شرحِ سود کو آئندہ مالیاتی پالیسی میں 6 فیصد تک لایاجائے،احمد چنائے
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء)پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹراحمد چنائی(ستارہ امتیاز، ہلالِ امتیاز)نے کہاہے کہ شرحِ سود کو آئندہ مالیاتی پالیسی میں 6 فیصد تک لایاجائے۔خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معیشت اس وقت نازک موڑ پر ہے اور موجودہ حالات میں ایک متوازن، ترقیاتی اور جرات مندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں اس موقع پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ آئندہ پالیسی اجلاس میں شرحِ سود کو 6 فیصد تک کم کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ افراطِ زر میں واضح کمی اور بیرونی کھاتوں میں بہتری کے بعد اب وقت آ چکا ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سود کی شرح کو حقیقت پسندانہ سطح پر لایا جائے۔(جاری ہے)
احمد چنائے نے کہاکہ موجودہ بلند شرحِ سود نے صنعتوں، ایکسپورٹرز، چھوٹے و درمیانے کاروباروں کو شدید متاثر کیا ہے، جو مہنگے قرضوں اور بڑھتے ہوئے پیداواری اخراجات کے سبب بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ 6فیصد کی پالیسی ریٹ نہ صرف کاروباری طبقے کو سہولت دے گی بلکہ روزگار کے مواقع بڑھانے، پیداواری صلاحیت کو استعمال میں لانے اور معاشی پہیہ تیز کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔انہوں نے کہاکہ معیشت کو جمود سے نکالنے کے لیے فوری اور جرات مندانہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔احمد چنائے نے کہاکہ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ذمہ داری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ مالیاتی پالیسی میں سود کی شرح کو کم کرے تاکہ پاکستان کی معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہو اور عوام کو ریلیف میسر آئے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مالیاتی پالیسی انہوں نے کہاکہ
پڑھیں:
مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سے آئینی ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈلاک ختم کرنا ہے۔
’وی نیوز‘ نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے کون سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ سے متعلق مجوزہ حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا اور کہاکہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے جو ماضی میں ختم کیے جا چکے تھے۔
انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔
حسن رضا پاشا نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی تقرری، تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں پہلے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہی کسی جج کا تبادلہ یا تقرری ممکن ہے۔
’اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ججز کے تبادلوں کے چند معاملات، جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو لاہور ہائیکورٹ میں بھیجنے اور دیگر صوبوں سے ججز کی تعیناتی کے فیصلے پہلے ہی بار اور عدلیہ کے درمیان بحث کا باعث بنے ہیں، ایسے میں کسی بھی ترمیم سے مزید تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔
حسن رضا پاشا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ دیگر سرکاری محکموں کی طرح ایک معمول کی انتظامی کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن عدلیہ کے حساس کردار کے پیش نظر اس میں شفافیت، میرٹ اور جج کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔
انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔
ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیاکہ اگر ججوں کی رضامندی کا اصول ختم کر دیا گیا تو عدلیہ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو سیاست یا انتقامی عمل سے دور رکھا جائے، کیونکہ یہ ادارہ ریاست کا ستون ہے اور اس کی غیرجانبداری ہی جمہوریت اور انصاف کے نظام کی بنیاد ہے۔
سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی بیان کردہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کا اختیار اور آرٹیکل 243 میں ترمیم جیسی تجاویز شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینا ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
عمران شفیق نے کہاکہ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دباؤ پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔
مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہاکہ آئین میں کسی بھی ترمیم کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہونا چاہیے، ان کی حدود کمزور کرنا نہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ آئینی ہو سکتا ہے، نہ جمہوری۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم پیپلز پارٹی حسن رضا پاشا حکومت پاکستان مشاورتی عمل وی نیوز