عید قرباں مسلمانوں کے لیے ایک بہت اہم فریضہ یعنی قربانی کو انجام دینے کا ہے تو وہیں مختلف کھانوں کی بہار پھیل جاتی ہے، لہٰذا یہ مہینہ ایک جانب سنت ابراہیمی پر عمل کرواتا ہے تو آج کے دور میں ہر وہ ڈش جو جیب کی تنگی اور مہنگے گوشت کے باعث درگزر کردی جاتی ہے، اب آزمانے کا موقعہ مل جاتا ہے لیکن پھر بہت سے وہ حضرات جو مختلف امراض کا شکار ہیں مجبوری کے باعث ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔
حج کی اہمیت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں پر سچ ہے کہ جس کا بلاوا آتا ہے وہی حاضری دیتا ہے۔ جیسے سوشل میڈیا پر محمد عامرکی وائرل ہوئی وڈیو خوب چلی، جہاز کے تین بار جانے اور آخر میں تھک ہار کر اپنے اس پیچیدگیوں میں الجھے مسافر کو لے کر جانے کے عمل نے اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ اس کے لیے دونوں آپشنز تیار تھے پر بندے کے دل کی حالت سے جو واقف تھا اس نے خوش نصیب آپشن پرکلک کر دیا اور حاضری ہوگئی۔
آج کل کے تیز رفتار دور میں ہم قدرت کے ان کرشموں کو سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم مادیت پرستی کے بخار میں الجھے اپنے جادوئی، طلسماتی آلہ جات میں گھرے ایک الگ دنیا کو ہی حقیقت جانتے ہیں لیکن اللہ کی رضا کے کلک کو اہمیت ہی نہیں دیتے جس میں ساری کاریگری، حکمت، سمجھداری اور ہمارے لیے بہترین آپشن چھپا ہوا ہے۔شہنشاہ بابر ایک عظیم حکمران جس کا نام تاریخ میں بہت گہرائی تک کندا ہے۔
اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ ’’ ابراہیم لودھی کی بدنصیب ماں نے جب یہ سنا کہ میں نے ہندوستانی کھانے پکانے کے لیے ابراہیم کے باورچیوں میں سے چارکو ملازم رکھ لیا ہے تو اس نے اٹاوہ سے احمد چاشنی گیر (سالن چکھنے والا) کو بلایا اور اسے تولہ بھر زہرکی پڑیا ماما کے ہاتھ بھیجی۔
احمد یہ پڑیا میرے باورچی خانے کے ایک ہندوستانی باورچی کے پاس لایا اور اس سے کہا کہ چار پر گنے جاگیر ملیں گے، اگر وہ کسی طرح یہ زہر میرے کھانے میں ملا دے۔ابراہیم لودھی کی ماں نے ایک اور ماما کو بھی بھیجا کہ دیکھ کر آئے کہ ماما نے زہر احمد کو دیا یا نہیں؟ حسن اتفاق سے باورچی نے زہر کو پتیلی میں نہیں ڈالا بلکہ رکابی پر چھڑکا، کیوں کہ میرا حکم تھا کہ چاشنی گیر سالن پتیلی سے نکال کر ہندوستانی باورچی کو چکھایا کریں، مگر نالائق چاشنی گیروں نے رکابی میں سالن نکالتے وقت نگرانی نہیں کی۔
چینی کی رکابی میں جو پھلکے لائے گئے، باورچی نے کچھ زہر ان پر چھڑک دیا اور اوپر گھی میں بگھاری ہوئی بوٹیاں رکھ دیں۔ اگر بوٹیوں پر بھی چھڑک دیتا تو بہت خرابی ہوتی، مگر وہ گھبرا گیا اور آدھا زہر خوف سے چولہے میں پھینک دیا۔ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر دسترخوان چنا گیا۔ میں نے خرگوش کے گوشت کی رکابی سے کچھ کھایا اور کچھ گاجریں لیں۔ پھر چند لقمے زہر والی رکابی سے لے کر کھائے۔
پہلے تو کوئی چیز بے مزہ محسوس نہیں ہوئی لیکن بوٹیاں کھائیں تو طبیعت بگڑ گئی، دو تین دفعہ ابکائی آئی خدشہ تھا کہ دسترخوان پر ہی قے ہو جائے، اسی لیے اٹھ کر غسل خانے گیا اور وہاں قے کی۔ کھانا کھا کر پہلے مجھے کبھی قے نہیں ہوئی تھی۔ لامحالہ شبہ پیدا ہوا اور حکم دیا کہ باورچیوں کو قید کر لیا جائے، قے کی ہوئی غذا کتے کو کھلائی گئی تو اس کا بھی پیٹ پھول گیا اور وہ ایسا ناتواں ہو گیا کہ پتھر مارے پر بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھتا تھا۔
میرے دو سپاہیوں نے بھی زہر والی رکابی سے کھایا تو وہ بھی قے کرتے رہے، ایک کی تو حالت بہت بگڑ گئی تھی، شکر ہے کہ ہم سب بچ گئے۔‘‘بعد کے حالات میں سب کی تفتیش کی گئی آخر پتا چل گیا اور اصل مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس زمانے اینٹی ڈاٹ وغیرہ تو ہوتے نہ تھے پر یونانی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی ایسی پہچان اور تراکیب تھیں کہ دنیا (اس وقت کی) اسی پر چلتی تھی، لکھتے ہیں:
’’حاذق طبیبوں کے مشورے سے پہلے ایک پیالہ گرم دودھ گل مختوم ملا کر ہم سب کو پلایا گیا۔ پھر تریاق فاروق دودھ کے ساتھ دیا گیا۔ دوسرے دن مسہل دی گئی تو اجابت کے ساتھ سیاہ رنگ کا مادہ خارج ہوا۔‘‘
آخر میں بابر نے ترکی زبان میں ایک شعر لکھا اور موت کے پروانے کو رب العزت کے متعین کردہ وقت تک دھکیلنے کے واقعے کو بیان کیا، اس کا اردو میں مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ:
’’چوٹ کھائی، بیمار ہوا، زندہ ہوں، موت کا مزہ چکھا تو زندگی کی قدر ہوئی۔‘‘
زندگی میں ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مقام پر چوٹ کھاتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں، موت کو انتہائی نزدیک سے دیکھتے ہیں، زندگی کی قدر بھی ہوتی ہے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر کے لوازمات بدل جاتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ جو زندگی ایک نئے سرے سے عطا کرنیوالا ہے وہ ہم کو جھنجھوڑ کر کیا بتانا، سمجھانا چاہتا ہے اور جو وہ سمجھانا چاہتا ہے وہ ہمارے لیے ہی بہترین ہے لیکن انسان زندگی کے نشے میں چور پھر سے مست ہاتھی کی طرح جھومنے لگتا ہے اور ہاتھی کو کیا خبر کہاں جانا ہے، جدھر سونڈ کی نکل گئے۔
حال ہی میں ایک امیر زادے صاحب کی برقیاتی آلات کے ذریعے تصویری خبر پہنچی کہ جنھوں نے ذرا سی لغزش پر ایک معصوم لڑکے کے ساتھ برا کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں اپنا ہی تماشا بنا لیا۔ طاقت کا نشہ کتنے وقت کے لیے سر چڑھ کر بولا، شاید پندرہ منٹ، آدھ گھنٹے یا ہو سکتا ہے بہت ہی کم۔ زعم، اکڑ، غرور اور نہ جانے کیسے کیسے جذبات جو ان صاحب نے ساری زندگی چکھے بھی ہوں گے یا نہیں، پر اس مختصر سے دورانیے میں ان کی قلعی ان کے اپنے گھر والوں، بچوں، دوستوں، محلے دار اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہوتی ان تک بھی پہنچ گئی جنھوں نے کبھی اس نام کے بندے کو دیکھا تک نہ تھا۔
پر دیکھ لیا اور دل سے بددعائیں منہ سے مغلظات کا وہ طوفان جسے تولا جائے تو وہ صاحب اس میں ڈوب ڈوب جائیں۔ پر نہیں وہ مختصر سا دورانیہ ان کی پچھلی گزاری گئی زندگی پر ایسا حاوی آیا کہ انھوں نے زہرکی پھنکی اپنے ہی منہ میں رکھ لی۔ جیل میں سلاخوں کے پیچھے ہنستی مسکراتی تصویر، تھانے میں وارد ہونا، سوشل میڈیا کے جال اور بہت کچھ۔ اب چاہے آپ نے منہ میں زہر رکھ لیا ہو یا کیچڑ میں اٹ گئے ہوں۔
سچے دل کی پکار بس وہی سن سکتا ہے کہ جس نے ایک ماں کی پکار پر پانی کا ایسا چشمہ جاری کر دیا جو آج کی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ جو سنت ابراہیمی کے واقعے کی یاد دلاتا ہے جب ایک باپ نے ایسے اعلیٰ حکام کی آواز پر (خواب) پر لبیک کہا اور اپنے دل کے ٹکڑے کو قربان گاہ تک پہنچایا اور چھری تیز کی پر ایسی سرعت ایسی زقند کہ دنیا آج تک مانتی ہے اور جانتی ہے کہ دل کے تار سچائی سے جھنجھناتے ہیں تو کیا کیا ہو سکتا ہے۔ دراصل ہم سب کچھ جانتے ہیں کہ بہت عقل مند ہیں پر مانتے نہیں کہ دنیا کے ٹھیکیدار خود کو سمجھتے ہیں بس غلطی سے بچیے، بہت تھوڑے سے وقت میں بہت سا خسارہ خریدنے سے گریز کریں اور سنت ابراہیمی پر غور و فکر کریں، رب العزت ہم سب کی قربانیاں قبول فرمائیں۔(آمین۔)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سنت ابراہیمی گیا اور کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔