26ویں آئینی ترمیم کے بعد چھوٹا بینچ بھی نظر ثانی کیس سن سکتا ہے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چھوٹا بینچ بھی نظر ثانی کیس سن سکتا ہے۔
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی اپیلوں کی سماعت ہوئی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ نظر ثانی میں ایک آئینی اصول طے شدہ ہے، جتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا ہے اتنا رکنی بینچ ہی نظر ثانی سن سکتا ہے۔
اس پر سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چھوٹا بینچ بھی نظر ثانی کیس سن سکتا ہے، یہاں 2 ججوں نے درخواستیں خارج کرکے خود بیٹھنے سے انکار کیا ہے، ان ججز کی خواہش پر ہی چھوٹا 11 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی کو مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ان دو ججوں کو شامل کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے نوٹس نہ دینے کا فیصلہ خود کیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وہ 2 ججز اپنا فیصلہ دے چکے ہیں اب وہ بینچ میں بیٹھ کر کیا کریں گے۔
اس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر دلائل دیں گے، نظرثانی کے دائرہ سماعت کا تعین ہونا ضروری ہے، ایک بار طے ہوجانا چاہیے کہ نظرثانی کون سا بینچ سنے گا۔
سپریم کورٹ آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ سن سکتا ہے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔