Express News:
2025-07-05@05:10:19 GMT

اسرائیل سے دریافت ہونیوالی پُر اسرار انگوٹھی!

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

اسرائیل کے شمال میں واقع شہر حائفہ میں ایک 13 سالہ بچے کو سیر کے دوران ایک نادر شے دریافت ہوئی جو جائزہ لیے جانے پر نایاب قدیم رومی انگوٹھی نکلی جس پر مِنیروا نامی دیوی کندہ تھی۔

کانسی کی یہ انگوٹھی دوسری یا تیسری صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے جب اسرائیل کا یہ خطہ رومی سلطنت کے زیر حکومت شام فلسطینہ کا صوبہ تھا۔

یائر وِٹسن نامی بچے کے مطابق سیر کے دوران انہوں نے ایک چھوٹی سی سبز چیز دیکھی اور اس کو اٹھا لیا۔ اس پر زنگ لگا تھا، اس لیے پہلے ان کو ایسا لگا کہ یہ پیچ کا نٹ ہے۔ انہوں نے اس کو پگھلانے کا سوچا لیکن خوش قسمتی سے ان کو احساس ہوا کہ یہ ایک انگوٹھی ہے۔

یائر کا کہنا تھا کہ گھر پر انہوں نے انگوٹھی پر ایک تصویر بھی دیکھی جس کے متعلق ان کا پہلا خیال تھا کہ یہ کسی جنگجو کی ہے۔

بعد ازاں یائر اور ان کے گھر والوں نے اسرائیل کی اینٹیک اتھارٹی (آئی اے اے) سے رابطہ کیا جنہوں نے ماہرین کی مدد سے انگوٹھی کا مزید جائزہ لیا۔

جائزے میں معلوم ہوا کہ انگوٹھی پر ایک رومی دیومالائی کہانیوں کی دیوی مِنیروا (جس کو یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایتھینا کے نام سے جانا جاتا ہے) کی تصویر کندہ ہے جس نے ایک ہاتھ میں ڈھال تھامی ہوئی ہے جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں نیزا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے

شاید آپ کو یاد ہو کہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل غزہ شہر اور خان یونس میں اچانک حماس مخالف جلوس نکلے۔ان میں شامل چند سو افراد غزہ کے موجودہ مصائب کا ذمے دار حماس کو قرار دے رہے تھے۔ان جلوسوں میں متعدد مقامی مسلح باشندے بھی تھے۔ جب کہ اسرائیلی فوجی دستے کچھ ہی فاصلے سے یہ خلافِ معمول تماشا اطمینان سے دیکھ رہے تھے۔

اس ’’ تماشے ‘‘ کے چند روز بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں ان اخباری اطلاعات کی تصدیق کی گئی کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

 نیتن یاہو نے اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ ’’ ہم سیکیورٹی حکام سے مشاورت کے بعد غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو اسلحہ دے رہے ہیں۔اس میں غلط کیا ہے ؟ بلکہ اس حکمتِ عملی سے اسرائیلی فوجیوں کی جانیں بچانے میں مدد مل رہی ہے۔مگر اس حکمتِ عملی کی منفی تشہیر کرنے والے دراصل حماس کی پروپیگنڈہ مدد کر رہے ہیں ‘‘۔

نیتن یاہو کا اشارہ سابق وزیر ِدفاع ایوگیدور لبرمین کی جانب تھا جن کا دعویٰ ہے کہ رفاہ شہر میں ’’ پاپولر فورس ملیشیا ‘‘ نامی ایک جرائم پیشہ گروہ جس کی سربراہی یاسر ابو شباب نامی ایک پینتیس سالہ شخص کر رہا ہے۔اسے اسرائیلی ادارے اسلحہ دے رہے ہیں۔اس گروہ میں سو کے لگ بھگ مسلح لوگ ہیں۔

بقول لبرمین شباب گروپ جنگ سے قبل نہ صرف سرحد پار مصر سے غزہ میں منشیات ، اسلحہ اور اشیائے خورونوش اسمگل کرتا رہا ہے بلکہ جنگ کے بعد امدادی ٹرکوں اور خوراک کے گوداموں کی لوٹ مار میں بھی ملوث ہے۔یہ کھلا راز اسرائیلی اداروں سے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں تک ہر متعلقہ فریق کے علم میں ہے۔ اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے علاقوں میں ابو شباب اور اس کے گروہ کی سرگرمیاں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔

ایک وڈیو میں یاسر ابو شباب رفاہ کے کچھ لٹے پٹے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ اپنے گھروں میں واپس آ جائیں۔ہم آپ کو تحفظ بھی دیں گے اور ادویات و خوراک بھی پہنچائیں گے ‘‘۔

ان وڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد یاسر ابو شباب کے ترابین قبیلے اور کنبے نے اس سے اعلانِ لاتعلقی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی خفیہ اداروں کے ساتھ یاسر کے تعاون کی خبریں سننے کے بعد ہمارا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔نہ ہی اس کے انجام کی پرواہ ہے۔اس کی ہلاکت کی صورت میں ہم کسی پر خوں بہا کا دعویٰ نہیں کریں گے۔

حماس نے یاسر ابو شباب کو دس دن کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ یا تو حماس کی قائم کردہ عدالت میں پیش ہو جائے ورنہ اپنی سلامتی کا خود زمہ دار ہوگا۔

مقبوضہ فلسطین میں انسانی امداد سے متعلق اقوامِ متحدہ کے رابطہ کار جوناتھن وٹھال کا کہنا ہے کہ غزہ کے جرائم پیشہ گروہ اسرائیلی فوج کے زیرِ انتظام سرحدی کراسنگ کارم شلوم سے گذرنے والے امدادی ٹرکوں کے اغوا اور لوٹ مار میں ملوث ہیں اور وہ یہ امداد غزہ کے مصیبت زدگان کو من مانی قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔حالانکہ یہ امداد مستحقین کے لیے مفت ہے۔یہ واردات گزشتہ ایک برس سے ہو رہی ہے۔

اسرائیل حماس مخالف گروہوں کی کیوں مدد کر رہا ہے ؟ کچھ اسرائیلی عسکری ماہرین کے بقول حکمتِ عملی یہ ہے کہ یا تو اسرائیل پورے غزہ کو براہِ راست اپنے فوجی انتظام میں رکھے یا پھر حماس کو ختم کر کے مشترکہ انتظام مصر اور معاہدہِ براہیمی میں شامل متحدہ عرب امارات کو سونپ دے یا پھر بتدریج محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے اور اتھارٹی اسرائیل نواز مقامی گروہوں کی مدد سے نظام چلائے ۔کیونکہ اسرائیل کو براہ راست طویل المیعاد فوجی قبضہ عسکری اور سفارتی اعتبار سے مہنگا پڑ سکتا ہے۔

 فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے عام لوگوں کی اکثریت ناپسند کرتی ہے لہٰذا اسرائیل کی کوشش ہے کہ متوازی مقامی گروہوں کو اتنا منظم و مسلح کردیا جائے کہ وہ حماس کو بھی غزہ سے دور رکھیں اور اسرائیلی کی مٹھی میں بھی رہیں۔

ان مبصرین کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے بیشتر علاقے سے حماس کا انتظامی کنٹرول ختم کر دیا ہے۔اس خلا کو جرائم پیشہ گروہ پر کر رہے ہیں۔ ماضی میں حماس ان گروہوں سے سختی سے نمٹتی رہی ہے اور بہت سے مخبروں کو ہلاک بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اب ان گروہوں کو خود کو نمایاں اور موثر ہونے کا موقع نظر آ رہا ہے۔

حماس مخالف گروہوں میں رفاہ کے ترابین قبیلے اور ابو رشا خاندان کے علاوہ غزہ شہر اور آس پاس دغماش خاندان نمایاں ہے۔دغماش خاندان کے سربراہ کو اسرائیل سے روابط کے الزام میں گزشتہ برس ہلاک کر دیا گیا۔غزہ شہر میں الکشق خاندان کی بھی حماس سے لگتی ہے اور اسرائیلیوں سے بھی اس کے جزوقتی روابط بتائے جاتے ہیں۔خان یونس کے علاقے میں ابو طیر برادری کی وجہ شہرت اسمگلنگ ہے۔وہاں کا شاوش خاندان بھی دیگر گروہوں کے ساتھ مل کے دھندہ کرتا ہے۔جب کہ غزہ شہر کے مضافات میں برکا خاندان کا شمار فلسطینی اتھارٹی کے حامیوں میں ہوتا ہے لہٰذا حماس سے اس کی بھی نہیں بنتی۔

اسرائیل کی طویل المیعاد غزہ حکمتِ عملی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے سبب ( جس کی اسے کبھی بھی پرواہ نہیں رہی ) غزہ سے فوجی قبضہ ڈھیلا کرنا بھی پڑ جائے اور حماس دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوشش کرے تو خانہ جنگی کی کیفیت برقرار رہے۔اسرائیل کی یہ حکمتِ عملی نئی نہیں ہے۔

جب پینتیس برس پہلے تک اسے یاسرعرفات کی تنظیم الفتح سب سے بڑی دھشت گرد تنظیم نظر آتی تھی تو اس نے غزہ میں حماس کے قدم جمنے سے کوئی تعرض نہیں کیا تاکہ فلسطینی آپس میں ہی نظریاتی اعتبار سے گتھم گتھا رہیں۔جب اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کی شرط پر انیس سو چورانوے میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور اتھارٹی کو عارضی طور پر دو ریاستی حل کا لالی پاپ تھما دیا گیا تو اسرائیل کو حماس کی شکل میں سب سے بڑا حریف دکھائی دیا جس نے فلسطینی اتھارٹی کے برعکس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔

اب حماس کو غزہ سے باہر رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مقامی حریفوں کے سر پر ہاتھ رکھا جائے اور ان میں سے بھی اگر کوئی آگے چل کے ذرا سا بھی سر اٹھائے تو کچل دیا جائے۔یہ وہ مجرب خاندانی نسخہ ہے جو سامراجی حکیم صدیوں سے برتتے آ رہے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے  bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے
  • غزہ، مستقل جنگ بندی آخر کب؟
  • ایران کی زبردست فتح
  • غزہ: 60 روزہ جنگ بندی
  • ناسا کی نئی کامیابی: 13 ارب سال پرانی ’منجمدکہکشاں‘ دریافت
  • پولینڈ میں دریافت ہونے والی 6 ہزار سال پرانی مورت نے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا
  • برطانوی جیٹ ایف 35 طیارہ سترہ دنوں سے کیرالہ میں پر اسرار طور پر پھنس کر رہ گیا
  • ذیابیطس ٹائپ ون ختم کرنیوالا انقلابی طریق علاج دریافت
  • ابراہیمی معاہدے کی بازگشت
  • بھارت اور اسرائیل کی صلاحیتیں چیک ہوچکی ہیں: خواجہ آصف