ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ مذاکرات ’بے معنی‘ ہو گئے، واشنگٹن اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے۔

’مہر نیوز‘ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل باقائی نے ایک بیان میں کہا کہ دوسری جانب (امریکا) نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے جس سے بات چیت بے معنی ہو گئی ہے، آپ ایک طرف مذاکرات کا دعویٰ اور دوسری طرف صہیونی حکومت (اسرائیل) کو ایران کی سرزمین کو نشانہ بنانے کی اجازت دیں، یہ ایک ساتھ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت سفارتی عمل پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو گئی اور یہ حملہ واشنگٹن کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

جنگ بندی برقرار: پاکستان، افغانستان نگرانی اور تصدیق کے میکنزم پر بھی متفق، اگلا دور  6 نومبر کو: ترک وزارت خارجہ

استنبول؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں+ عزیز علوی) پاکستان اور افغانستان استنبول مذاکرات میں جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کر لیا۔ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر برقرار رہے گا۔ تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کیا جائے گا۔ افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور قطر نے 25 تا 30 اکتوبر کے دوران استنبول میں اجلاس منعقد کئے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے ضوابط اگلے مذاکرات میں طے ہوں گے۔ مذاکرات کا مقصد دوحہ قطر میں طے پانے والی جنگ بندی جاری رکھنا تھا۔ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کا میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق بطور ثالث ترکیہ اور قطر دونوں فریقین کے تعاون کو سراہتے ہیں۔ امن کیلئے وضع شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھہرایا جائے گا۔ استنبول مذاکرات عبوری رضامندی اور خطے میں امن کی جانب پیش قدمی ہیں۔ پاکستان اس تمام معاملے کو  internationalise  کرنے میں کامیاب ہوا جو پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔ یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیئے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کے  دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پائیدار بنانے کیلئے اسے  جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔ تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔ ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور verification  میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی کے خلاف فیصلہ کرنے کا  بھی اختیار رکھے گا۔ ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ  کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں فریقین  کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ مہارت  کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوا۔ اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیش رفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو مخالف قوتوں  کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابل تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح  ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔ وزیر دفاع نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا دوست ممالک نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا  کیا۔ ہم نے اپنی پوزیشن کلیئر کر دی ہے۔  پاکستان کا مؤقف ہے  کہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔  قانونی طور پر افغان رجیم کا کوئی ’’سٹیٹس‘‘ نہیں ہے۔ افغان طالبان رجیم کے پاس اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز نہیں ہے۔ وزیر دفاع  خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میزبانوں ترکیہ اور قطر کی درخواست  نے پاکستانی ٹیم کو ائر پورٹ سے بلوایا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا  پاکستان اور افغانستان کے درمیان شٹل ڈپلومیسی ہوئی۔  بدھ کے روز مذاکرات کے حوالے سے ہماری امید ٹوٹ  گئی تھی۔ ہمیں افغان طالبان رجیم  سے کوئی امید نہیں۔ ثالثوں کے ذریعے مختلف مسودے شیئر کئے۔ بدھ کے مقابلے میں گزشتہ روز کچھ تھوڑ سی امید پیدا ہوئی۔ کابل کے لوگ کہہ رہے تھے ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں گے، لکھ کر نہیں دیں گے۔ غزہ میں فوج کیوں نہیں بھیجی جا رہی ہے؟ معاہدہ فلسطین اور حماس نے خود کیا ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ غیر مسلح ہونے کا معاہدہ حماس نے خود کیا۔ ابھی کسی نے غزہ میں فوج بھیجنے کا نہیں کہا۔ غزہ میں فوج بھیجنے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ پارلیمان میں چیزوں پر بحث ہو سکتی ہے۔ ابھی 27 ویں ترمیم کے حوالے سے کوئی تجویز آن پیپر نہیں۔ بلوچستان، خیبر پی کے میں کچھ علاقوں میں بغیر عدالت تمام معاملات ہوجاتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کا مطالبہ ہے لوگوں کی گرفتاری اور پروسیڈ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بفر زون قائم کیا جائے۔ اگر افغانستان تیار ہوتا ہے تو مل کر بفر زون قائم کی جائے گی۔ اگر افغانستان تیار نہ ہوا تو ہم خود بفرزون قائم کریں گے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ ہم یکطرفہ طور پر دہشتگردی کا شکار ہوتے رہیں۔ یفر زون کیلئے قطر، ترکیہ، سعودی عرب غیر جانبدار ثالث کے طور پر ذمہ داری ادا کریں گے۔ افغانستان میں جہاں دہشتگردوں کی تربیت ہو رہی ہے ان تمام علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے افغانستان سے دہشتگردی کے ثبوت دیئے ہیں۔ افغان طالبان تسلیم کرتے ہیں لیکن لکھ کر دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان چاہتا ہے افغان طالبان لکھ کر دیں۔ خواجہ آصف نے پاکستان کے دفاع کے حوالے سے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا۔ افغان نمائندہ وفد کئی بار راضی ہوا۔ کابل سے رابطہ کیا تو نئی بات کی گئی۔ کابل میں موجود لوگوں کو بھارت کی حمایت حاصل اور مداخلت کا سامنا ہے۔ بھارت بھی حالات خراب کرانے میں سرگرم ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا ہے کہ افغان وفد کا کہنا ہے ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغان سرزمین پر پاکستانی پناہ گزین ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد اپنے گھروں میں پاکستان واپس جا رہے ہیں، کیسے پناہ گزین ہیں جو اپنے گھر انتہائی تباہ کن اسلحہ سے مسلح ہوکر جا رہے ہیں۔ جو اپنے گھر، بسوں، ٹرکوں اور گاڑیوں پر سوار ہو کر نہیں جا رہے، کیسے پناہ گزین ہیں جو چوروں کی طرح دشوار راستوں سے پاکستان داخل ہو رہے ہیں، یہ تاویل ہی افغانستان کی نیت کے فتور اور خلوص سے عاری ہونے کا ثبوت ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو یہ بات ماننا پڑی کہ دہشتگرد کا رروائیاں بند ہوں گی۔ امید ہے اب دہشتگرد کا رروائیاں نہیں ہوں گی۔ دوست ممالک پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ترکیہ اور قطر پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف سزا کا تعین کیا جائے گا۔ پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کو سپورٹ کیا جا رہا  تھا۔ پشت پناہی دی جا رہی تھی۔ یہ پاکستان کے مؤقف کی تائید اور بیانیے کی جیت ہے۔ پوری دنیا کو پتا ہے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی مدد سے دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ جنگ بندی میں افغان طالبان کی جانب سے  فتنہ الخوارج کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اب نیا فورم میسر ہو گا جہاں دہشتگردی کے ثبوت پیش کرے گا۔ افغان طالبان کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ عطاء تارڑ نے کہا پاک افغان سرحدیں کھولنے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ دریں اثناء وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری نے کہا کہ پاکستان کے اصولی مؤقف کی جیت ہوئی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کسی کی بھی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کا امن پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان بھارت کی پراکسی بنا رہا تو کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • ایرانی و مصری وزرائے خارجہ کی غزہ، لبنان اور جوہری مسائل پر گفتگو
  • روس کی جانب سے امریکا بھیجے گئے میمو کے بعد ٹرمپ پیوٹن کی سربراہی ملاقات منسوخ
  • امریکا کا جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ غیرذمہ دارانہ ہے: ایرانی وزیرخارجہ
  • جنگ بندی برقرار: پاکستان، افغانستان نگرانی اور تصدیق کے میکنزم پر بھی متفق، اگلا دور  6 نومبر کو: ترک وزارت خارجہ
  • ٹرمپ،جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت