Express News:
2025-11-03@18:10:54 GMT

سنت ابراہیمی

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

عید قرباں مسلمانوں کے لیے ایک بہت اہم فریضہ یعنی قربانی کو انجام دینے کا ہے تو وہیں مختلف کھانوں کی بہار پھیل جاتی ہے، لہٰذا یہ مہینہ ایک جانب سنت ابراہیمی پر عمل کرواتا ہے تو آج کے دور میں ہر وہ ڈش جو جیب کی تنگی اور مہنگے گوشت کے باعث درگزر کردی جاتی ہے، اب آزمانے کا موقعہ مل جاتا ہے لیکن پھر بہت سے وہ حضرات جو مختلف امراض کا شکار ہیں مجبوری کے باعث ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔

حج کی اہمیت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں پر سچ ہے کہ جس کا بلاوا آتا ہے وہی حاضری دیتا ہے۔ جیسے سوشل میڈیا پر محمد عامرکی وائرل ہوئی وڈیو خوب چلی، جہاز کے تین بار جانے اور آخر میں تھک ہار کر اپنے اس پیچیدگیوں میں الجھے مسافر کو لے کر جانے کے عمل نے اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ اس کے لیے دونوں آپشنز تیار تھے پر بندے کے دل کی حالت سے جو واقف تھا اس نے خوش نصیب آپشن پرکلک کر دیا اور حاضری ہوگئی۔

آج کل کے تیز رفتار دور میں ہم قدرت کے ان کرشموں کو سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم مادیت پرستی کے بخار میں الجھے اپنے جادوئی، طلسماتی آلہ جات میں گھرے ایک الگ دنیا کو ہی حقیقت جانتے ہیں لیکن اللہ کی رضا کے کلک کو اہمیت ہی نہیں دیتے جس میں ساری کاریگری، حکمت، سمجھداری اور ہمارے لیے بہترین آپشن چھپا ہوا ہے۔شہنشاہ بابر ایک عظیم حکمران جس کا نام تاریخ میں بہت گہرائی تک کندا ہے۔

اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ ’’ ابراہیم لودھی کی بدنصیب ماں نے جب یہ سنا کہ میں نے ہندوستانی کھانے پکانے کے لیے ابراہیم کے باورچیوں میں سے چارکو ملازم رکھ لیا ہے تو اس نے اٹاوہ سے احمد چاشنی گیر (سالن چکھنے والا) کو بلایا اور اسے تولہ بھر زہرکی پڑیا ماما کے ہاتھ بھیجی۔

احمد یہ پڑیا میرے باورچی خانے کے ایک ہندوستانی باورچی کے پاس لایا اور اس سے کہا کہ چار پر گنے جاگیر ملیں گے، اگر وہ کسی طرح یہ زہر میرے کھانے میں ملا دے۔ابراہیم لودھی کی ماں نے ایک اور ماما کو بھی بھیجا کہ دیکھ کر آئے کہ ماما نے زہر احمد کو دیا یا نہیں؟ حسن اتفاق سے باورچی نے زہر کو پتیلی میں نہیں ڈالا بلکہ رکابی پر چھڑکا، کیوں کہ میرا حکم تھا کہ چاشنی گیر سالن پتیلی سے نکال کر ہندوستانی باورچی کو چکھایا کریں، مگر نالائق چاشنی گیروں نے رکابی میں سالن نکالتے وقت نگرانی نہیں کی۔

چینی کی رکابی میں جو پھلکے لائے گئے، باورچی نے کچھ زہر ان پر چھڑک دیا اور اوپر گھی میں بگھاری ہوئی بوٹیاں رکھ دیں۔ اگر بوٹیوں پر بھی چھڑک دیتا تو بہت خرابی ہوتی، مگر وہ گھبرا گیا اور آدھا زہر خوف سے چولہے میں پھینک دیا۔ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر دسترخوان چنا گیا۔ میں نے خرگوش کے گوشت کی رکابی سے کچھ کھایا اور کچھ گاجریں لیں۔ پھر چند لقمے زہر والی رکابی سے لے کر کھائے۔

پہلے تو کوئی چیز بے مزہ محسوس نہیں ہوئی لیکن بوٹیاں کھائیں تو طبیعت بگڑ گئی، دو تین دفعہ ابکائی آئی خدشہ تھا کہ دسترخوان پر ہی قے ہو جائے، اسی لیے اٹھ کر غسل خانے گیا اور وہاں قے کی۔ کھانا کھا کر پہلے مجھے کبھی قے نہیں ہوئی تھی۔ لامحالہ شبہ پیدا ہوا اور حکم دیا کہ باورچیوں کو قید کر لیا جائے، قے کی ہوئی غذا کتے کو کھلائی گئی تو اس کا بھی پیٹ پھول گیا اور وہ ایسا ناتواں ہو گیا کہ پتھر مارے پر بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھتا تھا۔

میرے دو سپاہیوں نے بھی زہر والی رکابی سے کھایا تو وہ بھی قے کرتے رہے، ایک کی تو حالت بہت بگڑ گئی تھی، شکر ہے کہ ہم سب بچ گئے۔‘‘بعد کے حالات میں سب کی تفتیش کی گئی آخر پتا چل گیا اور اصل مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس زمانے اینٹی ڈاٹ وغیرہ تو ہوتے نہ تھے پر یونانی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی ایسی پہچان اور تراکیب تھیں کہ دنیا (اس وقت کی) اسی پر چلتی تھی، لکھتے ہیں:

’’حاذق طبیبوں کے مشورے سے پہلے ایک پیالہ گرم دودھ گل مختوم ملا کر ہم سب کو پلایا گیا۔ پھر تریاق فاروق دودھ کے ساتھ دیا گیا۔ دوسرے دن مسہل دی گئی تو اجابت کے ساتھ سیاہ رنگ کا مادہ خارج ہوا۔‘‘

آخر میں بابر نے ترکی زبان میں ایک شعر لکھا اور موت کے پروانے کو رب العزت کے متعین کردہ وقت تک دھکیلنے کے واقعے کو بیان کیا، اس کا اردو میں مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ:

’’چوٹ کھائی، بیمار ہوا، زندہ ہوں، موت کا مزہ چکھا تو زندگی کی قدر ہوئی۔‘‘

زندگی میں ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مقام پر چوٹ کھاتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں، موت کو انتہائی نزدیک سے دیکھتے ہیں، زندگی کی قدر بھی ہوتی ہے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر کے لوازمات بدل جاتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ جو زندگی ایک نئے سرے سے عطا کرنیوالا ہے وہ ہم کو جھنجھوڑ کر کیا بتانا، سمجھانا چاہتا ہے اور جو وہ سمجھانا چاہتا ہے وہ ہمارے لیے ہی بہترین ہے لیکن انسان زندگی کے نشے میں چور پھر سے مست ہاتھی کی طرح جھومنے لگتا ہے اور ہاتھی کو کیا خبر کہاں جانا ہے، جدھر سونڈ کی نکل گئے۔

حال ہی میں ایک امیر زادے صاحب کی برقیاتی آلات کے ذریعے تصویری خبر پہنچی کہ جنھوں نے ذرا سی لغزش پر ایک معصوم لڑکے کے ساتھ برا کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں اپنا ہی تماشا بنا لیا۔ طاقت کا نشہ کتنے وقت کے لیے سر چڑھ کر بولا، شاید پندرہ منٹ، آدھ گھنٹے یا ہو سکتا ہے بہت ہی کم۔ زعم، اکڑ، غرور اور نہ جانے کیسے کیسے جذبات جو ان صاحب نے ساری زندگی چکھے بھی ہوں گے یا نہیں، پر اس مختصر سے دورانیے میں ان کی قلعی ان کے اپنے گھر والوں، بچوں، دوستوں، محلے دار اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہوتی ان تک بھی پہنچ گئی جنھوں نے کبھی اس نام کے بندے کو دیکھا تک نہ تھا۔

پر دیکھ لیا اور دل سے بددعائیں منہ سے مغلظات کا وہ طوفان جسے تولا جائے تو وہ صاحب اس میں ڈوب ڈوب جائیں۔ پر نہیں وہ مختصر سا دورانیہ ان کی پچھلی گزاری گئی زندگی پر ایسا حاوی آیا کہ انھوں نے زہرکی پھنکی اپنے ہی منہ میں رکھ لی۔ جیل میں سلاخوں کے پیچھے ہنستی مسکراتی تصویر، تھانے میں وارد ہونا، سوشل میڈیا کے جال اور بہت کچھ۔ اب چاہے آپ نے منہ میں زہر رکھ لیا ہو یا کیچڑ میں اٹ گئے ہوں۔

سچے دل کی پکار بس وہی سن سکتا ہے کہ جس نے ایک ماں کی پکار پر پانی کا ایسا چشمہ جاری کر دیا جو آج کی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ جو سنت ابراہیمی کے واقعے کی یاد دلاتا ہے جب ایک باپ نے ایسے اعلیٰ حکام کی آواز پر (خواب) پر لبیک کہا اور اپنے دل کے ٹکڑے کو قربان گاہ تک پہنچایا اور چھری تیز کی پر ایسی سرعت ایسی زقند کہ دنیا آج تک مانتی ہے اور جانتی ہے کہ دل کے تار سچائی سے جھنجھناتے ہیں تو کیا کیا ہو سکتا ہے۔ دراصل ہم سب کچھ جانتے ہیں کہ بہت عقل مند ہیں پر مانتے نہیں کہ دنیا کے ٹھیکیدار خود کو سمجھتے ہیں بس غلطی سے بچیے، بہت تھوڑے سے وقت میں بہت سا خسارہ خریدنے سے گریز کریں اور سنت ابراہیمی پر غور و فکر کریں، رب العزت ہم سب کی قربانیاں قبول فرمائیں۔(آمین۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سنت ابراہیمی گیا اور کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد