فیلڈ مارشل عاصم منیر: تسخیر سےناقابلِ تسخیر تک
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
قومیں خوابوں سے بنتی ہیں لیکن وہ خواب جن کی تعبیر میدانِ عمل میں دکھائی دے وہی قوموں کی تاریخ میں سنگِ میل بنتے ہیں۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں کئی ایسے لمحات آئے جب جرات حوصلے اور قیادت کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوئیں، مگر حالیہ ایام میں جو کچھ پاکستان نے اپنے ازلی دشمن بھارت کو منہ توڑ جواب دے کر دنیا کو دکھایا وہ محض ایک دفاعی کامیابی نہیں بلکہ ایک نظریاتی و قومی بیانیے کی فتح ہے اور اس بیانیے کا پرچم فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان کے حکومتی و عسکری حلقوں سے ہم ہمیشہ سے دو الفاظ سنتے آئے ہیں: ’’تسخیر‘‘ اور ’’ناقابلِ تسخیر‘‘۔ یہ الفاظ اکثر تقاریر، پریس کانفرنسز اور سرکاری بیانات کاحصہ ہوتے ہیں اور عوام ان کو ایک رسمی اظہار سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں مگر بعض اوقات وقت خود ان الفاظ کی گہرائی اور صداقت کو آشکار کر دیتا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زبان سےجب یہ جملہ سننے کو ملا کہ ’’پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے‘‘ تو یہ بھی بظاہر ایک رسمی اعلان ہی محسوس ہوا۔ گزشتہ ماہ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار یہی جملہ دہرایا۔ قوم نے سنا، سراہا اور ایک روایت کے طور پر قبول کیا مگر اس وقت ان الفاظ کی معنویت حقیقت میں ڈھلی جب بھارت نے اور مئی کی درمیانی شب پاکستان پر حملے کی جسارت کی۔اس حملے کا مقصد پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس بار ان کاسامنا محض ایک ریاست سے نہیں بلکہ ایک نظریاتی قلعے سے ہے جسے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت نے فولادی بنا دیا ہے۔ وہی فوج جس پر بعض حلقے تنقید کے تیر برساتے رہے، وہی سپاہ جس پر کئی لوگ انگلیاں اٹھاتے رہے اس بار اس نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا کر پوری دنیا کو پیغام دے دیا کہ پاکستان واقعی ناقابلِ تسخیر ہے۔
9 اور 10 مئی کی تاریخیں پاکستان کی عسکری تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھی جائیں گی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستانی افواج نے بھارت کے حملے کا ایسا بھرپور جواب دیا کہ دشمن کے ٹینک خاموش ہوگئے،ان کےجدیددفاعی میزائل نظام مفلوج ہو گئے، ان کے جنگی طیارے فضائوں میں رقص کرنے کے بجائے زمین بوس ہو گئے۔ بھارت جس زعم میں تھا وہ چکناچور ہو گیا اور یہ سب کچھ صرف ہتھیاروں کی برتری یا منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ عزم و قیادت تھی جو فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ذات میں مجسم نظر آئی۔یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کا ہر شہری یہ سمجھنے لگا کہ جب عاصم منیر ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ کہتے تھے تو وہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہے تھے۔ جو قیادت محض دعویٰ نہ کرے بلکہ اس دعوے کو میدانِ عمل میں ثابت کرے وہی اصل رہنما کہلاتی ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے عسکری قیادت کو صرف ایک کمانڈ کی شکل میں نہیں بلکہ ایک قومی بیانیے کے روپ میں ڈھالا۔ ان کی حکمتِ عملی میں وہ گہرائی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر جب اس کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے صرف حملہ نہیں روکا بلکہ دشمن کو اس کی سرزمین پر وہ سبق سکھایا جو تاریخ کے اوراق میں زندہ رہے گا،یقیناً ان دنوں کے بعد ہروہ شخص جو پاکستان آرمی پر تنقید کرتا تھا یا اس کے کردار کو مشکوک سمجھتا تھا، اسے خاموشی اختیار کرنی پڑی کیونکہ جو سپہ سالار اپنی بات پر کھرا اترے جو وعدہ کرےاوراسے پورا کرے اس پر تنقید کرنا دراصل قومی وقار پر حملہ ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز صرف سرحدی نوعیت کے نہیں اندرونی طور پر بھی بے شمار مشکلات ہیں۔ مگر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ان چیلنجز کو بھی اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اندرونی صفوں کو مضبوط کیا، نوجوانوں کو حوصلہ دیا، اور اوورسیز پاکستانیوں کو وطن کے دفاع میں شریکِ فکر و عمل کیا۔ ان کی قیادت میں عسکری میدان کے ساتھ ساتھ فکری محاذ پر بھی پاکستان نے کامیابیاں حاصل کیں۔
ناقابلِ تسخیر صرف وہ نہیں جو ہتھیاروں سے لیس ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو نیت میں خلوص، عمل میں استقامت اور قیادت میں تدبر رکھتا ہو۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی یہی خوبیاں ہیں جنہوں نے انہیں محض ایک سپاہی نہیں بلکہ ایک عہد ساز قائد بنا دیا ہے۔ وہ قائد جس نے نہ صرف دشمن کو شکست دی بلکہ اپنی قوم کے دلوں کو بھی فتح کر لیا۔یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے قوم کے ان سپوتوں کا بھی ذکر کرنا ہے جنہوں نے فیلڈ مارشل کی قیادت میں جان کی قربانی دی مگر دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔ وہی جوان جن کے بازوئوں میں اللہ تعالی نے طاقت رکھی اور جن کے دلوں میں پاکستان کی محبت موجزن ہے۔ یہی جذبہ ہے جو ایک عام فوجی کو ناقابلِ شکست بناتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری قوم آج ان پر فخر کر رہی ہے۔
آج جب ہم ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ کا مطلب سمجھ چکے ہیں تو ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیےصرف ہتھیار نہیں بلکہ نظریہ، قیادت اور اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے یہ تینوں عناصر ہمیں فراہم کیے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم بھی بطورقوم ان کا ساتھ دیں، ان پر اعتمادکریں اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔پاکستان نے دکھا دیا ہے کہ وہ صرف تسخیر کرنے والا نہیں بلکہ ناقابلِ تسخیر بھی ہے، اور یہ سب ممکن ہوا ہے ایک ایسے قائد کی بدولت جس نے صرف باتیں نہیں کیں بلکہ اپنی ہر بات کو عملی جامہ پہنایا۔فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان آج جس مقام پر کھڑا ہے، وہ ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ اب دشمن کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ پاکستان کو زیر کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی قیادت ایسی ہے جو راتوں کو جاگ کر سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، اور دن کے اجالے میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ ناقابلِ تسخیر صرف وہی ہوتے ہیں جو خود کو تسخیرکرچکے ہوں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے خود کو، ادارے کو اور قوم کو یکجا کر کے واقعی پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی نہیں بلکہ ایک کی قیادت میں پاکستان نے پاکستان کو دشمن کے دیا ہے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔