Express News:
2025-08-01@23:08:12 GMT

سنت ابراہیمی

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

عید قرباں مسلمانوں کے لیے ایک بہت اہم فریضہ یعنی قربانی کو انجام دینے کا ہے تو وہیں مختلف کھانوں کی بہار پھیل جاتی ہے، لہٰذا یہ مہینہ ایک جانب سنت ابراہیمی پر عمل کرواتا ہے تو آج کے دور میں ہر وہ ڈش جو جیب کی تنگی اور مہنگے گوشت کے باعث درگزر کردی جاتی ہے، اب آزمانے کا موقعہ مل جاتا ہے لیکن پھر بہت سے وہ حضرات جو مختلف امراض کا شکار ہیں مجبوری کے باعث ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔

حج کی اہمیت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں پر سچ ہے کہ جس کا بلاوا آتا ہے وہی حاضری دیتا ہے۔ جیسے سوشل میڈیا پر محمد عامرکی وائرل ہوئی وڈیو خوب چلی، جہاز کے تین بار جانے اور آخر میں تھک ہار کر اپنے اس پیچیدگیوں میں الجھے مسافر کو لے کر جانے کے عمل نے اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ اس کے لیے دونوں آپشنز تیار تھے پر بندے کے دل کی حالت سے جو واقف تھا اس نے خوش نصیب آپشن پرکلک کر دیا اور حاضری ہوگئی۔

آج کل کے تیز رفتار دور میں ہم قدرت کے ان کرشموں کو سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم مادیت پرستی کے بخار میں الجھے اپنے جادوئی، طلسماتی آلہ جات میں گھرے ایک الگ دنیا کو ہی حقیقت جانتے ہیں لیکن اللہ کی رضا کے کلک کو اہمیت ہی نہیں دیتے جس میں ساری کاریگری، حکمت، سمجھداری اور ہمارے لیے بہترین آپشن چھپا ہوا ہے۔شہنشاہ بابر ایک عظیم حکمران جس کا نام تاریخ میں بہت گہرائی تک کندا ہے۔

اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ ’’ ابراہیم لودھی کی بدنصیب ماں نے جب یہ سنا کہ میں نے ہندوستانی کھانے پکانے کے لیے ابراہیم کے باورچیوں میں سے چارکو ملازم رکھ لیا ہے تو اس نے اٹاوہ سے احمد چاشنی گیر (سالن چکھنے والا) کو بلایا اور اسے تولہ بھر زہرکی پڑیا ماما کے ہاتھ بھیجی۔

احمد یہ پڑیا میرے باورچی خانے کے ایک ہندوستانی باورچی کے پاس لایا اور اس سے کہا کہ چار پر گنے جاگیر ملیں گے، اگر وہ کسی طرح یہ زہر میرے کھانے میں ملا دے۔ابراہیم لودھی کی ماں نے ایک اور ماما کو بھی بھیجا کہ دیکھ کر آئے کہ ماما نے زہر احمد کو دیا یا نہیں؟ حسن اتفاق سے باورچی نے زہر کو پتیلی میں نہیں ڈالا بلکہ رکابی پر چھڑکا، کیوں کہ میرا حکم تھا کہ چاشنی گیر سالن پتیلی سے نکال کر ہندوستانی باورچی کو چکھایا کریں، مگر نالائق چاشنی گیروں نے رکابی میں سالن نکالتے وقت نگرانی نہیں کی۔

چینی کی رکابی میں جو پھلکے لائے گئے، باورچی نے کچھ زہر ان پر چھڑک دیا اور اوپر گھی میں بگھاری ہوئی بوٹیاں رکھ دیں۔ اگر بوٹیوں پر بھی چھڑک دیتا تو بہت خرابی ہوتی، مگر وہ گھبرا گیا اور آدھا زہر خوف سے چولہے میں پھینک دیا۔ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر دسترخوان چنا گیا۔ میں نے خرگوش کے گوشت کی رکابی سے کچھ کھایا اور کچھ گاجریں لیں۔ پھر چند لقمے زہر والی رکابی سے لے کر کھائے۔

پہلے تو کوئی چیز بے مزہ محسوس نہیں ہوئی لیکن بوٹیاں کھائیں تو طبیعت بگڑ گئی، دو تین دفعہ ابکائی آئی خدشہ تھا کہ دسترخوان پر ہی قے ہو جائے، اسی لیے اٹھ کر غسل خانے گیا اور وہاں قے کی۔ کھانا کھا کر پہلے مجھے کبھی قے نہیں ہوئی تھی۔ لامحالہ شبہ پیدا ہوا اور حکم دیا کہ باورچیوں کو قید کر لیا جائے، قے کی ہوئی غذا کتے کو کھلائی گئی تو اس کا بھی پیٹ پھول گیا اور وہ ایسا ناتواں ہو گیا کہ پتھر مارے پر بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھتا تھا۔

میرے دو سپاہیوں نے بھی زہر والی رکابی سے کھایا تو وہ بھی قے کرتے رہے، ایک کی تو حالت بہت بگڑ گئی تھی، شکر ہے کہ ہم سب بچ گئے۔‘‘بعد کے حالات میں سب کی تفتیش کی گئی آخر پتا چل گیا اور اصل مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس زمانے اینٹی ڈاٹ وغیرہ تو ہوتے نہ تھے پر یونانی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی ایسی پہچان اور تراکیب تھیں کہ دنیا (اس وقت کی) اسی پر چلتی تھی، لکھتے ہیں:

’’حاذق طبیبوں کے مشورے سے پہلے ایک پیالہ گرم دودھ گل مختوم ملا کر ہم سب کو پلایا گیا۔ پھر تریاق فاروق دودھ کے ساتھ دیا گیا۔ دوسرے دن مسہل دی گئی تو اجابت کے ساتھ سیاہ رنگ کا مادہ خارج ہوا۔‘‘

آخر میں بابر نے ترکی زبان میں ایک شعر لکھا اور موت کے پروانے کو رب العزت کے متعین کردہ وقت تک دھکیلنے کے واقعے کو بیان کیا، اس کا اردو میں مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ:

’’چوٹ کھائی، بیمار ہوا، زندہ ہوں، موت کا مزہ چکھا تو زندگی کی قدر ہوئی۔‘‘

زندگی میں ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مقام پر چوٹ کھاتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں، موت کو انتہائی نزدیک سے دیکھتے ہیں، زندگی کی قدر بھی ہوتی ہے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر کے لوازمات بدل جاتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ جو زندگی ایک نئے سرے سے عطا کرنیوالا ہے وہ ہم کو جھنجھوڑ کر کیا بتانا، سمجھانا چاہتا ہے اور جو وہ سمجھانا چاہتا ہے وہ ہمارے لیے ہی بہترین ہے لیکن انسان زندگی کے نشے میں چور پھر سے مست ہاتھی کی طرح جھومنے لگتا ہے اور ہاتھی کو کیا خبر کہاں جانا ہے، جدھر سونڈ کی نکل گئے۔

حال ہی میں ایک امیر زادے صاحب کی برقیاتی آلات کے ذریعے تصویری خبر پہنچی کہ جنھوں نے ذرا سی لغزش پر ایک معصوم لڑکے کے ساتھ برا کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں اپنا ہی تماشا بنا لیا۔ طاقت کا نشہ کتنے وقت کے لیے سر چڑھ کر بولا، شاید پندرہ منٹ، آدھ گھنٹے یا ہو سکتا ہے بہت ہی کم۔ زعم، اکڑ، غرور اور نہ جانے کیسے کیسے جذبات جو ان صاحب نے ساری زندگی چکھے بھی ہوں گے یا نہیں، پر اس مختصر سے دورانیے میں ان کی قلعی ان کے اپنے گھر والوں، بچوں، دوستوں، محلے دار اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہوتی ان تک بھی پہنچ گئی جنھوں نے کبھی اس نام کے بندے کو دیکھا تک نہ تھا۔

پر دیکھ لیا اور دل سے بددعائیں منہ سے مغلظات کا وہ طوفان جسے تولا جائے تو وہ صاحب اس میں ڈوب ڈوب جائیں۔ پر نہیں وہ مختصر سا دورانیہ ان کی پچھلی گزاری گئی زندگی پر ایسا حاوی آیا کہ انھوں نے زہرکی پھنکی اپنے ہی منہ میں رکھ لی۔ جیل میں سلاخوں کے پیچھے ہنستی مسکراتی تصویر، تھانے میں وارد ہونا، سوشل میڈیا کے جال اور بہت کچھ۔ اب چاہے آپ نے منہ میں زہر رکھ لیا ہو یا کیچڑ میں اٹ گئے ہوں۔

سچے دل کی پکار بس وہی سن سکتا ہے کہ جس نے ایک ماں کی پکار پر پانی کا ایسا چشمہ جاری کر دیا جو آج کی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ جو سنت ابراہیمی کے واقعے کی یاد دلاتا ہے جب ایک باپ نے ایسے اعلیٰ حکام کی آواز پر (خواب) پر لبیک کہا اور اپنے دل کے ٹکڑے کو قربان گاہ تک پہنچایا اور چھری تیز کی پر ایسی سرعت ایسی زقند کہ دنیا آج تک مانتی ہے اور جانتی ہے کہ دل کے تار سچائی سے جھنجھناتے ہیں تو کیا کیا ہو سکتا ہے۔ دراصل ہم سب کچھ جانتے ہیں کہ بہت عقل مند ہیں پر مانتے نہیں کہ دنیا کے ٹھیکیدار خود کو سمجھتے ہیں بس غلطی سے بچیے، بہت تھوڑے سے وقت میں بہت سا خسارہ خریدنے سے گریز کریں اور سنت ابراہیمی پر غور و فکر کریں، رب العزت ہم سب کی قربانیاں قبول فرمائیں۔(آمین۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سنت ابراہیمی گیا اور کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ان خودکشیوں کا ذمے دار کون؟

ملک بھر میں خودکشیاں اب معمول سے بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور آئے روز میڈیا پر پنجاب، سندھ اور خصوصاً دونوں بڑے صوبوں کے پس ماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں مرد و خواتین کی خودکشیوں کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں جن کی مختلف وجوہات تو ہیں مگر مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور مالی مشکلات کے باعث خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ملک میں خودکشیوں میں مہنگی بجلی فراہم کرنے والے اداروں اور ملک کے پولیس اور عدالتی معاملات و سماجی و حکومتی ناانصافیوں کا بھی دخل ہے مگر یہ ادارے اپنا کردار تسلیم نہیں کرتے نہ اپنے نظام کی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہیں جس سے مجبور افراد مختلف طریقوں سے اپنی جانیں گنوا کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس انتہائی اقدام سے ان کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔

گزشتہ دنوں کراچی کی ملیر جیل سے بڑی تعداد میں قیدی فرار ہو گئے تھے ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک 25 سالہ قیدی بھی شامل تھا جس نے اس عارضی رہائی کے دوران خودکشی کر لی اور اس کا خود کشی سے قبل کا رضاکارانہ وڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں قیدی کا موقف تھا کہ ’’ مجھے رہائی دی جائے کیونکہ میں بے گناہ اور ناحق قید ہوں‘‘ مگر اس کی کس نے سننی تھی، کیونکہ اس پر تو جیل سے فرار کا ایک مزید مقدمہ بنتا تھا، اس لیے اپنی بے گناہی کا اس نے وڈیو بیان دیا اور موت کو گلے لگا لیا کہ خودکشی کے بعد اس پر جتنے مزید مقدمے درج ہونے ہیں ہوجائیں اس نے تو خودکشی کرکے جان چھڑا لی ۔

 ہمارے ملکی قوانین میں اقدام خودکشی جرم ہے ، خودکشی جرم نہیں رہتی کیونکہ خودکشی کرنے والا دنیا میں رہتا ہی نہیں جب کہ اقدام خودکشی کا جرم کرنے والا بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے مگر قانون کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ بچ جانے والے سے پوچھے کہ اس نے مرنے کی کوشش کیوں کی؟ اس انتہائی اقدام کی وجوہات کیا تھیں؟ اقدام خودکشی کرنے والے کی بدنصیبی کہ وہ زندہ بچ گیا ہے لیکن اب وہ قانون کے مطابق مجرم ہے اور اس نے جرم کی سزا بھگتنی ہے۔

ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جس میں بجلی کا بل جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے والے نے خود کشی کرلی، کئی مقدمے کے ڈر سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین یا عملہ کہہ دیتا ہے کہ قانون کے ڈر سیکسی کی خودکشی کے ہم ذمے دار نہیں۔ واقعی محکمہ تو ذمے دار نہیں ہوتا مگر ملازمین کے رویے اور اخلاقیات کو کون چیک کرتا ہے۔

 ملک کی جیلوں میں کئی بے گناہ بھی قید ہوں اور ہزاروں ایسے ہوں گے جن کے جرم معمولی نوعیت کے ہیں لیکن وہ برسوں سے جیل میں پڑے ہیں۔ ہمارا نظام عدل بھی اس حوالے سے خاموش رہتا ہے۔

اس ملک میں ناانصافیوں، جھوٹے مقدمات اور تحقیقات، سرکاری اداروں میں ہونے والی ناانصافیوں، نجی اداروں کے ملازمین پر مظالم، وقت پر تنخواہ نہ ملنا، غیر قانونی برطرفیوں اور معاشرتی برائیوں کی وجہ سے بھی خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں عام لوگ ہی نہیں بڑے نامور لوگ، اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں۔

گزشتہ دور میں نیب کی چیرہ دستیوں، بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور تحقیقات کے نام پر تذلیل کے باعث ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر و دیگر افسران بھی خودکشیاں کرچکے ہیں جب کہ حالیہ تین سال سے نیب کے باعث کوئی خودکشی نہیں ہوئی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ماضی میں نیب کے اقدامات غیر قانونی تھے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے گھریلو جھگڑوں، طلاقوں اور قتل کی وارداتیں بڑھائی ہیں اور گھریلو خواتین کی روز کے جھگڑوں، معاشرتی مسائل، شوہروں کے مظالم اور اولاد کی نافرمانیاں بھی خودکشیوں کی اہم وجہ ہیں۔ خواتین کو شوہروں کا تشدد بھی سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد کی محبت بھی بھول جاتی ہیں۔ گھروں میں بچوں کے لیے خوراک نہ ہونا، میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل خواتین نے خودکشیوں میں تلاش کر لیا ہے۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق خواتین ہی نہیں، مردوں نے بھی اپنے بچوں سمیت مختلف ذرایع سے اجتماعی خود کشیاں کی ہیں جس پر سماجی رہنماؤں کے افسوس کے بیانات آئے مگر حکومتوں نے کبھی کوئی بیان جاری کیا نہ لواحقین کی داد رسی کی۔ قدرتی آفات میں فوت ہونے والوں کی تو حکومت مالی امداد کر دیتی ہے مگر خودکشیوں کی کبھی حکومت نے وجوہات جاننے پر توجہ دی نہ خودکشی کرنے والوں کے لواحقین کے لیے کبھی سرکاری امداد کا اعلان ہوا۔

اسلامی حکومتوں میں سربراہ عام لوگ تو کیا کسی لاوارث کی موت کا بھی حکومت کو ذمے دار سمجھتے تھے مگر اب ہر ماہ خودکشیوں کے بڑے واقعات ہو رہے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی جب کہ خودکشیوں کے ذمے دار مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے والے یہی حکمران ہیں۔

خودکشی کے رجحان کو روکنے کے لیے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ معمولی نوعیت کے جرائم جن میں چند ہفتوں کی قید اور جرمانہ شامل ہوتا ہے ‘کئی قیدی ایسے ہوتے ہیں جو جرمانہ نہیں دے سکتے اور جیل میں پڑے رہتے ہیں ‘اس کے علاوہ کئی قیدی ایسے ہیں جن کے کیس ہی نہیں چل رہے اور وہ بھی برسوں سے جیل میں موجود ہیں‘ ایسے لوگوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی میکنزم ہونا چاہیے۔

 جن پر چند ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے‘ اگر کوئی بندہ یہ جرمانہ ادا نہیں کر سکتا اور انتہائی غریب ہے تو اسی وقت اس کا جرمانہ بیت المال سے ادا کر کے اسے رہا کر دیا جائے‘اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو جیل پر بوجھ نہیں ہو تا دوسرا ممکن ہے وہ بندہ معاشرے میں جا کر کوئی کام دھندا کرنے لگے ‘اسی طرح جو طویل قید کاٹ رہے ہیں اور ان کے جرم ایسے ہیں جن میں سزا کی معاشی نہیں ہو سکتی تو ایسے قیدیوں کو کسی سرکاری تعمیراتی کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ‘اس طریقے سے وہ ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور اس کو اس کی مزدوری بھی ملتی رہے گی ‘اس پر قومی خزانے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا ۔حکومت اور ہمارے پارلیمنٹیرینز چاہیں تو اس حوالے سے قانون سازی کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حضورۖ کا خراجِ تحسین
  • غزہ میں بھوک کا راج ہے!
  • اب آبروئے شیوۂ، اہل نظر گئی
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!
  • ’’ماں‘‘ ایک منفرد کتاب
  • ان خودکشیوں کا ذمے دار کون؟
  • مودی مشکل میں
  • کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
  • دل میں خوف سا، کیوں ہے بھائی