Daily Mumtaz:
2025-11-03@18:00:28 GMT

غزہ میں امریکی تنظیم نے امدادی مراکز دوبارہ کھول دیے

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

غزہ میں امریکی تنظیم نے امدادی مراکز دوبارہ کھول دیے

غزہ میں امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی تنظیم نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ اس نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں دو امدادی مراکز کو دوبارہ کھول دیا ہے، جنہیں بدھ کے روز قریبی فائرنگ کے واقعات کے بعد عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔

“غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF)” نامی تنظیم نے بتایا کہ بدھ کے روز تمام مراکز کو دیکھ بھال کے لیے بند کر دیا گیا تھا لیکن اب دو مراکز کام کر رہے ہیں، جن میں سے ایک نئی جگہ پر قائم کیا گیا ہے۔

یہ تنظیم گزشتہ ہفتے سے امداد کی تقسیم کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر غیر جانبدار نہ ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق، 11 ہفتے کے اسرائیلی محاصرے کے بعد غزہ کے 23 لاکھ افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جمعرات کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح تین گنا بڑھ گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، مئی کے دوسرے حصے میں 5.

8 فیصد بچوں میں شدید غذائی قلت پائی گئی، جو فروری کے مقابلے میں تقریباً تین گنا ہے۔

دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ دو اسرائیلی-امریکی قیدیوں کی لاشیں بازیاب کر لی گئی ہیں، جنہیں حماس نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد قتل کر کے غزہ منتقل کیا تھا۔ اب بھی 56 قیدی زیر حراست ہیں، جن میں سے نصف سے کم زندہ سمجھے جا رہے ہیں۔

غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں 20 فلسطینی جاں بحق ہو گئے ہیں، جن میں چار صحافی بھی شامل ہیں۔ حماس کے زیر انتظام میڈیا دفتر کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 225 صحافی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔

Post Views: 2

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

کیا کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ ختم ہو گئی؟

ایک سال قبل، اکتوبر 2024 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا ایک بڑا جرگہ ہوا تھا۔ اس جرگے میں مزید عوامی جرگے اور احتجاجی مظاہرے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد سے پی ٹی ایم اور اس کے رہنما منظرِ عام سے غائب ہو گئے ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اکتوبر 2024 کا جرگہ کالعدم پی ٹی ایم کے لیے آخری ثابت ہوا، اور اس کے بعد یہ تنظیم، جو پشتونوں کے حقوق کے نام پر بنی تھی، وقت سے پہلے ہی ختم ہو گئی یا اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔
دوسری جانب کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے حامی اب بھی موجود ہیں، تاہم تنظیمی سطح پر کوئی سرگرمی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پی ٹی ایم معصوم لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی تھی، جو ناکام ثابت ہوئی۔

پشاور کے نوجوان صحافی انور زیب، جو کالعدم پی ٹی ایم کے جرگوں اور جلسوں کی کوریج کرتے رہے ہیں، اس تنظیم پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پی ٹی ایم چند سال تک فعال رہی اور اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔
انور زیب نے کہا، “نقیب اللہ محسود کے قتل سے پہلے تک منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا نام کسی کو معلوم نہیں تھا، مگر جب یہ لوگ ڈی آئی خان سے پشاور پہنچے تو راتوں رات ان کی ملک بھر میں مقبولیت بڑھ گئی۔”

ان کے مطابق بعد ازاں پی ٹی ایم نے باقاعدہ جلسے، جلوس اور جرگے شروع کیے، جن میں پشتون علاقوں کے معروف افراد بھی شامل ہو گئے۔
“اگر دیکھا جائے تو کالعدم پی ٹی ایم ابتدا سے ہی متنازع رہی۔ وہ خود کو غیر سیاسی تحریک کہتی تھی، مگر منظور پشتین کے اردگرد زیادہ تر سیاسی لوگ موجود تھے۔”

انور زیب کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم پشتونوں کے خلاف ظلم، زیادتی، آپریشنز اور ناانصافی کے خلاف بنی تھی، اور اس کی شہرت کی بڑی وجہ طاقتور ریاستی اداروں پر تنقید اور نعرے بازی تھی۔ “جہاں بھی کوئی ظلم یا ناانصافی ہوتی، پی ٹی ایم والے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اکتوبر 2024 کا جرگہ ان کے لیے بھاری ثابت ہوا۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھی اب کہیں نظر نہیں آ رہے۔”

ان کے مطابق ایک سال گزر چکا ہے اور پی ٹی ایم کی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی۔ “اگر میں کہوں کہ یہ تنظیم ختم ہو گئی ہے تو غلط نہیں ہوگا، کیونکہ کسی بھی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے عوامی رابطہ ضروری ہے۔”

انور زیب نے کہا کہ دنیا بھر میں اکثر تحاریک وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں، اور جب مسائل ختم ہو جائیں تو عوام کی دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ تاہم، ان کے مطابق پی ٹی ایم شاید وقت سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پی ٹی ایم پر کئی سنگین الزامات لگے، لیکن اس نے حکومت اور ریاستی اداروں کو قبائلی علاقوں کے مسائل کی طرف متوجہ کیا۔ “آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے طاقتور حلقوں کو چیلنج کیا اور قبائلی مسائل کو سامنے لایا۔”

پشاور کے ایک اور تحقیقاتی صحافی وسیم سجاد بھی کچھ حد تک انور زیب سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ اگر کالعدم پی ٹی ایم دوبارہ سرگرم ہوئی تو لوگ اب بھی اس کے ساتھ آئیں گے۔

وسیم سجاد کے مطابق، “گزشتہ سال اکتوبر میں خیبر جرگہ بہت متنازع ثابت ہوا۔ مختلف سیاسی رہنماؤں کے اختلافات، حتمی اعلامیے پر اتفاقِ رائے نہ ہونا، اور اس کے فوراً بعد حکومتی کریک ڈاؤن نے پی ٹی ایم کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومت نے تنظیم پر پابندی لگائی اور منظور پشتین سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے، جس کے بعد وہ سب روپوش ہو گئے۔”

وسیم نے بتایا کہ کالعدم پی ٹی ایم پر پہلے سے ہی مختلف الزامات موجود تھے، جیسے بیرونی ممالک سے تعلق اور مبینہ فنڈنگ۔ “حکومتی اداروں کا موقف ہے کہ پی ٹی ایم بیرونِ ملک سے آپریٹ ہو رہی تھی۔”

ان کے مطابق فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی ایم مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ تنظیم منظرِ عام سے غائب ہے اور عوام سے اس کا رابطہ ختم ہو چکا ہے۔
“پہلے جہاں بھی ناانصافی ہوتی، یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے تھے، اب لوگ ان کی طرف دیکھتے ہیں مگر وہ خاموش ہیں۔”

معصوم لوگوں کی ریاستی اداروں کے خلاف ذہن سازی کے سوال پر وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ایسے الزامات کالعدم پی ٹی ایم پر ضرور لگے، لیکن یہ بات قابلِ بحث ہے کہ آیا وہ واقعی لوگوں کو اکساتے تھے یا حقیقی مسائل پر بات کرتے تھے۔
“آپ منظور پشتین کے اندازِ بیان سے اختلاف کر سکتے ہیں، مگر بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ان کے ترجمان تھے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ پابندی کے بعد پی ٹی ایم کے رہنماؤں کا عوام سے رابطہ تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کہاں ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی ایم پر اچانک پابندی اور اس کے بعد منظرِ عام سے غائب ہونا اس کی ناکامی کی علامت ہے۔ تاہم، تنظیم کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ رہنما اب بھی آپس میں رابطے میں ہیں اور حکومتی کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے عارضی طور پر روپوش ہیں۔

پی ٹی ایم کا مختصر پس منظر

کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی بنیاد 2014 میں جنوبی وزیرستان کے نوجوان منظور پشتین نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رکھی۔ ابتدا میں اس کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا، جس کا مقصد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے بعد بے گھر افراد، بارودی سرنگوں اور لاپتہ افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔

جنوری 2018 میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل نے اس تحریک کو ملک گیر شہرت دی۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں نے ’پشتون لانگ مارچ‘ شروع کیا، جو اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑی عوامی تحریک میں بدل گیا۔
اس مارچ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ اسی دوران تنظیم کا نام بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ رکھا گیا۔

بعد ازاں، ریاست اور پی ٹی ایم کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے، اور بالآخر وفاقی حکومت نے 6 اکتوبر 2024 کو پی ٹی ایم پر پابندی عائد کر دی۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق، تنظیم “ملک دشمن بیانیہ اور انارکی پھیلانے” میں ملوث تھی۔ختم

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • کیا کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ ختم ہو گئی؟
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان