واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جون2025ء)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران کا اب بھی جوہری پروگرام موجود ہے ۔ دوسری طرف ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ صرف حملوں سے تہران کے جوہری منصوبے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ایران پر بڑے پیمانے پر حملوں کے بعد اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہنیبی نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو فوجی مہم سے مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جا سکتا۔

ہنیگبی نے بتایا کہ فوجی مہم امریکہ کی قیادت میں ایک طویل مدتی معاہدے کے لیے حالات پیدا کر سکتی ہے جس سے جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر نے صرف طاقت کے استعمال سے ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کو ناممکن قرار دیا اور کہا کہ صرف طاقت کے ذریعے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

مقصد یہ ہے کہ ایرانیوں کو یہ باور کرایا جائے کہ انہیں جوہری پروگرام کو روکنا چاہیے۔

امریکی صدر نے جمعے کو رائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران کا اب بھی جوہری پروگرام ہے۔ٹرمپ نے تصدیق کی کہ وہ اور ان کی ٹیم اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے منصوبے سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور انہوں نے تہران کو اپنے جوہری پروگرام پر معاہدہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں واضح انتباہ دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہر چیز کا مکمل علم تھا، اور میں نے ایران کو ذلت اور موت سے بچانے کی بہت کوشش کی کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ہم ایک معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں۔

انہوں نے کہا وہ اب بھی ایک معاہدہ کر سکتے ہیں، ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ٹرمپ نے بارہا اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر سفارت کاری کے لیے مزید وقت دینے کے لیے اسرائیلی حملے کو ملتوی کرنے کے لیے دبا ڈالا حالانکہ انھوں نے خود دھمکی دی تھی کہ اگر جوہری مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران پر بمباری کی جائے گی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایرانیوں کو معاہدے تک پہنچنے کے لیے 60 دن کا وقت دیا تھا اور آج 61 دن ہو گئے ہیں۔

ایران نے اپنی طرف سے امریکہ کے اس اصرار کو مسترد کر دیا کہ وہ یورینیم کی افزودگی ترک کر دے۔ٹرمپ نے کہا یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیلی حملوں کے بعد بھی ایران کا جوہری پروگرام موجود ہے یا نہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔ یہ ایک بہت ہی تباہ کن دھچکا تھا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے ایرانی جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں اور فوجی رہنماں کو نشانہ بنایا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری پروگرام کو واضح نہیں ایران کا انہوں نے نے کہا کے لیے کہا کہ اب بھی

پڑھیں:

پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتِ حال پر ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے۔

کریملن کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے شام کی صورتحال اور حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا اقوام متحدہ سے مطالبہ: فلسطین کو مکمل رکنیت دی جائے، 6 نکاتی عملی روڈمیپ پیش

کریملن کے بیان میں کہا گیا کہ روس نے خطے میں پرامن حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ صدر پیوٹن نے شام کی خودمختاری، وحدت اور علاقائی سالمیت کے تحفظ پر زور دیا، اور اس بات کی پیش کش کی کہ روس ایران اور اسرائیل کے درمیان مکالمے کے قیام میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

بیان کے مطابق روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ ماسکو ایران کے جوہری پروگرام کے گرد پائے جانے والے تناؤ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون دینے کو تیار ہے۔

دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اور عالمی امور پر مستقل رابطے کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔

واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے آگے شام میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے، جس کا جواز اسرائیلی حکام نے ’دشمن عناصر کو سرحد کے قریب قدم جمانے سے روکنا‘ بتایا۔

اس ماہ کے آغاز میں، اسرائیلی فضائیہ نے دمشق میں شامی وزارتِ دفاع پر کئی فضائی حملے کیے، جس کی وجہ جنوبی شام میں دروز اقلیت کا تحفظ بتائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:روس کھل کر امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کرے، خامنہ ای کی پیوٹن سے اپیل

بعد ازاں، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور شام کے عبوری رہنما احمد الشراع (جو کہ ماضی میں سخت گیر گروپ ’تحریر الشام‘ کے کمانڈر رہ چکے ہیں) کے درمیان امریکی ثالثی سے جنگ بندی طے پائی۔

جون میں، اسرائیل نے ایرانی جوہری اور عسکری تنصیبات پر امریکا کی مدد سے حملے کیے، جس کے جواب میں ایران نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان بارہ دن تک باہمی حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔

روس ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے کشیدگی شروع ہوتے ہی ایران اور اسرائیل دونوں سے رابطہ کیا اور فریقین کو کئی مصالحاتی تجاویز پیش کیں، جیسا کہ صدر پیوٹن نے بیان میں واضح کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل پیوٹن روسی صدر شام غزہ فلسطین کریملن نیتن یاہو

متعلقہ مضامین

  •  پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کردیا
  • پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟
  • اگر دوبارہ جارحیت کی تو مزید سخت جواب ملیگا، سید عباس عراقچی کا امریکہ کو انتباہ
  • ٹرمپ کی روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے کیلئے مختصر مہلت، ایران کو بھی دھمکی دیدی
  • امریکی صدر ٹرمپ سمیت سب لوگ بات چیت وزیراعظم سے نہیں مقتدر طاقت سے کرتے ہیں، مفتاح اسماعیل
  • ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سمیت حالیہ واقعات کے بارے میں خاموش نہیں رہ سکتے، پاکستان
  • سارہ خان نے فیمنزم پر اپنا مؤقف ایک بار پھر واضح انداز میں پیش کر دیا
  • ہم ایران کیساتھ جامع معاہدہ چاہتے ہیں، فرانس
  • اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کے سپریم لیڈر کو براہ راست نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی
  • نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے، اب فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ