سشانت سنگھ راجپوت کی پانچویں برسی پر بہن کا جذباتی پیغام
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
بھارتی فلم انڈسٹری کے مقبول اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی پانچویں برسی پر ان کی بہن شویتا سنگھ کیرتی نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پیغام شیئر کیا ہے، جو مداحوں کے دلوں کو چھو گیا۔
شویتا نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج بھائی کی پانچویں برسی ہے، 14 جون 2020 کو ان کی موت کے بعد سے بہت کچھ بدل چکا ہے، اب سی بی آئی نے رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے اور ہم اسے حاصل کرنے کے مرحلے میں ہیں، لیکن آج میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، دل ہارنا نہیں ہے، اور نہ ہی خدا یا اچھائی پر سے ایمان کھونا ہے’۔
A post shared by Shweta Singh Kirti (@shwetasinghkirti)
انہوں نے سشانت کی شخصیت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیشہ یاد رکھنا کہ ہمارا سشانت کس چیز کے لیے کھڑا تھا، خلوص، زندگی اور علم کے لیے نہ ختم ہونے والا شوق، محبت سے بھرپور دل، جو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا تھا اور خیرات میں یقین رکھتا تھا’۔
شویتا نے زور دیا کہ سشانت کی میراث کو منفی جذبات سے آلودہ نہ کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ‘بھائی کہیں گیا نہیں ہے، یقین کریں، وہ آپ میں ہے، مجھ میں ہے، ہم سب میں ہے، جب بھی ہم دل سے محبت کرتے ہیں، جب بھی ہم زندگی کے لیے بچوں جیسی معصومیت رکھتے ہیں، جب بھی ہم کچھ نیا سیکھنے کی جستجو رکھتے ہیں، ہم سشانت کو زندہ رکھتے ہیں’۔
انہوں نے اپیل کی کہ ‘کبھی بھی بھائی کے نام کو منفی پیغامات کے لیے استعمال نہ کریں، وہ ایسا نہیں چاہتا تھا، دیکھیں اس نے کتنے لوگوں کے دل و دماغ کو چھوا، اس کی میراث کو زندہ رکھیں، آپ وہ جلتی ہوئی شمع بنیں جو دوسری شمعیں روشن کرے تاکہ اس کی روشنی پھیلتی رہے’۔
اس ویڈیو کے ساتھ شویتا نے کچھ یادگار تصاویر بھی شیئر کیں، جن میں سشانت کے ساتھ سیلفی اور ان کے والد کے ساتھ بھی ایک تصویر شامل تھی۔
کیپشن میں انہوں نے لکھا کہ ‘اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں بچپن جیسی معصومیت تھی جو کسی کے بھی دل کو محبت سے بھر دیتی تھی، یہی تھا ہمارا سشانت، اور یہی ہمیں بننا ہے’۔
سشانت سنگھ کی موت
سشانت سنگھ راجپوت کی لاش 14 جون 2020 کو ممبئی کے علاقے باندرہ میں ان کے فلیٹ سے ملی تھی۔
ابتدائی طور پر اسے خودکشی قرار دیا گیا، تاہم جلد ہی یہ کیس ملک بھر میں بحث کا مرکز بن گیا، لاکھوں مداحوں اور اہلِ خانہ نے اداکار کی موت پر سوالات اٹھائے اور سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد انکی سابقہ گرل فرینڈ ریا چکرورتی پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں خودکشی کے لیے اکسانا، ذہنی اذیت پہنچانا،اور سشانت کے پیسوں کی چوری بھی شامل تھی، تاہم حال ہی میں سی بی آئی نے ریا کو کلین چٹ دیتے ہوئے ایک کلوزر رپورٹ درج کرادی ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سشانت سنگھ راجپوت کی کے ساتھ کی موت کے لیے
پڑھیں:
افغان امیرالمومنین ملا ہیبت اللہ کا عید کا پیغام
’’ہم یہ دن ایسے وقت میں منا رہے ہیں جب اللہ تعالیٰ کے فضل، امارت اسلامیہ کی کوششوں، شہدا ء و معذورین کی قربانیوں اور امت مسلمہ کی دعائوں کے نتیجے میں ہمیں شرعی نظام اور مکمل امن حاصل ہے، اس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں۔محترم بھائیو!یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، شرعی نظام کی ترقی اور کامیابی کے لیے مزید کوشش کریں، اپنے اتحاد و اتفاق کو مزید مضبوط بنائیں، ہر ذمہ دار شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے، غفلت نہ کرے، اپنا کام بروقت انجام دے، ایک دوسرے سے تعاون کرے، بلاوجہ مداخلت نہ کرے، اور پہلے اپنے اوپر پھر دوسروں پر شریعت کو نافذ کرے۔ علما ء ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:ترجمہ:جب اللہ نے ان سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں، لیکن انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے معمولی قیمت لی، تو بہت ہی برا ہے جو وہ خریدتے ہیں۔(سورۃ ال عمران)تفسیر:اہل کتاب کے علما سے اللہ نے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ میں موجود احکام و بشارتوں کو لوگوں کو واضح کریں گے، نہ چھپائیں گے، نہ معنی بدلیں گے، مگر انہوں نے چند دنیوی مفادات کے عوض وہ تمام احکام چھپا دیے، الفاظ و معانی میں تحریف کی۔یہ آیت اسلام کے علما ء کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کی محبت میں نہ پڑیں، ہر وقت اور ہر حال میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں، اور کبھی بھی اللہ کے احکام لوگوں سے نہ چھپائیں۔ جیسے علما ء ذمہ دار ہیں ویسے ہی عوامی مشران اور بااثر شخصیات پر فرض ہے کہ اللہ کے احکام قائم کریں، حقوق ان کے حقداروں کو ادا کریں، ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھیں۔ اگر وہ دین سے منحرف ہو جائیں تو پورا شرعی نظام اور امن تباہ ہو جائے گا۔قبیلہ احمس کی ایک خاتون زینب نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: خاتون نے کہا: ’’ہم کب تک اس نیک دین پر قائم رہیں گے جو اللہ نے ہمیں جاہلیت کے بعد عطا فرمایا؟‘‘ انہوں نے فرمایا:’’اس پر تمہارا قائم رہنا اس وقت تک ہوگا جب تک تمہارے حکمران اس دین پرقائم رہیں۔‘‘خاتون نے پوچھا: ’’حکمران کون ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’کیا تمہارے قبیلے کے سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جن کا حکم لوگ مانتے ہیں؟‘‘ خاتون نے کہا: ‘‘جی ہاں ہیں۔‘‘ فرمایا:’’بس وہی لوگوں کے امام اور حکمران ہیں۔ اگر وہ دین پر ہوں گے تو لوگ بھی ہوں گے، اور اگر وہ دین چھوڑ دیں گے تو لوگ بھی چھوڑ دیں گے، اور ساری خرابی کا ذمہ ان پر ہوگا۔‘‘لہٰذا ہمارے علما ء اور معززین کو چاہیے کہ وہ اپنے شرعی نظام، عوام اور وطن کے مفاد میں مضبوط موقف اختیار کریں۔ اپنے تجزیوں، تحقیقات، خطابات، تحریروں اور سفارشات کے ذریعے عوام کی اچھی ذہن سازی کریں، معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے قیام اور فتنوں و فساد کے روک تھام کے لیے سنجیدہ جدوجہد کریں، کیونکہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان کے نظریات معاشرے کو متاثر کرتے ہیں، اور یہ دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔اسلامی امارت کی عدالتوں کے تمام قاضیوں اور ذمہ داروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بھاری ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو ان کے شرعی حقوق دلوانے اور تنازعات کے حل میں پہلے سے زیادہ سنجیدہ رہیں۔ فیصلے میں طاقتور اور کمزور کے درمیان کوئی فرق نہ کریں، ہر ایک کے ساتھ عدل اور مساوی سلوک کریں، مجرم کی شخصیت کو نہیں بلکہ جرم کو دیکھیں، مظلوم کی حمایت کریں، ظالم کو روکیں اور لوگوں کے مقدمات کو بغیر کسی تاخیر کے حل کریں۔ہمارے مجاہدین کی قربانیوں اور جہاد کا سب سے بڑا مقصد شرعی نظام کا نفاذ اور معاشرے میں اسلامی احکام کا اجرا تھا، یہ عظیم مقصد عدالتوں کی کارکردگی اور بہتر خدمت سے وابستہ ہے۔ہمارے تاجر اور صنعتکار بھائیوں کو چاہیے کہ وہ وطن کی خوشحالی کے لیے مزید کوشش کریں تاکہ ہمارا ملک خودکفیل بنے اور دوسروں کا محتاج نہ رہے۔ اگر ہم آزادی اور خودمختاری کی حفاظت اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ چاہتے ہیں تو آج کے دور میں یہ سب وسائل اور معیشت سے وابستہ ہے، اور معیشت کی مضبوطی تجارت اور صنعت کے فروغ پر منحصر ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر اپنے گھر(وطن) کو تعمیر کرنے اور اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کریں۔
اسلامی امارت سے وابستہ اقتصادی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاجروں اور صنعتکاروں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کریں، ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کریں اور ان کے ترقی میں مدد کریں۔مہاجرین کے متعلق وزارت اور دیگر متعلقہ ادارے نیز تمام صوبائی گورنر حضرات کو چاہیے کہ وہ واپس آنے والے اپنے ہم وطن بھائیوں کی خدمت کریں، انہیں آباد کریں اور نقل و حمل میں حتی الوسع ان سے تعاون کریں۔
اسلامی امارت کے تمام سیکورٹی اور سول ملازمین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں پر پوری توجہ دیں، دوسروں کے کاموں میں مداخلت نہ کریں کیونکہ یہ بے ترتیبی، بے اعتمادی اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ عوام کی خدمت عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی ہے، یہ ایک الٰہی امتحان ہے۔ اس میں کسی قسم کی غفلت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ غفلت کوئی عذر نہیں۔ چاق و چوبند رہیں، عوام کے کاموں کو آسان بنائیں، مشکلات پیدا نہ کریں، آسانیاں پیدا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی آسانی فرمائے۔ عوام کا وقت ضائع نہ کریں، ان کے لیے دروازے بند نہ کریں، وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کریں، ان کی شکایات سنیں تاکہ نہ کوئی کسی کا حق کھائے، نہ کسی کو نقصان پہنچے اور ہر ایک کو اس کا حق ملے۔نظام کو عوام کے سرپرست اور کفیل کی حیثیت حاصل ہے، اسے ایک باپ کی طرح عوام کی دیکھ بھال کرنی چاہیے، ان کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے اور امانتوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔روایت میں آتا ہے:ترجمہ: ابوشماخ الازدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے چچازاد بھائی سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں روایت کی ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ’’جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنے، پھر مسکین، مظلوم یا حاجت مند کے لیے اپنا دروازہ بند کرے، توا للہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت کے دروازے اس وقت بند کر دے گا جب اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔‘‘(خرجہ حمد)فلسطین کے غزہ اور دیگر علاقوں میں خواتین، بچوں اور مظلوم مسلمانوں پر صیہونی حملے اور مظالم جاری ہیں، یہ بہت بڑا انسانی المیہ اور ظلم ہے۔ اسلامی امارت ایک بار پھر فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کرتی ہے، ان پر ہونے والے تمام مظالم کی سخت مذمت کرتی ہے اور فوری روک تھام کا مطالبہ کرتی ہے۔