Jasarat News:
2025-09-18@23:27:00 GMT

ایران پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کے ساتھ امریکا بھی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اب بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل اکیلا ایران پر حملہ کیسے کر سکتا ہے ۔ایران نے آئی اے ای اے کی قرارداد کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے ایک نیا مرکز کھولے گا۔یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں میں قرار داد پیش کر نے واکے ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے ایران حملہ کر نے کے اعلان کے باوجود اسرائیل سے ایران پر حملہ کرانے ضرورت کیوں پیش آئی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں کسی بھی قرارداد پر حملہ کرنے سے قبل اس قرارداد کی منظوری سلامتی کونسل سے ضروری ہے ۔ اے ای اے کی قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اس سلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ یورینیم جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔جوہری توانائی اور یورینیم افزودگی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے۔

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے منظور کیا، جن میں 19 ارکان نے اس کی حمایت میں، تین نے مخالفت جس میں روس شامل ہیں اور چین جبکہ 11 ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی جبکہ دو ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ایران کے خلاف جمعرات 12جون کو منظور کی جانے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایران حالیہ برسوں میں اپنے جوہری پروگرام میں نمایاں تیزی لایا ہے، خاص طور پر اس تاریخی معاہدے کے بعد جس کے تحت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پایا تھا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے گا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔لیکن 2018 میں ٹرمپ کی سابق حکومت نے اس سے یکطرفہ طور پر اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’بورڈ آف گورنرز اعلان کرتا ہے کہ سنہ 2019 سے ایران میں متعدد خفیہ مقامات پر غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ایجنسی کے ساتھ مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ایران کی متعدد ناکامیاں، بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ حفاظتی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کی عدم تعمیل ہے۔‘

مئی کے وسط تک ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایران کے افزودہ یورینیم کا مجموعی ذخیرہ 9,247.

6 کلوگرام تھا، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے 45 گنا زیادہ ہے۔ان ذخائر میں سے تقریباً 408.6 کلوگرام یورینیم 60 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے، جو 90 فیصد کی اس سطح کے بالکل قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تعریف کے مطابق، ایران کے پاس اب تقریباً اتنا افزودہ مواد موجود ہے کہ اگر اسے مزید خالص کیا جائے تو تقریباً 10 جوہری بم تیار کیے جا سکتے ہیں۔قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ ہفتے آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ ہے، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کی جانب سے یورپی ممالک کے بیانات کو مسترد کیا گیا تھا۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی نے اپنے ردعمل میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی ایران کے خلاف قرارداد کی ’مذمت‘ کی ہے۔اسماعیل باغی نے اس قرارداد کو ’ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کو استعمال کرنے کا ایک ذریعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد ’ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر شکوک شبہات پیدا کرنا ہے۔‘

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایران کے خلاف قرارداد کے بعد ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلمی نے کہا کہ یہ قرارداد تہران پر ’دباؤ ڈالنے‘ کے لیے منظور کی گئی ہے تاکہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی جا سکے۔اْن کا کہنا تھا کہ ’ہم جو مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تین یورپی ممالک کی سیاسی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہیں، اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بااثر صیہونی حکومت کی خدمت کر رہے ہیں تاکہ ہم پر پابندیوں کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

یاد رہے کہ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے تحت، ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی طرف سے مسلسل اور مضبوط نگرانی کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔
ایران کا کہنا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’این پی ٹی‘ کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ دیگر حل طلب معاملات پر بھی مدد دینے کو تیار ہے۔تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں اپنی پہلی مدت کے دوران اس جوہری معاہدے کو ترک کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس معاہدے نے ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے بہت کم کام کیا اور اس کے بعد امریکانے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا تھا۔

ایرانی مسلح افواج کے سربراہ محمد باقری شہید
پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ شہید

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جوہری ہتھیار بنانے بورڈ ا ف گورنرز توانائی ایجنسی ایران کے خلاف بین الاقوامی بنانے کے لیے ا ئی اے ای اے کی جانب سے میں ایران ایجنسی کے ایران پر کہ ایران سے ایران ہے کہ اس کے ساتھ ہے کہ ا تھا کہ کیا جا کے تحت

پڑھیں:

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تأثر سامنے آ رہا ہے کہ کچھ لوگ نادانستہ اور کچھ لوگ شعوری طور پر مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غزہ کے معاملے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اُس میں کہا گیا کہ غزہ کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اگر فلسطین کے ملٹری ونگ حماس کو آپ ختم کر دیں گے تو فلسطین کی کوئی دفاعی قوّت نہیں رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر

انہوں نے کہاکہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان یہودی بستیاں آباد ہیں۔ اب نیا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ اگر آپ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو دفن کیا جا رہا ہے۔

’مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کردار قابلِ ستائش ہے‘

سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ ستائش رہا ہے اور ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ پاکستان نے سفارتکاری سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرکے ہوش مندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔

قطر پر حملے سے امریکا کیسے لاعلم تھا؟

قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اِس حملے سے کیسے لاعلم تھا جبکہ امریکا اور اسرائیل دونوں اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں، یعنی موساد اور سی آئی اے ایک دوسرے پر نظر رکھتی ہیں۔

’وہ خطے کے باقی ممالک پر نظر تو رکھتے ہی ہیں لیکن ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کا امریکا کو چند منٹ پہلے پتا چلا۔‘

انہوں نے کہاکہ یہ حملہ عالم اِسلام کے لیے بالعموم اور عالمِ عرب کے لئے بالخصوص خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ عرب ممالک غزہ اور فلسطین کے معاملے پر بہت محتاط تھے کہ ایک خاص حد سے آگے نہ جائیں کیوں کہ امریکا اُن کی سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ لیکن اِس حملے سے جو صورتحال میں بدلاؤ آیا ہے اُس سے لگتا ہے کہ اب اِس خطے میں کوئی قانون نہیں ہوگا۔

کیا عرب ممالک مزاحمت کر سکتے ہیں؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80 کی دہائی میں کوشش کی تھی کہ ہمارے پاس کوئی دفاعی قوّت ہونی چاہیے اور اِس مرتبہ پھر اُنہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا کوئی مشترکہ دفاعی نظام ہونا چاہیے لیکن یہ امریکا کے اِس قدر تابع ہیں کہ یہ ایسا کر نہیں پائیں گے، یہ فیصلہ کرنا اُن کے لئے مُشکل ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ اِس پر یہ روس اور چین کی طرف دیکھیں گے۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے معاشی تعلقات تو ہیں لیکن دفاعی تعلقات نہیں۔ اب وہ دیکھیں گے کہ امریکا اگر اُن کو سیکیورٹی مہیّا نہیں کرتا تو اُن کے پاس کیا آپشن ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ یہ خلیجی ممالک کوئی عام ریاستیں نہیں، یہ ہزاروں ارب ڈالر کی دولت رکھنے والے ممالک ہیں۔ انہوں نے تین ٹریلین ڈالر کے ساورن ویلتھ فنڈ کے ذریعے امریکا میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکا ہر سال اِن مُلکوں کو سینکڑوں ارب ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے لیکن اُسے جان بوجھ کر اسرائیل کی استعداد سے کم رکھا جاتا ہے۔

’اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا گریٹر اسرائیل کے لیے آیا خلیجی ممالک کو مکمل تباہ کیا جائے گا یا پھر اِن کی سیکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام کیا جائے گا۔‘

’شہباز ٹرمپ ممکنہ ملاقات کا ایجنڈا ٹرمپ جنرل عاصم ملاقات سے اوپر نہیں جا سکتا‘

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ اِس ملاقات کا ایجنڈا 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات کے ایجنڈے سے اوپر نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہاکہ وہ بڑا جامع ایجنڈا تھا اور اُس کو حتمی شکل اسحاق ڈار اور امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں دے دی گئی تھی اور اُس کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کے لیے امریکا کے اُسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان میں آپریشن کو جواز بنانا سراسر غلط تھا۔ اُسامہ بن لادن کوئی امریکا کے کہنے پر مذاکرات تو نہیں کر رہا تھا۔

’حماس رہنما خلیل الحیہ قطر میں امریکا کی منشا سے مذاکرات کے لئے آیا تھا، قطر نے بُلایا تھا اور اُس کے ہاتھ میں وہ پرچہ دیا تھا جو امریکا نے دیا تھا کہ یہ شرائط امریکا و اسرائیل دونوں کی طرف سے ہیں۔‘

قطر پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے فوراً دورے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود خان نے کہاکہ قطر کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں وہاں ہمارے بہت سارے پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ عہدوں پر بھی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اِس کے علاوہ قطر خطے کا مرکز ہے۔ وہ مشرق مغرب کے درمیان، شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا حملے کے فوراً بعد وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایک اہم فیصلہ تھا۔ وہ گئے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ وہ اِسلامی ملک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی اجلاس: مسلم ممالک نے قطر کو اسرائیل کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرادی

’پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے۔ گزشتہ برس دہشتگردی میں 4 ہزار لوگ مارے گئے جو کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔

اُنہوں نے کہاکہ ملا ہیبت اللہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور ان دہشتگردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews سابق سفارتکار سابق صدر آزاد کشمیر قطر پر اسرائیلی حملہ گریٹر اسرائیل مسئلہ فلسطین مسعود خان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
  • امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
  • پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان کنٹری پروگرام فریم ورک پر دستخط
  • پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان معاہدہ طے
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، خواجہ محمد آصف
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو