وزارت مواصلات میں 5 ہزار، پاکستان پوسٹ 314 غیر قانونی بھرتیاں، 9 ارب کے بل ’’غائب‘‘
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ جے یو آئی کو دی گئی وفاقی وزارت مواصلات میں 2022ء اور 2023ء میں 5 ہزار سے زائد غیرقانونی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ چیئرمین پی اے سی جنید اکبر کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ آڈٹ اعتراض سے آگاہ کیا گیا کہ وزارت مواصلات میں بھرتیاں مولانا اسعد محمود کے دور میں گریڈ 1 سے گریڈ 15 میں کی گئیں۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایسے لوگوں کو بھی بھرتی کیا گیا جنہوں نے ان بھرتیوں کے لیے اپلائی بھی نہیں کیا تھا، جس پر جنید اکبر نے کہا کہ اکثریت کے دستاویزات بھی جعلی تھے اور 10 سے 15 لاکھ میں ایک اسامی فروخت ہوئی ہے۔ وزارت مواصلات کے حکام نے بتایا کہ جن افراد کے دستاویزات غلط تھے ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، کئی افراد ٹیسٹ کے لیے نہیں آئے اور نہ کئی افراد انٹرویو کے لیے آئے اور یہ معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوانا بنتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ان افراد کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے جنہوں نے پیسے لے کر یہ آسامیاں لیں۔ پاکستان پوسٹ کے حکام نے بتایا کہ تمام ہائی کورٹس میں اس کے خلاف لوگ سٹے لے چکے ہیں، جن لوگوں کو ہم نے گھر بھیجا ان کو عدالت نے بحال کردیا جبکہ اجلاس میں پاکستان پوسٹ آفس کی جانب سے 314 افراد کی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا۔ حکام پوسٹل سروسز نے کہا کہ بالکل لوگوں نے پیسے دے کر آسامیاں خریدی ہیں۔ ملتان اور خیبرپی کے سے اس طرح کی اطلاعات آئی ہیں۔ سیکرٹری وزارت ہاؤسنگ نے کہا کہ 417 افراد کو میں نے گھر بھیجا ہے، جن لوگوں نے بھرتیاں کی ہیں، میں نے ان کو شو کاز نوٹس جاری کیے ہیں۔ جنید اکبر نے کہا کہ تمام اٹارنی جنرلز کو بلائیں اور اس مسئلے کا بتائیں کہ سٹے ختم ہو۔ اس پر سیکریٹری مواصلات کا کہنا تھا کہ تادیبی کارروائیاں شروع کی گئیں لیکن عدالتوں سے سٹے آرڈر لیے گئے ہیں۔ اشتہار سے زائد بھرتی کیے گئے لوگوں کو نکالا گیا ہے۔ جس پر چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ لوگوں سے پیسے لے کر میرٹ کے خلاف بھرتیاں کی گئی ہیں۔ پی اے سی نے معاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے اس معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کمیٹی نے فنانس ڈویژن کی اجازت کے بغیر وزارت مواصلات کی جانب سے اکاؤنٹس کھولنے کا معاملہ ایک ہفتہ میں حل کرنے کی ہدایت کردی۔ دریں اثناء قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ منی آرڈر کی مد میں جمع ہونے والے 9 ارب روپے کے بل اور منی آرڈر کی رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہ کروائے جانے کا انکشاف ہوا ہے اور کہا گیا کہ متعدد پوسٹ آفسز نے کسی اور مد میں استعمال کرلیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین پی اے سی جنید اکبر کی زیرصدارت اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جمع کیے گئے 9 ارب روپے کے بل اور منی آرڈر کی رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہیں کروایا گیا ہے۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ عوام کے جمع کیے گئے پیسے 37 پوسٹ آفسز نے کسی اور مد میں استعمال کرلیے ہیں، عوام سے پیسے وصول ہوگئے لیکن ان کی ادائیگی ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ جنید اکبر نے حکام کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ میرے پیسے کیسے اپنے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جس پر پوسٹل سروسز کے عہدیداروں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں وگرنہ یہ بڑا کیا ہوتا، یہ تمام معاملات درست ہو جائیں گے جب اعدادوشمار کا مکمل احاطہ ہوگا۔ نیشنل بینک نے ہمیں 3 ماہ کا وقت دیا ہے اور اس دوران یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جس پر جنید اکبر خان نے کہا کہ یہ کون سا دعویٰ ہے کہ نیشنل بینک آپ کو بینک اسٹیٹمنٹ نہیں دے رہا ہے، 2024 میں آپ نے مانا کہ غلط کام ہوا ہے ذمہ داری کا تعین کرنا ہوگا اور اب آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگلے اجلاس میں نیشنل بینک کو بلایا جائے تب اس آڈٹ پیرا کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیشنل بینک حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے آڈٹ اعتراض مؤخر کردیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پبلک اکاو نٹس کمیٹی حکام نے بتایا کہ چیئرمین پی اے سی وزارت مواصلات اجلاس میں ا انکشاف ہوا جنید اکبر نے کہا کہ کہا کہ ا کے خلاف کی گئی ہوا ہے
پڑھیں:
کیمبرج پیپر لیک کا معاملہ ایوان میں پہنچ گیا؛ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا سخت نوٹس
کراچی:کیمبرج کے پرچے پاکستان میں آؤٹ ہونے کا معاملہ ملک کے ایوانوں تک جا پہنچا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کیمبرج پر عدم اعتماد اور معاملے پر باقاعدہ اور خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل ’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ نے اس معاملے پر خبر دیتے ہوئے کیمبرج کے پاکستان میں گرتی ہوئی ساکھ کو موضوع بنایا تھا۔
علاوہ ازیں، قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعے کی صبح چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی عظیم زاہد کی زیر صدارت ہوا، جس میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن محمد علی سرفراز نے ’’اے اور او لیول‘‘ کے مئی سیریز کے پرچے لیک ہونے کا معاملہ اٹھایا اور اس معاملے پر اجلاس میں کیمبرج کے رویے پر شدید تنقید کی گئی۔
اجلاس میں علی سرفراز کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے پاس ویڈیو شواہد موجود ہیں جو طلبہ نے انھیں دیے ہیں جو بتاتے ہیں کہ پرچے آؤٹ ہوئے ہیں، یہ وہ شواہد ہیں جس سے انکار ممکن نہیں تاہم اس منفی عمل سے انتہائی محدود تعداد میں طلبہ نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اب اگر کیمبرج پرچے منسوخ کرتا ہے تو ایوریج مارکنگ کی جاتی ہے تو اس سے طلبہ کا نقصان ہوگا لہٰذا کیمبرج پرچے دوبارہ لے یا پھر تھرش ہولڈ کم کرے۔
اجلاس کے دوران اس موقع پر پوچھا گیا کہ آخر کیمبرج کو پاکستان میں مانیٹر کرنے کی کونسی اتھارٹی ہے جس پر اجلاس میں موجود وفاقی وزارت تعلیم کے افسر بولے کہ کیمبرج کو ہم نہیں دیکھتے، آئی بی سی سی موجود ہے اس سے پوچھ لیتے ہیں۔
اجلاس میں موجود آئی بی سی سی کے ایگزیکٹیو و ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ملاح بولے کہ ہمیں تو آج معلوم ہوا ہے کہ کیمبرج کی مانیٹرنگ کے ذمے دار ہم ہیں جبکہ ماضی میں محکمہ تعلیم کے ہی ایک افسر نے ہی کیمبرج کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ یہ امتحانات برٹش کونسل کے علاوہ دیگر نجی اسکول بھی کروا سکتے ہیں جبکہ ہم سے اس بارے میں کبھی پوچھا ہی نہیں گیا۔
ڈاکٹر غلام علی ملاح نے مزید کہا کہ جب گزشتہ برس کیمبرج کا پرچہ آؤٹ ہوا اور بعد ازاں یہ پرچہ منسوخ کیا گیا تو ہم کیمبرج سے کہتے رہے کہ تحقیقات کے نتائج سے ہمیں بھی آگاہ کریں لیکن کیمبرج نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اور آئی بی سی سی کو ایک کورٹ نوٹس سے اس معاملے کا علم ہوا۔
اجلاس کے آخر میں طے کیا گیا کہ پرچے لیک ہونے کی تحقیقات اب قائمہ کمیٹی خود کرے گی۔ اس ضمن میں ایک ضمنی کمیٹی بنائی گئی جس میں ڈاکٹر علیم، زیب جعفر، محمد علی سرفراز اور ڈاکٹر غلام علی ملاح کو شامل کیا گیا۔ یہ کمیٹی کیمبرج کے پرچے آؤٹ ہونے کی تحقیقات کرے گی تاہم کہا گیا کہ کیونکہ کیمبرج کے پاکستان میں موجود عظمی یوسف سمیت دیگر افسران کا مینڈیٹ محدود ہے لہٰذا اگر ضرورت پڑی تو اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بیرون ملک کیمبرج سے بھی رابطہ کرسکتی ہے۔
یہ تحقیقات کیمبرج کی پاکستان میں نمائندہ عظمی یوسف کی استدعا پر 16 جون کے بعد شروع ہوگی۔ اجلاس میں عظمی یوسف نے پاکستانی تعلیمی بورڈ پر تنقید کی کوشش کی اور کہا کہ ان بورڈز کی کارکردگی کے باعث طلبہ ہمارے پاس آتے ہیں جس پر اراکین نے کہا کہ آپ اپنے بورڈ کی بات کریں پاکستانی بورڈ کو رہنے دیں پاکستان کے سارے بورڈ خراب نہیں ہیں کچھ کی کارکردگی بہتر بھی ہے۔