Jasarat News:
2025-11-03@19:20:41 GMT

ایران پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کے ساتھ امریکا بھی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اب بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل اکیلا ایران پر حملہ کیسے کر سکتا ہے ۔ایران نے آئی اے ای اے کی قرارداد کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے ایک نیا مرکز کھولے گا۔یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں میں قرار داد پیش کر نے واکے ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے ایران حملہ کر نے کے اعلان کے باوجود اسرائیل سے ایران پر حملہ کرانے ضرورت کیوں پیش آئی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں کسی بھی قرارداد پر حملہ کرنے سے قبل اس قرارداد کی منظوری سلامتی کونسل سے ضروری ہے ۔ اے ای اے کی قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اس سلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ یورینیم جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔جوہری توانائی اور یورینیم افزودگی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے۔

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے منظور کیا، جن میں 19 ارکان نے اس کی حمایت میں، تین نے مخالفت جس میں روس شامل ہیں اور چین جبکہ 11 ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی جبکہ دو ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ایران کے خلاف جمعرات 12جون کو منظور کی جانے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایران حالیہ برسوں میں اپنے جوہری پروگرام میں نمایاں تیزی لایا ہے، خاص طور پر اس تاریخی معاہدے کے بعد جس کے تحت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پایا تھا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے گا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔لیکن 2018 میں ٹرمپ کی سابق حکومت نے اس سے یکطرفہ طور پر اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’بورڈ آف گورنرز اعلان کرتا ہے کہ سنہ 2019 سے ایران میں متعدد خفیہ مقامات پر غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ایجنسی کے ساتھ مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ایران کی متعدد ناکامیاں، بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ حفاظتی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کی عدم تعمیل ہے۔‘

مئی کے وسط تک ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایران کے افزودہ یورینیم کا مجموعی ذخیرہ 9,247.

6 کلوگرام تھا، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے 45 گنا زیادہ ہے۔ان ذخائر میں سے تقریباً 408.6 کلوگرام یورینیم 60 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے، جو 90 فیصد کی اس سطح کے بالکل قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تعریف کے مطابق، ایران کے پاس اب تقریباً اتنا افزودہ مواد موجود ہے کہ اگر اسے مزید خالص کیا جائے تو تقریباً 10 جوہری بم تیار کیے جا سکتے ہیں۔قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ ہفتے آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ ہے، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کی جانب سے یورپی ممالک کے بیانات کو مسترد کیا گیا تھا۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی نے اپنے ردعمل میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی ایران کے خلاف قرارداد کی ’مذمت‘ کی ہے۔اسماعیل باغی نے اس قرارداد کو ’ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کو استعمال کرنے کا ایک ذریعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد ’ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر شکوک شبہات پیدا کرنا ہے۔‘

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایران کے خلاف قرارداد کے بعد ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلمی نے کہا کہ یہ قرارداد تہران پر ’دباؤ ڈالنے‘ کے لیے منظور کی گئی ہے تاکہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی جا سکے۔اْن کا کہنا تھا کہ ’ہم جو مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تین یورپی ممالک کی سیاسی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہیں، اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بااثر صیہونی حکومت کی خدمت کر رہے ہیں تاکہ ہم پر پابندیوں کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

یاد رہے کہ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے تحت، ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی طرف سے مسلسل اور مضبوط نگرانی کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔
ایران کا کہنا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’این پی ٹی‘ کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ دیگر حل طلب معاملات پر بھی مدد دینے کو تیار ہے۔تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں اپنی پہلی مدت کے دوران اس جوہری معاہدے کو ترک کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس معاہدے نے ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے بہت کم کام کیا اور اس کے بعد امریکانے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا تھا۔

ایرانی مسلح افواج کے سربراہ محمد باقری شہید
پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ شہید

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جوہری ہتھیار بنانے بورڈ ا ف گورنرز توانائی ایجنسی ایران کے خلاف بین الاقوامی بنانے کے لیے ا ئی اے ای اے کی جانب سے میں ایران ایجنسی کے ایران پر کہ ایران سے ایران ہے کہ اس کے ساتھ ہے کہ ا تھا کہ کیا جا کے تحت

پڑھیں:

امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے