Jasarat News:
2025-11-03@07:01:17 GMT

ایران پر اسرائیل کا حملہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

گزشتہ کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہے، لیکن اس بار ہدف فلسطین یا غزہ نہیں بلکہ ایران کے بڑے شہر ہیں۔ ایران، جہاں نطنز کا ایٹمی ری ایکٹر، فوجی مراکز اور شہری آبادیاں نشانہ بنائی گئیں، درحقیقت نہ صرف ایک خودمختار ریاست پر حملہ ہے بلکہ یہ پورے عالم ِ اسلام پر اعلانِ جنگ ہے۔ تہران، تبریز اور دیگر بارہ صوبوں میں اسرائیلی حملوں میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 20 سے زائد اعلیٰ ایرانی کمانڈر، 6 ایٹمی سائنس دان اور 78 شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ 300 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے مطابق ایران نے اسرائیل کے حملوں کے بعد جوابی کارروائی کو آپریشن ’وعدہِ صادق 3‘ کا نام دیا ہے۔ایران کے جوابی حملوں میں اسرائیل میں ایک خاتون ہلاک اور چالیس افراد زخمی ہیں جن میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں دشمن کو ’کاری ضربیں‘ لگانے کا اعلان کیا ہے۔یہ صرف ایران نہیں بلکہ ہر مسلمان ملک کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کہ اگر آج خاموشی اختیار کی گئی تو کل ان کے دروازے پر بھی یہی قیامت دستک دے سکتی ہے۔ اس ساری جارحیت کے پیچھے اگر کوئی اصل مجرم ہے تو وہ امریکا ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تاریخ اگر اٹھا کر دیکھی جائے تو ہر بڑی کارروائی میں امریکا نے یا تو مکمل خاموشی اختیار کی، یا پھر کھل کر اسرائیل کی حمایت کی۔ اس حملے کے تناظر میں بھی واضح ہے کہ اسرائیل نے یہ کارروائی امریکی آشیرباد سے کی۔ پہلے امریکا کی طرف سے وضاحت آتی رہی کہ اسرائیل نے ہم سے پوچھ کر حملہ نہیں کیا اور ہمارا اس سے تعلق نہیں، لیکن پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے لیے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے فوری طور پر معاہدے پر عمل نہ کیا تو جسے کبھی ’ایرانی سلطنت‘ کہا جاتا تھا، سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1981 میں جب اسرائیل نے عراق کے اوسیراک نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملہ کیا تھا تو دنیا نے اس کی مذمت کی، لیکن امریکا نے ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچا لیا۔ اسی طرح 2006 میں لبنان پر بمباری، 2008 اور 2014، اور مستقل 2025 میں غزہ کی تباہی، ہر موقع پر امریکا اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی مذمت میں قراردادیں منظور کی گئیں، تو سلامتی کونسل میں امریکا نے انہیں ویٹو کر کے عالمی انصاف کا گلا گھونٹا۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی حمایت صرف وقتی مفاد نہیں بلکہ ایک اصولی پوزیشن ہے۔ امریکا اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا ’فرنٹ لائن اتحادی‘ سمجھتا ہے، جو اس کے تزویراتی مقاصد کے لیے کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سالانہ 3.

8 بلین ڈالرز کی فوجی امداد اسرائیل کو دیتا ہے۔ جدید ترین اسلحہ، انٹیلی جنس شیئرنگ، سائبر ٹیکنالوجی، اور یہاں تک کہ جوہری دفاعی نظام بھی امریکا کی دین ہے۔ آئرن ڈوم (Iron Dome) جیسا میزائل دفاعی نظام امریکی سرمائے سے تیار ہوا۔ ایران نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط لکھا، حملوں کی شکایت کی اور فیصلہ کن ردِعمل کا اعلان کیا۔ لیکن کیا سلامتی کونسل میں انصاف کی کوئی امید ہے؟ جب وہاں امریکا جیسا ویٹو پاور رکھتا ہو، تو وہاں انصاف کی تلاش کرنا کسی سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے۔ یہ جنگ صرف ایران کی نہیں۔ اگر آج امت ِ مسلمہ نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو ایک ایک کر کے سب کی باری آئے گی۔ سعودی عرب جتنی بھی امریکا کی خوشامد کرے، اگر وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، تو وہ وقت دور نہیں جب وہ بھی اسرائیل اور امریکا کی نظر میں بے مصرف ہو جائے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملوں کے بعد خطے کو ’’تباہی‘‘ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو روکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی برادری کو اسرائیلی ڈاکوؤں کو ختم کرنا چاہیے جو عالمی اور علاقائی استحکام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی حکمت ِ عملی ایران پر حملوں کی لہر کے ساتھ خطے، بالخصوص غزہ، میں خون، آنسو اور عدم استحکام کے انتہائی خطرناک مرحلے میں لے جانے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ایران پر اسرائیل کے حملے ایک واضح اشتعال انگیزی ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے بھی اسرائیل کی بلاجواز اور غیرقانونی جارحیت کی شدید مذمت کی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیلی حملے کو انتہائی سنگین، غیرذمہ دارانہ اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے میں جانی نقصان پر ایرانی عوام سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کہا ہے کہ ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر اسرائیلی حملے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ’سنگین خطرہ‘ ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق 15 رکنی سلامتی کونسل نے اپنی معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر غور کیا۔ پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کو ’غیر ضروری اور غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور ایران کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیل ’تمام حدیں پار کر چکا ہے اور عالمی برادری کو اس کے جرائم کی سزا دیے بغیر نہیں چھوڑنا چاہیے‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بیانات کافی نہیں۔ انہیں بھی خاموشی سمجھا جائے گا۔ اس وقت حرکت کرنے کی ضرورت ہے، ایسی حرکت جو اسرائیل کو دہشت گردی سے روکے۔ لیکن بد قسمتی سے اس وقت ہر طرف مفادات، مصلحتوں اور خاموشی کی دیوار کھڑی ہے۔ لیکن یہ دیوار کب تک باقی رہے گی؟ اسرائیل کا اگلا ہدف کون ہوگا؟ سعودی عرب، ترکیہ؟ پاکستان؟ یہ سوالات اب محض خدشات نہیں بلکہ امکانات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایران نے جواباً اسرائیل پر میزائل داغے ہیں، جس کے بعد اطلاعات کے مطابق یروشلم میں سائرن بجنے لگے، اور عوام کو پناہ گاہوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کو اس جارحیت پر پچھتانا پڑے گا۔ انہوں نے اپنی عوام سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے۔ ایران کا دفاع درحقیقت امت ِ مسلمہ کے دفاع کا پہلا مورچہ ہے۔ اگر یہ مورچہ ٹوٹ گیا تو اسرائیل اور امریکا مزید دلیر ہو جائیں گے، اور پھر کوئی بھی ملک ان کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ حملہ مستقبل کی جنگ کی پیش گوئی ہے۔ اب دنیا دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے: ایک طرف اسرائیل اور امریکا ہیں، دوسری طرف وہ ممالک جو ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔ چین، روس، ترکی اور پاکستان کا مستقبل میں اہم کردار بن سکتا ہے۔ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ امریکا سے اپنی غلامی کا طوق اتار پھینکیں، او آئی سی کو فعال کریں، اور ایک مشترکہ فوجی، اقتصادی، اور سفارتی محاذ بنائیں۔ یہی وقت ہے کہ امت ِ مسلمہ ایک واضح اور بھرپور مؤقف اختیار کرے۔ بصورتِ دیگر تاریخ ہمیں صرف ذلت اور تباہی کی صورت میں یاد رکھے گی۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل سلامتی کونسل میں اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کی پر اسرائیل امریکا کی نہیں بلکہ ایران کے کے مطابق ایران پر ایران نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران

ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کی جانب سے امریکی جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے پر ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

عباس عراقچی نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا کا جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ غیرذمے دارانہ ہے، ایک شرپسند ملک جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔

 واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 33 سال بعد امریکی ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ سے بحال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی جانچ برابری کی بنیاد پر فوراً شروع کرے گا۔

برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ فیصلہ چین و روس کے بڑھتے جوہری پروگراموں کے ردِعمل میں کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • کیریبین میں مبینہ منشیات سے بھری کشتی پر امریکا کا حملہ، 3 افراد ہلاک
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے