Express News:
2025-06-16@03:55:10 GMT

شانِ سیّدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

نبی کریم ﷺ نے فر مایا، مفہوم: ’’میں اس شخص (عثمان بن عفانؓ) سے حیا کیوں نہ کروں، اﷲ کی قسم ! جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار عثمانؓ ہیں۔‘‘ (ترمذی)

سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ؓسے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تو سیدنا عثمانؓ ایک ہزار دینار لائے، اور آپؐ کی جھولی میں ڈال دیے تو میں نے دیکھا رسول اﷲ ﷺ انہیں جھولی میں اُلٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے، مفہوم:

’’آج کے بعد عثمانؓ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی)

سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس کے لیے دروازہ کھول دو، اور جنّت کی خوش خبری دے دو۔ اور یہ بھی بتا دو کہ انہیں ایک مصیبت اور آزمائش پہنچے گی۔‘‘ میں نے دیکھا کہ وہ عثمانؓ تھے، میں نے انہیں بتا دیا۔ پھر عثمانؓ نے اﷲ کی حمد بیان کی، اور کہا اﷲ مدد کرے گا۔ ‘‘ (بخاری)

سیدنا عثمان ؓاپنی بیوی اور نبی اکرم ﷺ کی بیٹی سیّدہ رقیہؓ کی شدید بیماری کی وجہ اور آپ ﷺ کے حکم سے غزوۂ بدر میں شامل نہ ہوسکے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے لیے بدر میں حاضر ہونے والے آدمی کے برابر اجر اور مال غنیمت ہے۔‘‘ (بخاری)

سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’میرے بعد تم فتنے اور اختلاف میں مبتلا ہوجاؤ گے۔‘‘ کسی نے پوچھا: یا رسول اﷲ ﷺ! پھر ہم کیا کریں؟ آپؐ نے عثمانؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’تم اس میں عثمانؓ اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑلینا۔‘‘ (مسند احمد)

سیدنا مرہ بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے بعد کے فتنوں کا ذکر کیا۔ اتنے میں ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے وہاں سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شخص اس دن ہدایت پر ہوگا۔‘‘ میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ عثمان بن عفانؓ تھے۔ (ترمذی)

بیعتِ رضوان کے موقع پر جب کفار نے سیدنا عثمانؓ کو روک لیا تھا، تو سیدنا و محبوبنا نبی کریم ﷺ نے بیعتِ رضوان لی۔ آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘ اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: ’’یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔‘‘ (بخاری)

رسول اﷲ ﷺ نے عثمانؓ سے فرمایا تھا، مفہوم: ’’اے عثمان! عن قریب اﷲ عز و جل تجھے ایک قمیص (خلافت کی) پہنائے گا۔ پس اگر اسے اُتارنے کے لیے تیرے پاس منافقین آجائیں تو میری ملاقات ( اپنی وفات و شہادت) تک اسے نہ اُتارنا۔‘‘ ( مسند احمد )

جب سیّدنا عثمان ؓنے اپنی اہلیہ سیّدہ رقیہؓ بنت رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ہجرت حبشہ کی، تو ایک موقع نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ ان دونوں کی حفاظت فرمائے، عثمان لوط اور ابراہیم علیہما السلام کے بعد پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ ‘‘ (مستدرک حاکم )

سیدہ رقیہؓ کی وفات کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیدہ ام کلثومؓ کی شادی عثمان ؓسے کردی۔ سیدہ ام کلثومؓ کی وفات پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی عثمان سے بیاہ دیتا۔‘‘

(مجمع الزوائد)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنّت میں عثمان ہیں۔‘‘ (ترمذی)

حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اوّل شب سے طلوع فجر تک آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے یہ دعا فرماتے رہے، مفہوم : ’’اے اﷲ! میں عثمان سے خوش ہوں تُو بھی اس سے خوش رہ۔‘‘ ( البدایہ و النہایہ )

ایک طویل روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ ام کلثومؓ سے فرمایا، مفہوم: ’’بیٹی! تیرا شوہر عثمان تو وہ ہے جس سے اﷲ اور اﷲ کا رسولؐ محبت کرتے ہیں ، اور وہ بھی اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ( البدایہ و النہایہ )

عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر ؓجنّت میں ہے اور عمرؓ جنّت میں ہے اور عثمانؓ جنّت میں ہے اور علی ؓجنّت میں ہے اور زبیرؓ جنّت میں ہے اور عبدالرحمن بن عوفؓ جنّت میں ہے اور سعد بن ابی وقاص ؓجنّت میں ہے اور طلحہؓ جنّت میں ہے اور سعید بن زیدؓ جنّت میں ہے اور ابوعبیدہ بن الجراح ؓ جنّت میں ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جن ت میں ہے اور رسول اﷲ ﷺ نے ﷺ نے فرمایا نے اپنی اکرم ﷺ

پڑھیں:

حضرت عثمان غنی  ؓپیکرِ ایثار و سخاوت

حضرت عثمان غنیؓ کے حق میں قرآن مجید کی آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں۔ جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب مدینہ منورہ میں سخت قحط تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے، یہاں تک کہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ اسی لیے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ یعنی تنگ دستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔

ترمذی شریف میں حضرت عبد الرحمٰن بن خباّبؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا، جب آپؐ جیش عسُرہ کی مد د کے لیے لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ آپ ﷺ کا پُرجوش خطاب سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں سو اونٹ سامان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں پیش کروں گا۔

اس کے بعد پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لیے متوجہ فرمایا تو پھر حضرت عثمان غنیؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں دو سو اونٹ مع ساز و سامان اﷲ کی راہ میں نذر کروں گا۔

اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ نے سامان جنگ کی فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت دلائی، پھر حضرت عثمان غنی ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں تین سو اونٹ سامان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں حاضر کروں گا۔ حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمٰن بن خبابؓ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اُترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے یعنی ایک ہی جملے کو حضور سید عالم ﷺ نے دو بار فرمایا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے: ’’اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے۔‘‘

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپؓ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓ جیش عُسرہ کی تیاری کے زمانے میں ایک ہزار دینار اپنے کُرتے کی آستین میں بھر کر لائے (دینا ر ساڑھے چار ماشے سونے کا سکہ ہوتا ہے) ان دیناروں کو آپؓ نے رسول مقبول ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔

راوی حدیث حضرت عبدالرحمٰنؓ بن سمرہ فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ان دیناروں کو اپنی گود میں اُلٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ’’آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ سرکار اقدس ﷺ نے ان کے بارے میں اس جملے کو دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ اگر حضرت عثمان غنیؓ سے کوئی خطا واقع ہوتو آج کا ان کا یہ عمل ان کی خطا کے لیے کفارہ بن جائے گا۔(مشکوٰۃ شریف)

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ جب حضرت عثمان غنیؓ نے جیش عُسرہ کی اس طرح مد د فرمائی کہ ایک ہزار اونٹ ساز و سامان کے ساتھ پیش فرمائے اور ایک ہزار دینار بھی چندہ دیا۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے صدقہ کے چار ہزار درہم بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کیے تو ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، مفہوم:

’’جو لوگ کہ اپنے مال کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر دینے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں، تو ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ ان پر کو ئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ
  • حضرت عثمان غنی  ؓپیکرِ ایثار و سخاوت
  • دُور اندیش، وفا شعار، مجسم سخاوت ؛ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ؓ کی مظلومانہ شہادت
  • خلیفہ سوم عثمانؓنے دین اسلام کیلیے اپنی دولت بے دریغ استعمال کی
  • ڈاکٹر عبدالقدیر اور رانا ثنا اللہ کی ناپاک پنجابیت
  • گستاخانہ بزنس اور حب رسول ﷺ