علیزے شاہ کا عیدالاضحیٰ کے حوالے سے جذباتی پیغام؛ مداحوں سے اپیل
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
پاکستانی اداکارہ علیزے شاہ نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر سوشل میڈیا پر ایک انتہائی حساس اور جذباتی پیغام شیئر کیا ہے جو صارفین کے دلوں کو چھو گیا۔ انہوں نے قربانی کے اسلامی روایت کے احترام کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں علیزے نے لکھا: ’’کافی عرصے سے میرے دل میں یہ بات تھی۔ میں جانتی ہوں قربانی ایک سنت ہے، حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کی یادگار ہے۔ لیکن کیا ہم اس کی روح کو برقرار رکھ پا رہے ہیں؟‘‘
اداکارہ نے اپنے پیغام میں خاص طور پر زور دیا: ’’خون آلود تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے سے گریز کریں، جانوروں کے خوف اور درد کو میمز نہ بنائیں، قربانی کے جانوروں کے سائز اور تعداد کے فخریہ پوسٹس کے بجائے عاجزی کو فروغ دیں‘‘۔
علیزے نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’میں ہر سال سڑکوں پر بہتے خون اور جانوروں کی آنکھوں میں خوف دیکھتی ہوں۔ وہ بول نہیں سکتے، لیکن محسوس ضرور کرتے ہیں۔ کیا ہم ان کے جذبات کا احترام نہیں کر سکتے؟‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ یہ پیغام کسی کی مذہبی عقیدت پر تنقید نہیں بلکہ ایک درخواست ہے: ’’اسلام ہمیں رحم دلی اور احترام کا درس دیتا ہے۔ کیا ہم اسی روح کے ساتھ قربانی کا عمل انجام دے سکتے ہیں؟‘‘
اپنے پیغام کے اختتام پر علیزے نے کہا: ’’یہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن مجھے یہ بات کہنی تھی جو میرے دل پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔‘‘
علیزے شاہ کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جہاں کچھ صارفین ان کے خیالات سے متفق ہیں جبکہ کچھ نے روایتی نقطہ نظر کو برقرار رکھا ہے۔ تاہم سب نے اس بات کو سراہا ہے کہ انہوں نے نہایت شائستگی اور احترام کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-6
سید آصف محفوظ
پاکستان کی سیاسی اور فکری تاریخ میں جماعت ِ اسلامی ہمیشہ ایک اصولی اور نظریاتی تحریک کے طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی مدرسہ ہے۔ جس کا نصب العین دینِ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے۔
قیام اور نظریاتی بنیاد: 26 اگست 1941ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اْس وقت برصغیر میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، مگر مولانا مودودی نے ان سب سے ہٹ کر ایک نیا زاویہ فکر پیش کیا: ’’اسلامی انقلاب‘‘۔ ان کے نزدیک سیاست، معیشت، اخلاق اور سماج سب کچھ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت ِ اسلامی کے منشور اور تحریک کی اساس بنی۔
تحریک سے جماعت تک: قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے نئے ملک کو ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ قرار دیا اور اس کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں، مزدور و طلبہ ونگ؛ سب اسی فکر کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ایک متوازن اور باوقار آواز کے طور پر ابھری۔ آمریت کے خلاف، بدعنوانی کے مقابل، اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے۔
قیادت کا تسلسل: سید مودودیؒ سے میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن تک جماعت کی قیادت نے نظریے کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ یہ قیادت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و تربیتی بھی ہے۔ جماعت ہمیشہ کردار کو اقتدار پر مقدم رکھتی آئی ہے۔
اجتماعِ عام 2025: حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام 21 تا 23 نومبر 2025ء کو مینارِ پاکستان، لاہور میں منعقد ہوگا۔ موضوع ہے: ’’بدل دو نظام‘‘ جو محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم کا اظہار ہے۔ یہ اجتماع پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کے پس منظر میں اسلامی نظامِ عدل و انصاف کی طرف دعوت ہے۔
مقاصدِ اجتماع: 1۔ عوام میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا شعور بیدار کرنا۔ 2۔ نوجوانوں کو زمانے کے بدلتے حالات تعلیم، قیادت اور اخلاقی کردار کے لیے تیار کرنا۔ 3۔ پرامن، منظم اور اصولی جدوجہد کی راہ دکھانا۔ 4۔ آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ زندگی کی اصلاح۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنان اس اجتماع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہر ضلع، ہر یونٹ، ہر ونگ اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکنوں کے مطابق یہ اجتماع محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ’’تحریکی تجدید‘‘ ہے، جہاں نظریہ، تنظیم، اور عوامی رابطہ تینوں کا حسین امتزاج دکھائی دے گا۔
جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وقتی مفادات نہیں، اصولوں کی سیاست کرتی ہے۔ اجتماعِ عام ’’بدل دو نظام‘‘ اسی تسلسل کی نئی کڑی ہے۔ ایک اعلان کہ تبدیلی تب آتی ہے جب ایمان، کردار اور قیادت ایک سمت میں چلیں۔ ممکن ہے کہ نومبر 2025 کا یہ اجتماع پاکستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب جہاں سیاست نظریے کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مفاد کی۔