فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار صرف غلطیوں کی درستی کیلیے ہے، جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے قرار دیا کہ کسی عدالتی فیصلے پر نظرثانی ایک اہم قدم ہے اور یہ اقدام اسی وقت اٹھانا چاہیے جب ریکارڈ پر کسی واضح غلطی، لاپرواہی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے سنگین ناانصافی سامنے آئی ہو۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ایک درخواست کی سماعت کے بعد 7 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ میں کہا کہ اگر فیصلے میں غلطی اتنی نمایاں اور اہم ہو کہ اسے فیصلہ دینے سے پہلے دیکھا جاتا تو نتیجہ مختلف ہوتا تو ایسی صورت میں ہی نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچ کے رولز نہ بننے پر ججز کمیٹی بظاہر تقسیم کا شکار
آئین سپریم کورٹ کے اپنے سابقہ فیصلوں کا جائزہ لینے پر کوئی پابندی نہیں لگاتا بشرطیکہ شہریوں کے بنیادی حقوق یا عوامی مفاد کے پیش نظر نظرثانی درخواست ضروری ہو، عدالت بغیر کسی رسمی درخواست کے اپنے فیصلے کا ازخود جائزہ لینے کی مجاز ہے۔
یہ اختیار فریقین کے لیے مقدمہ دوبارہ کھولنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ واضح اور نتیجہ خیز غلطیوں کو درست کرنے کے لیے ہے۔
قبل ازیں جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججوں کے بینچ نے نظرثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے غیر ضروری درخواستوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جو فٹ پاتھوں سے کیبن نہیں ہٹاتا اس کیخلاف مقدمہ درج کرائیں، جسٹس یوسف علی سعید
کراچی(این این آئی)سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس یوسف علی سعید نے مضر صحت اشیا فروخت کرنے والے کیبن ہٹانے کی درخواست پرریمارکس دیئے ہیں کہ جو فٹ پاتھوں سے کیبن نہیں ہٹاتا اس کیخلاف مقدمہ درج کرائیں۔ پیرکوسندھ ہائی کورٹ میں ضلع کورنگی اور ملیر کے علاقوں سے مضر صحت اشیا فروخت کرنے والے کیبن ہٹانے کے لیے درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواستگزار کے وکیل مزمل ممتاز میئو ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ غیر قانونی کیبن صرف کورنگی اور ملیر میں نہیں بلکہ پورے شہر میں لگے ہیں۔