صدر ٹرمپ کی ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں بل پر دستخط کی ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہوں، میں کوئی بھی مسئلہ حل کر سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا، جسے انہوں نے محض فون کالز اور تجارتی دباؤ کے ذریعے روک دیا،میں نے دونوں رہنماؤں سے فون پر بات کی، انہیں خبردار کیا کہ اگر جنگ کرو گے تو امریکا سے تجارت نہیں کر سکو گے، دونوں نے میری بات سمجھی اور فوری طور پر جنگ ختم کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ایک دیرینہ تنازع ہے، جس کے حل کے لیے وہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کو تیار ہیں، میں دونوں رہنماؤں کو ساتھ بٹھاؤں گا اور اس مسئلے کو حل کرواؤں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ثالثی میں نہ صرف امن قائم ہوا بلکہ کئی بڑے تنازعات کو بھی سلجھایا گیا،بھارت اس وقت امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر بات چیت کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ بھی اگلے ہفتے تجارتی امور پر مذاکرات ہوں گے۔
خیال رہےکہ ایک روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے بھی کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ماضی میں کئی ایسی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہے جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کہا کہ
پڑھیں:
بھارت کے پاس کشمیر کے مستقبل کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں، نذیر گیلانی
ذرائع کے مطابق لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے۔ اسلام ٹائمز۔ معروف کشمیری ماہر قانون اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی یکطرفہ منسوخی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ذرائع کے مطابق لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی نوعیت صرف 81 دن بعد بدل گئی جب بھارت یہ معاملہ 15 جنوری 1947ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر گیا اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری پر اتفاق کرلیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس متنازعہ علاقے کے مستقبل کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے 1951ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد 91 کا حوالہ دیا جس میں نہ صرف جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی توثیق کی گئی بلکہ مقبوضہ علاقے کی حکومت کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت اور پاکستان (UNCIP) کے وضع کردہ فریم ورک کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک دیا گیا۔ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کے ایک اہم فریق کے طور پر پاکستان کی اسے بھی بڑی ذمہ داری کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حفاظت کرنا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سفارتی کوششوں میں نئے چہروں کو متعارف کرائے اور اس مسئلے کو عالمی فورمز بالخصوص جنیوا اور واشنگٹن میں زیادہ بھرپور انداز سے اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جغرافیائی سیاسی منظرنامہ اور بین الاقوامی رائے عامہ پاکستان کے حق میں ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے مظالم سے پاکستان کے لیے موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ کشمیریوں کو درپیش مشکلات کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے حمایت حاصل کرے۔ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ اپریل 1959ء تک بھارتی شہریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخلے کے لیے اجازت نامہ درکار ہوتا تھا جو اس کی الگ آئینی اور سیاسی حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے عدالتی جوڑتوڑ اور فوجی جارحیت کے ذریعے اس حیثیت کو منظم طریقے سے ختم کیا۔ انہوں نے علاقے میں فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے مفاہمت کی خلاف ورزی کرنے پر بھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، ظفر اکبر بٹ، نعیم خان، آسیہ اندرابی اور دیگر خواتین سمیت ہزاروں سیاسی قیدی جیلوں میں نظربند ہیں جن میں سے بیشتر کو بھارتی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک انسانی بحران ہے اور اسے اسی طرح نمٹنا چاہیے۔