یہی تو دکھ ہے ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کی قدر نہیں، جج سپریم کورٹ کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
سپریم کورٹ نے ریاضی ماہر اسسٹنٹ پروفیسر سے ریاضی مضمون واپس لے کر انجینئرنگ کے مضامین پڑھانے کا ٹاسک دینے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے عائد جرمانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ریاضی مضمون واپس لے کر انجینئرنگ کے مضامین پڑھانے کا ٹاسک دینے سے متعلق قائد اعظم یونیورسٹی نوابشاہ کے اسسٹنٹ پروفیسر اصغر علی کی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔
عدالت کا اسسٹنٹ پروفیسر سے مکالمہ میں کہا کہ استدعا سے تو لگتا ہے یونیورسٹی بند کرانا چاہتے ہیں، اگر یونیورسٹی بند ہوگئی تو آپ کہاں جائیں گے؟
اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ میں ریاضی پڑھانے کا ماہر استاد ہوں، انتظامیہ نے مرکزی مضمون واپس لے کر انجینئرنگ کے مضامین پڑھانے کا ٹاسک دیدیا۔ انتظامیہ کے فیصلے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو جرمانہ عائد کردیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جرمانہ کا فیصلہ ہم کالعدم قرار دے دیتے ہیں، مضمون تبدیل کرنے کا فیصلہ تو یونیورسٹی انتظامیہ نے واپس لے لیا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ سننے کا موقع دیں تو حقائق سے عدالت کو آگاہ کرسکتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کو ڈر ہے مستقبل میں پھر مضمون تبدیل کردیا جائے گا؟ اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ اور بھی مسائل ہیں۔
جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس طرح نہ کریں، مضمون فیصلہ واپس لے لیا گیا تو آپ بچوں کوپڑھانے پر توجہ دیں، اس طرح تو آپ کورٹ برڈ بن جائیں گے۔ آپ نے کتنا پڑھا ہوا ہے؟
اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ میں ایم ایس سی میتھ کیا اور پی ایچ ڈی فرانس سے کررکھی ہے۔
جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے کہ یہی تو دکھ ہے ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کی قدر نہیں ہے۔
عدالت نے اسسٹنٹ پروفیسر اصغر علی پر سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے عائد جرمانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے یونیورسٹی انتظامیہ کیخلاف اسسٹنٹ پروفیسر کی دوسری درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائیکورٹ پڑھانے کا کا فیصلہ واپس لے
پڑھیں:
سپریم کورٹ، قتل کے مجرم ناظم کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کے مجرم ناظم کی جانب سے عمر قید سزا کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ مجرم پر ڈوگروں کی زمین پر قبضے کا الزام بھی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا مجرم بھی ڈوگر ہے؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مجرم کا تعلق چدھڑ برادری سے ہے۔
یہ بھی پڑھیے سندھ ہائیکورٹ کے جج کے بیٹے کا قتل؛ سپریم کورٹ نے 2 مجرموں کو بری کردیا
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید سوال کیا کہ جب ڈوگر موجود ہوں تو وہاں کوئی کیسے قبضہ کرسکتا ہے؟
مجرم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل ناظم کو عدنان کے قتل میں غلط نامزد کیا گیا۔ ان کے مطابق فائرنگ دونوں فریقین کی طرف سے ہوئی، اور یہ ثابت نہیں ہوا کہ عدنان کو لگنے والی گولی ناظم نے چلائی تھی۔
وکیل نے مزید کہا کہ پوسٹ مارٹم بھی تاخیر سے کرایا گیا اور دراصل مدعی پارٹی کی اپنی فائرنگ سے عدنان جاں بحق ہوا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے تہرے قتل کے مجرم کی سزائے موت، عمر قید میں کیوں تبدیل کی؟
اس پر مدعی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مدعی اپنے 21 سالہ پوتے کا قتل کیسے کرسکتا ہے؟
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان