا ہوگی، اور سب سن لیں کہ ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن لینا ایسا ہے جیسے سُور کا گوشت کھانا‘‘۔ یہ سن کر لوگوں کی نظریں ایم پی ایز کی جانب اٹھ گئیں، انھوں نے سمجھا کہ ان کی توہین ہوئی ہے ، لہٰذا وہ ناراض ہوکر چلے گئے مگر جج صاحب کسی ناراضگی کو خاطر میں نہ لائے۔ اگر کوئی غلط کام کہتا تو اسے بھی جھاڑ دیتے، بالآخر ان کے قریبی ساتھیوں نے کہنا شروع کردیا کہ ’’بہتر ہے کہ جج صاحب لوگوں سے کم ملا کریں‘‘۔ اس کے باوجود وہ دوسری بار چالیس ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوئے۔
اسمبلی کے فلور پر بھی انھوں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز بلند کی، جب بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں (جن میں سے زیادہ تر جماعتِ اسلامی کے رہنما تھے) کو سزائیں اور پھانسیاں دی جانے لگیں تو انھوں نے ایوان میں بڑے سخت الفاظ میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی حکومت کی مذمّت کی۔ چوہدری نثار علی نے گلہ کیا ’’آپ نے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کے خلاف بات کی ہے‘‘۔ تو انھوں نے ترنت جواب دیا ’’مجھے نہیں، مسلم لیگ کی حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے اور اس اِشوکوعالمی فورمز پر اُٹھاناچاہیے‘‘۔ انھوں نے سیاست یا عہدے سے کبھی ذاتی مفاد نہیں اُٹھایا، بیٹوں کے کیرئر یا نوکری کے لیے بھی کبھی سفارش نہیں کی۔
میدانِ سیاست میں آکربھی وہ سیاستدان نہ بن سکے۔ ان کا اُجلا کردار، صاف دلی اور حق گوئی نے انھیں لوگوں کا محبوب بنادیا تھا، 9 نومبر کو دھاڑیں مارتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے اپنے محبوب ’جج صاحب ‘ کو الوداع کہا۔ خالقِ کائنات کو ان کا اخلاص، سادگی، حق گوئی اور خدا خوفی اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے اجلے کردار کے اس صاف دل بندے کے دامن پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ شکست کا بھی نہیں۔ انھوں نے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور تینوں بار کامیاب رہے۔
’الخدمت‘ کے اکابرین بتاتے رہے کہ ’’مستحقین اور غزہ کے مظلومین کے لیے وہ ہماری توقّع سے کہیں بڑھ کر حصّہ ڈالا کرتے تھے‘‘ سیاست میں ان کا سب سے زیادہ فوکس تعلیم رہا، درجنوں کالجوں کے اساتذہ نے آکر بتایا ’’ ہمارا کالج بھی جج صاحب نے بنوایا تھا‘‘ 9 نومبر کو ہمارے کالج میں ان کا خطاب تھا مگر اسی روز وہ اپنی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے خالق کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی باتیں نہ ختم ہونے والی ہیںمگر جگہ محدود ہے اس لیے اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ یا الٰہی ہمارے بھائی جان کی کوتاہیاں اور لغزشیں معاف فرماکر انھیں اپنے مقرّبین کے ساتھ جگہ عطا فرمائیں۔