پاکستان میں بٹ کوائن مائننگ: توانائی سے عالمی معیشت تک رسائی
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
پاکستان کی توانائی کی زائد صلاحیت کو مثر استعمال میں لاکر ڈیجیٹل معیشت میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کی بجلی کی پیداوار 46,000میگاواٹ ہے جو طلب سے کہیں زیادہ ہے ، گرمیوں میں بجلی کی طلب 26,000 اور سردیوں میں صرف 10,000 میگاواٹ تک محدودہے ۔
پاکستان میں بجلی کی طلب میں موسمی تغیرات کے باعث اضافی توانائی کو بٹ کوائن مائننگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔حالیہ منصوبے کے تحت 2,000 میگاواٹ بجلی بٹ کوائن مائننگ کے لیے مختص کی جائے گی۔
بٹ کوائن مائننگ بغیر درآمدات کے آمدنی کا ذریعہ اور زرمبادلہ میں اضافے کا باعث ہو گا۔حکومت نجی شعبہ کے ساتھ مل کر بٹ کوائن مائننگ سے ڈیجیٹل پاکستان کی بنیاد رکھے گی۔بٹ کوائن مائننگ حکومت کے لیے آمدن اور جدید ڈیٹا سینٹرز کے قیام کے باعث نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔آئی پی پیز کی صلاحیت کا بہتر استعمال، ملکی گرڈ کا استحکام ممکن بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: بٹ کوائن مائننگ
پڑھیں:
توانائی کے صاف اور قابلِ تجدید ذرائعوں کا استعمال، چین امریکا پر بازی لے گیا
ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے قابلِ تجدید اور صاف ذرائعوں کی تلاش اور استعمال دنیا بھر میں جاری ہے تاہم اب لگتا ہے کہ اس دوڑ میں چین امریکا پر بازی لے گیا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق چین نے ایک سال کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر ہوا اور شمسی توانائی نصب کی ہے جتنی اس وقت امریکا میں مجموعی طور پر نصب ہے۔ یہ انکشاف ‘گلوبل انرجی مانیٹر’ کی تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق چین اس وقت 510 گیگاواٹ کی اضافی قابلِ تجدید توانائی تعمیر کر رہا ہے جو 1,400 گیگاواٹ کے موجودہ نظام میں شامل ہوگی۔ یہ امریکا کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی بینک نے بلوچستان کی قابل تجدید توانائی کے استعمال کا مشورہ کیوں دیا؟
دوسری جانب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ دستخط شدہ قانون سازی نے ہوا اور شمسی توانائی کے لیے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو کمزور کر دیا ہے جس کے باعث ان منصوبوں پر سرمایہ کاری مہنگی اور مشکل ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ سستی توانائی کے متبادل کے طور پر مہنگی گیس استعمال کی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت تقریباً 275 گیگاواٹ قابلِ تجدید توانائی موجود ہے اور 2031 تک مزید 150 گیگاواٹ کے منصوبے زیرِ غور تھے، جو اب خطرے میں ہیں۔ ٹرمپ کے قانون کے بعد آئندہ دہائی میں مجوزہ منصوبے نصف رہ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: نام نہاد ماڈل شہر جہاں سانس لینا محال ہوتا جا رہا ہے
چین میں توانائی کی منتقلی نہ صرف دیہی علاقوں میں نظر آ رہی ہے بلکہ بیجنگ جیسے شہروں میں بھی اب زیادہ تر گاڑیاں الیکٹرک ہو گئی ہیں۔ چین میں الیکٹرک گاڑیاں چلانا اب پٹرول گاڑیوں کے مقابلے میں 6 گنا سستا ہو گیا ہے۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ چین قابلِ تجدید توانائی کی دوڑ میں سبقت لے چکا ہے جبکہ اس حوالے سے امریکا کی پالیسی خصوصاً ٹرمپ کی زیرِ نگرانی عدم تسلسل کا شکار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آلودگی امریکا توانائی چین شمسی توانائی ماحولیات