7 اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل پر میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے کیے جن سے اسرائیل کے بارہ افراد ہلاک ہوئے مگر جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر میزائل حملے شروع کیے، اس سے درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک پچاس ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔
گو کہ تمام مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا، وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں بدستور مصروف ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا حکم دنیا کے ہر ملک کو ماننا لازمی ہے۔ اسرائیل ان کی کیا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے حلیف ممالک کی بھی نہیں سن رہا۔ عالمی عدالت انصاف بھی نیتن یاہو کو انسانیت کا قاتل قرار دے کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے مگر نیتن یاہو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کر رہا۔ وہ اسرائیل سے باہر ملکوں کا دورہ کر رہا ہے مگر اسے عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود کوئی ملک گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت حماس کے اسرائیل پر بغیر سوچے سمجھے میزائل حملے کا نتیجہ ہے۔ جب حماس نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا اس وقت بھی راقم الحروف نے حماس کے اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنے کالم میں اس کے بھیانک مضمرات کا ذکر کیا تھا کہ حماس کی اس غلطی سے فلسطینیوں پر کتنا بڑا عذاب آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ اسرائیلی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسرائیلی قیادت تو حماس کے حملے کا جیسے کہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسے موقع ملے تو وہ فلسطینیوں پر اپنا قہر ڈھائے اور غزہ کو تباہ کر کے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرے اور غزہ پر قبضہ جما سکے، اب اسرائیل بالکل وہی کر رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے کیوں کہ اسے اپنے آقا یعنی امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی اس کا دم بھر رہے ہیں۔
صرف مغربی ممالک ہی نہیں دیگر ممالک بھی اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو اس کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے اسی وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ حماس نے حملے میں پہل کی تھی حالاں کہ اس غلطی کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اب بھارت نے پاکستان پر حملے میں پہل کی ہے وہ عالمی قوانین کے مطابق جارحیت کا مرتکب ہوا ہے مگر کوئی بھی ملک اسے جارح قرار دے کر اس کی مذمت نہیں کر رہا البتہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کرنے کو ایک نامناسب اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل دنیا میں دہرا معیار چل رہا ہے سب ہی طاقتور کے ساتھ ہیں پھر یہاں بھارت کو یہ فائدہ پہنچ رہاہے کہ اس نے سرائیل کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے،دونوں ہی غاصب ملک ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپی ممالک اگر بھارت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کشمیر خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صحیح اقدام ہوگا تو ادھر اسرائیل کو فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا ہوگا جوکہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ہوگا، بس عالمی طاقتوں کی انھی مصلحتوں کی وجہ سے اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ہے اور نہ مسئلہ فلسطین پر کوئی پیش رفت ہو سکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے محکوم قوموں کو غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کا اختیار دیا ہے اور حماس نے اسی نظریے کے تحت اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں مگر اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا اسی طرح کشمیر میں جو مجاہدین بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انھیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے جب کہ ایسا کہنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس کا اسرائیل کے خلاف میزائلوں سے حملہ بھی ان کی اپنی جدوجہد آزادی کا حصہ تھا جسے کسی طرح بھی دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے مگر افسوس کہ حماس کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑ گیا اور ان کی قوم کے لیے ایک وبال بن گیا جس کا قہر وہ پونے دو سالوں سے مسلسل جھیل رہے ہیں۔
عرب ممالک اس جنگ کو بند کرانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں وہ اسرائیل پر دباؤ تک نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے جس سے آنکھیں ملانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی عرب ممالک امریکا سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو ٹرمپ سے شٹ اپ کال دلوا سکیں گے مگر وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب ممالک بھی جلد از جلد جنگ بند کرانا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں اور نیتن یاہو امریکی پشت پناہی سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں یہ ایک اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خلاف ہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ ہو رہی ہے اسے ختم کرانا ان کا مشن ہے مگر اسرائیل تو تقریباً پونے دو سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور روز ہی شہادتیں ہو رہی ہیں مگر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک عرصے سے جنگ بندی کرانے اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عرب ممالک اور امریکی نمایندوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے مگر یہ کب عملی شکل اختیار کرے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے وہ نہ تو جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تو وہ بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ وہ فلسطینی ریاست کو کیا تسلیم کرے گا کیونکہ وہ تو گریٹر اسرائیل کا پرچار کرتا نظر آ رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں پر اقوام متحدہ اسرائیل کے اسرائیل پر وہ فلسطینی عرب ممالک کر رہا ہے کیا تھا رہے ہیں کے خلاف نہیں کر ہیں مگر ہیں کہ ہے اور کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جون ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سفری پابندیوں کے ایک نئے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کا اطلاق ایران، افغانستان اور یمن سمیت12 ممالک پر ہوگا، یہ اقدام ان متنازع پالیسیوں میں سے ایک کی واپسی ہے جو ان کے پہلے دورصدارت میں بھی متعارف کی گئی تھیں.(جاری ہے)
ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے عارضی فلیم تھروور حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس کا الزام امریکی حکام نے ایک مصری شہری پر عائد کیا ہے جو ان کے مطابق ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھاتاہم سفری پابندیوں کی فہرست میں مصرشامل نہیں ہے نئی پابندی کے تحت افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر امریکا آنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اس کے علاوہ سات ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندی بھی عائد کی گئی ہے جن میں برونڈی، کیوبا، لاﺅس، سیرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں تاہم ان ممالک کے بعض شہریوں کو عارضی ورک ویزوں کی اجازت دی جائے گی. وائٹ ہاﺅس کے مطابق یہ پابندیاں پیر سے نافذ العمل ہوں گی صدر ٹرمپ نے ” ایکس“ پر جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ کولوراڈو میں حالیہ دہشت گرد حملے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ غیر ملکی شہری جن کی درست طریقے سے جانچ نہ کی جائے امریکا کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم انہیں یہاں نہیں چاہتے. ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے مطابق یہ پابندی 2026 کے فیفا ورلڈ کپ (جسے امریکا، کینیڈا اور میکسیکو مشترکہ طور پر منعقد کر رہے ہیں) یا 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں شرکت کرنے والے ایتھلیٹس پر لاگو نہیں ہوگی صدر ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کو ویزے دینے پر بھی پابندی عائد کر دی یہ اقدام ان کی اس مہم کا حصہ ہے جس میں وہ امریکا کی لبرل تعلیمی اداروں پر تنقید کرتے آئے ہیں. صدر ٹرمپ نے نئے اقدامات کا موازنہ اپنے پہلے دورحکومت میں لگائی گئی متنازع مسلم ممالک کی سفری پابندی سے کیا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سفر میں رکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں ٹرمپ نے کہا کہ 2017 میں عائد کردہ پابندی نے امریکا کو ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھا جو یورپ میں پیش آئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کا یورپ جیسا حال نہیں ہونے دیں گے ہم کسی ایسے ملک سے کھلی ہجرت کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں سے آنے والے افراد کی محفوظ اور قابل بھروسا جانچ ممکن نہ ہو ادھر وینزویلا نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خود امریکا ایک خطرناک جگہ بن چکا ہے وینزویلا کے وزیر داخلہ دیوسدادو کابیو نے اعلان کے بعد کہا کہ امریکا میں ہونا اب ہر کسی کے لیے خطرہ ہے صرف وینزویلا کے شہریوں کے لیے نہیں. وائٹ ہاﺅس نے نئی سفری پابندی کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک نافذ کر دیں یہ اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنی رہائش گاہ کی بالکونی سے تقریباً 3 ہزار کارکنوں سے خطاب کے چند منٹ بعد کیا گیا اس بار کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا جسے ایک غیر معمولی اقدام قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے قبل ٹرمپ اپنے بڑے اور متنازع فیصلے اکثر اوول آفس میں دستخط کی تقاریب میں میڈیا کے سامنے کیا کرتے تھے. وائٹ ہاﺅس کی نائب پریس سیکرٹری ابیگیل جیکسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم” ایکس“ پر کہا کہ صدر ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں کہ وہ امریکیوں کو ان خطرناک غیر ملکی عناصر سے بچائیں گے جو ہمارے ملک آ کر نقصان پہنچانا چاہتے ہیں صدر ٹرمپ کے جاری کردہ اعلامیے میں ہر ملک کے لیے سفری پابندیوں کی مخصوص وجوہات بیان کی گئی ہیں اس اعلامیے کا مقصد امریکا کو غیر ملکی دہشت گردوں اور دیگر قومی سلامتی کے خطرات سے محفوظ رکھنا بتایا گیا ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ کولوراڈو حملہ کے ملزم محمد صابری سلیمان کا ملک مصر ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن پر نئی سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان جنگ زدہ لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں موثر مرکزی حکومتیں یا پاسپورٹ اور شناختی نظام موجود نہیں اس لیے ان کے شہریوں کی ویزا اسکریننگ قابل اعتماد نہیں سمجھی جاتی ایران کو فہرست میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ وہ ریاستی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک ہے حالانکہ امریکا اس کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے. نیشنل ایرانی امریکن کونسل کے صدر جمال عبدی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس پابندی کے اثرات ایک بار پھر ان امریکیوں پر پڑیں گے جو اپنے پیاروں کو شادیوں، جنازوں یا بچوں کی پیدائش جیسے لمحات میں دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے باقی کئی ممالک کے بارے میں حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے شہریوں کے ویزا ختم ہونے کے بعد امریکا میں رک جانے کی شرح اوسط سے زیادہ ہے جو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جا رہا ہے.