Express News:
2025-11-03@20:12:35 GMT

بس اب بہت ہو چکا

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

7 اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل پر میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے کیے جن سے اسرائیل کے بارہ افراد ہلاک ہوئے مگر جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر میزائل حملے شروع کیے، اس سے درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک پچاس ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔

گو کہ تمام مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا، وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں بدستور مصروف ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا حکم دنیا کے ہر ملک کو ماننا لازمی ہے۔ اسرائیل ان کی کیا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے حلیف ممالک کی بھی نہیں سن رہا۔ عالمی عدالت انصاف بھی نیتن یاہو کو انسانیت کا قاتل قرار دے کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے مگر نیتن یاہو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کر رہا۔ وہ اسرائیل سے باہر ملکوں کا دورہ کر رہا ہے مگر اسے عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود کوئی ملک گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت حماس کے اسرائیل پر بغیر سوچے سمجھے میزائل حملے کا نتیجہ ہے۔ جب حماس نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا اس وقت بھی راقم الحروف نے حماس کے اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنے کالم میں اس کے بھیانک مضمرات کا ذکر کیا تھا کہ حماس کی اس غلطی سے فلسطینیوں پر کتنا بڑا عذاب آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ اسرائیلی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسرائیلی قیادت تو حماس کے حملے کا جیسے کہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسے موقع ملے تو وہ فلسطینیوں پر اپنا قہر ڈھائے اور غزہ کو تباہ کر کے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرے اور غزہ پر قبضہ جما سکے، اب اسرائیل بالکل وہی کر رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے کیوں کہ اسے اپنے آقا یعنی امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی اس کا دم بھر رہے ہیں۔

صرف مغربی ممالک ہی نہیں دیگر ممالک بھی اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو اس کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے اسی وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ حماس نے حملے میں پہل کی تھی حالاں کہ اس غلطی کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اب بھارت نے پاکستان پر حملے میں پہل کی ہے وہ عالمی قوانین کے مطابق جارحیت کا مرتکب ہوا ہے مگر کوئی بھی ملک اسے جارح قرار دے کر اس کی مذمت نہیں کر رہا البتہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کرنے کو ایک نامناسب اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل دنیا میں دہرا معیار چل رہا ہے سب ہی طاقتور کے ساتھ ہیں پھر یہاں بھارت کو یہ فائدہ پہنچ رہاہے کہ اس نے سرائیل کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے،دونوں ہی غاصب ملک ہیں۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپی ممالک اگر بھارت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کشمیر خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صحیح اقدام ہوگا تو ادھر اسرائیل کو فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا ہوگا جوکہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ہوگا، بس عالمی طاقتوں کی انھی مصلحتوں کی وجہ سے اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ہے اور نہ مسئلہ فلسطین پر کوئی پیش رفت ہو سکی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے محکوم قوموں کو غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کا اختیار دیا ہے اور حماس نے اسی نظریے کے تحت اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں مگر اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا اسی طرح کشمیر میں جو مجاہدین بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انھیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے جب کہ ایسا کہنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس کا اسرائیل کے خلاف میزائلوں سے حملہ بھی ان کی اپنی جدوجہد آزادی کا حصہ تھا جسے کسی طرح بھی دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے مگر افسوس کہ حماس کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑ گیا اور ان کی قوم کے لیے ایک وبال بن گیا جس کا قہر وہ پونے دو سالوں سے مسلسل جھیل رہے ہیں۔

 عرب ممالک اس جنگ کو بند کرانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں وہ اسرائیل پر دباؤ تک نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے جس سے آنکھیں ملانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی عرب ممالک امریکا سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو ٹرمپ سے شٹ اپ کال دلوا سکیں گے مگر وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب ممالک بھی جلد از جلد جنگ بند کرانا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں اور نیتن یاہو امریکی پشت پناہی سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

ٹرمپ کے بارے میں یہ ایک اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خلاف ہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ ہو رہی ہے اسے ختم کرانا ان کا مشن ہے مگر اسرائیل تو تقریباً پونے دو سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور روز ہی شہادتیں ہو رہی ہیں مگر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ایک عرصے سے جنگ بندی کرانے اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عرب ممالک اور امریکی نمایندوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے مگر یہ کب عملی شکل اختیار کرے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے وہ نہ تو جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تو وہ بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ وہ فلسطینی ریاست کو کیا تسلیم کرے گا کیونکہ وہ تو گریٹر اسرائیل کا پرچار کرتا نظر آ رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں پر اقوام متحدہ اسرائیل کے اسرائیل پر وہ فلسطینی عرب ممالک کر رہا ہے کیا تھا رہے ہیں کے خلاف نہیں کر ہیں مگر ہیں کہ ہے اور کے لیے ہے مگر

پڑھیں:

ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-5

 

عارف بہار

علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔

دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟

اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔

عارف بہار

متعلقہ مضامین

  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ