اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب دو ججز خود بینچ میں نہیں بیٹھ رہے تو انہیں زبردستی کیسے بٹھائیں، تمام آئینی بینچز کے لیے نامزد ججز کو بینچ میں شامل کیا گیا۔ حامد خان نے کہا کہ میں نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست ہمیں ابھی نہیں ملی، آپ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سے پتہ کریں۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میری دو متفرق درخواستیں بینچ کے سامنے ہیں، میں نے اس بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا ہے۔ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بینچ سنتا ہے، مرکزی کیس 13 رکنی بینچ نے سنا تو وہی بینچ اب نظرثانی سنے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس اب چھوٹا بینچ بھی سن سکتا ہے، ترمیم کے بعد 13 رکنی بینچ کا فیصلہ اب 8 یا 9 رکنی آئینی بینچ بھی سن سکتا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے لیے تمام ججز قابل احترام ہیں، میرا بینچ کے کسی ممبر کے وقار پر بھی کوئی اعتراض نہیں، میرے 11 رکنی بینچ کی تشکیل پر آئینی و قانونی اعتراضات ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ میں واضح کر دوں کہ دونوں ججز نے خود بینچ سے علیحدگی اختیار کی، دو ممبران کی خواہش پر 11 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نظرثانی کے لیے ججز کی تعداد کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہاں 13 رکنی بینچ تھا، دو خود علیحدہ ہوگئے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ دو ممبران نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا، آپ ان ججز کو کیوں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ججز کے اپنے اعتراض کے بعد پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ وہ دونوں ججز اب بیٹھ کر کیا کریں گے، دونوں ججز اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔ جسٹس امین نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ اعتراضات پر تفصیل سے دلائل دوں گا، کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں ایک سماعت اور لے لوں گا۔ جسٹس امین نے کہا کہ آپ اعتراضات پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے لیے یہ کیس ضروری نہیں اور میرا موکل بھی ضروری نہیں ہے، میرے لیے عدالت کا نظرثانی دائرہ سماعت ضروری ہے، ایک بار طے ہو جانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بینچ سنے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب دو ججز خود نہیں بیٹھنا چاہتے تو آپ کیوں انھیں بٹھانا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے دو ججز تو اکثریتی فیصلے میں اپنی رائے شمار کرنے پر بھی راضی نہیں ہیں، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ دونوں ججز کے اختلافی نوٹ کو اکثریتی فیصلے میں شمار کیا جائے گا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین یا قانون میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ اختلافی نوٹ کو شمار کیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب دو ججز نے درخواستیں پہلی ہی سماعت پر خارج کر دیں تو پھر انہیں کیسے بٹھائیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا آئینی کنونشن کا تقاضا ہے کہ وہی عددی تعداد والا بینچ نظرثانی درخواستیں سنے جس نے پہلے سنا ہو، مستقبل کے لیے کم از کم اصول طے ہونا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئینی بینچ میں مقدمات خودکار طور پر منتقل ہو جاتے ہیں، آئینی بینچ میں نامزد ججز کی کل تعداد 15 ہے، دو ججز ایسے ہیں جو پشاور ہائیکورٹ میں اس کیس کو سن چکے ہیں، باقی تمام ججز کو اس بینچ میں شامل کیا گیا ہے، بینچ کی تشکیل میں ججز کو پسند ناپسند کی بنیاد پر شامل نہیں کیا گیا، ہم نے تو چار یا تین والی بحث سے بچنے کے لیے یہ طے کیا کہ دو ججز کی رائے کو آخر میں شمار کیا جائے گا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں ایک تجویز دینا چاہتا ہوں، سنی اتحاد کونسل نظرثانی درخواستوں پر سماعت روکی جائے اور جوڈیشل کمشن اجلاس بلا کر دو مزید ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے۔ جسٹس امین نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ دلائل دیں، فیصلہ تو ہم نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ ویسے مزید ممبرز کو شامل کرنے پر کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ دیکھیں ہم کسی کی خواہش پر نہ کیس بنا سکتے نہ کیس چلا سکتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ مستقبل کے لیے اصول طے کریں، کہیں کل یہ نہ ہو کہ آئینی بینچ کے تین جج بیٹھ کر فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیس سن رہے ہوں۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے رجسٹرار آفس سے چیک کرایا ہے، رجسٹرار آفس نے کہا ہے ہماری درخواست میں توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے، آپ اس کا تعین کھلی عدالت میں کریں۔ جسٹس جمال نے سوال کیا کہ اگر ہمارے سامنے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں تو کیا ہوگا؟۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر رجسٹرار آفس اعتراضات لگائے تو آپ اپیل دائر کر دیں۔ بعدازاں آئینی بینچ نے  سماعت آج منگل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی نے کہا کہ نے ریمارکس دیے کہ ا جسٹس امین الدین کیا جائے بینچ کے ججز کو کے لیے

پڑھیں:

حکومت کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کا فوری عملدرآمد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 جولائی2025ء) حکومت کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کا فوری عملدرآمد، حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی، قومی اسمبلی میں حکومت کو 235 نشستیں مل گئیں۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں بحال کردیں۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب امیدواروں کی واپسی سے متعلق 24 اور 29 جولائی 2024 کے نوٹیفکیشنز واپس لے لیے۔ سپریم کورٹ کے 27 جون 2025 کے فیصلے کی بنیاد پر جاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے قومی اسمبلی، پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے جنرل نشستوں پر پی ٹی آئی امیدواروں کی واپسی کالعدم قرار دے دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشنز واپس لینے کا حکم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی تعمیل میں دیا گیا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 27جون کو 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلی تھیں، عدالت نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا اور سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومت کے حق میں دیے گئے فیصلے پر فوری عملدرآمد کرنے پر سوالات بھی اٹھ گئے۔ گزشتہ برس 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کی اکثریت کی جانب سے تحریک انصاف کو پارلیمانی پارٹی مانتے ہوئے مخصوص نشستوں کا فیصلہ دیا گیا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ نے حکمران جماعتوں میں اضافی مخصوص نشستیں تقسیم کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔

تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک سال تک سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی شاہزیب خانزادہ نے بھی الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے متعلق سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بس چلے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل ہی حکومت کے حق میں فیصلے پر عملدرآمد کر دیتا۔ جبکہ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حکمران جماعتوں میں اضافی مخصوص نشستیں تقسیم کرنے سے حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ حکمران اتحاد کے ایم این ایز کی تعداد اب 235 ہے، جبکہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کیلئے 226 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ نے خیبرپختونخوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کو چیلنج کر دیا
  • جسٹس محمد علی مظہر کا سندھ حکومت پر برہمی کااظہار
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس سننے والے بینچ میں شامل جج کی چھٹیوں کا شیڈول جاری
  • مسلم لیگ ن نے کےپی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کو چیلنج کردیا
  • مسلم لیگ ن نے کے پی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کو چیلنج کردیا
  • لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ: قومی ایئر لائن کی نجکاری کےخلاف درخواست خارج
  • مخصوص نشستوں کا کیس: درخواست گزار کے وکیل کو کلائنٹ سے ہدایات لینے کا حکم
  • حکومت کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کا فوری عملدرآمد
  • قومی اسمبلی میں کس کا راج؟ مخصوص نشستوں نے گیم بدل دی
  • اسلام آباد: قومی اسمبلی میں خواتین کی تین مخصوص نشستیں تاحال خالی