Jasarat News:
2025-08-01@11:56:26 GMT

سندھ کا بجٹ 2025-26

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ پاکستان کا انتظامی لحاظ سے بدترین صوبہ ہے، یہاں سڑکوں سے اسپتالوں اور اسکولوں تک صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے پیش کیا گیا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ بظاہر اعداد و شمار کی چمک دمک سے مزین ہے، لیکن حقیقت میں یہ بجٹ عوامی امنگوں سے کوسوں دور، مخصوص طبقات کو خوش کرنے اور دکھاوے پر مبنی ایک روایتی مشق ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صرف اخباری خبروں تک محدود رہے گا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بجٹ میں تعلیم، صحت، پنشن، ترقیاتی منصوبوں، اور فلاحی اسکیموں کا خوب چرچا کیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 12.

4 فی صد اضافے کا اعلان ضرور کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری، بچوں کی شرح خواندگی اور انفرا اسٹرکچر کی حالت بہتر ہوئی؟ کیا یہ فنڈز بھی سابقہ ادوار کی طرح کرپشن اور اقربا پروری کی نذر نہیں ہو جائیں گے؟ اسی طرح صحت کے لیے 326 ارب روپے رکھنا بظاہر خوش آئند ہے، مگر جب اسپتالوں میں ایک بستر پر دو مریض لیٹے ہوں، اور دور دراز علاقوں میں بنیادی طبی سہولت تک میسر نہ ہو تو یہ اعلانات محض اعداد وشمار کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ کراچی، جو ملک کا معاشی دارالحکومت ہے اور سندھ کے بجٹ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، ایک بار پھر نظرانداز ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ ’’یہ بجٹ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے‘‘۔ کراچی کے لیے کوئی بڑا میگا پروجیکٹ شامل نہ کرنا، K-4 جیسے پانی کے منصوبے کو پھر سے نظر انداز کرنا، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا صرف ذکر کرنا، سب حکومتی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناانصافی کراچی کے ساتھ برسوں سے جاری ہے، اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ تینوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ پیپلز پارٹی جو پچھلے کئی عشروں سے سندھ میں اقتدار پر قابض ہے، اس نے قبضہ کرکے اور یرغمال بنا کر عوام کو صرف غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور کرپشن کا تحفہ دیا ہے۔ دیہی سندھ میں زرعی معیشت کو تباہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو کبھی وقت پر پانی ملا، نہ کھاد اور نہ ہی ان کی پیداوار کی قیمت۔ شہری سندھ، بالخصوص کراچی، جس سے حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس ملتا ہے، مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی حالت زار، سیوریج کا نظام، سڑکوں کی تباہی، کچرے کا ڈھیر، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کو جان بوجھ کر تنہا چھوڑا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی فنڈز کے استعمال نے کراچی کے نوجوانوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اقتدار میں آ کر صرف اپنے قریبی حلقے کو نوازا گیا، یہ طرزِ حکمرانی سراسر استحصالی ہے جس کا خمیازہ سندھ کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ بجٹ میں 4400 اساتذہ اور عملے کی بھرتی کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس میں میرٹ اور شفافیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہاں لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں اس سے قبل کے برسوں کے بجٹ کا کیا ہوا اور کون سی تبدیلی عوام کو دیکھنے کو ملی ہے۔ ترقیاتی منصوبے 520 ارب روپے تک محدود کیے گئے، جو کہ سندھ جیسے پسماندہ صوبے کے لیے نہایت ناکافی ہیں، خاص طور پر جب ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور وزراء کی مراعات پر خرچ ہو رہے ہوں۔ حکومت کی جانب سے 5 محصولات ختم کرنے اور کسانوں کو سبسڈی دینے جیسے اقدامات کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن ان اقدامات کے عملی اطلاق پر شدید سوالات موجود ہیں۔ سابقہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اقدامات بھی نعرے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت پر تنقید کر رہی ہے، وہی وفاقی حکومت میں شامل ہوکر وفاقی بجٹ کا دفاع کرتی ہے جس میں کراچی کو بھی مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اس دوغلی سیاست سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ بجٹ سندھ کے متوسط اور غریب طبقے کے لیے کسی ریلیف کا باعث نہیں، بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کا تسلسل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسے بنیادی مسائل بدستور حل طلب ہیں، اور حکومت ان پر سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سندھ کے عوام اس بجٹ کے دھوکے کو پہچانیں، اور اپنے حق کے لیے مزاحمت کریں اور اپنی طاقت سے ایسی حکمرانی کو مسترد کریں جو صرف اپنے مفادات کی نگہبان ہو، نہ کہ عوام کی خیرخواہ ہو۔

 

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کراچی کے کیا گیا سندھ کے کے لیے

پڑھیں:

سندھ اسمبلی : سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کی زائد بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف قرارداد منظور

کراچی:

سندھ اسمبلی نے نیپرا کی جانب سے کراچی کے بجلی صارفین پر 50 ارب کا بوجھ ڈالنے کی منظوری کے خلاف اور نیپرا، سیپکو، حیسکو، کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ اور زائد بلنگ  کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ارکان ہیرسوہو، عامرصدیقی اور شبیرقریشی نے سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کے خلاف قراداد ایوان میں پیش کی۔

ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے قرارداد پر کہا کہ کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے کراچی کے عوام پر 50 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا نیپرا یہ فیصلہ واپس لے، نیپرا نے 18 جولائی کو حکم نکالا یہ کراچی کے کاروبار کو ختم کرنے کی سازش ہے، ہماری صنعتیں دیگر صوبوں میں منتقل ہو رہی ہیں، کے الیکٹرک کی اپنی نااہلی ہے، بجلی چوری کے 50 ارب روپے کراچی کے شہریوں سے وصول کیے جا رہے ہیں، آئین میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ اجتماعی سزائیں دی جائیں، کے الیکٹرک اپنے لائن لاسز کی سزا پورے شہر کے عوام سے وصول کررہی ہے، اس قراداد کو متفقہ طور پر منظور کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے رکن شبیر قریشی نے کہا کہ کے الیکٹرک اور حیسکو پوری قوم کو قرض دار بنا رہی ہیں، عوام کو سہولت دی جائے پہلے 300 یونٹ کے بعد ریٹ تبدیل ہوتے تھے اب 199 یونٹ سے ایک یونٹ بھی بڑھتا ہے تو 10 ہزار روپے کا بل آتا ہے، پُر زور مطالبہ کرتا ہوں کہ کم سے کم یونٹس کی حد 300 رکھی جائے، نیپرا کو پابند کیا جائے کہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں لے کر آئیں، 200 یونٹ کے بعد اضافی بل کو ختم کیا جائے، کم سے کم حد 300 یونٹ مقرر کی جائے۔

پیپلز پارٹی کے رکن آصف موسی نے کہا کہ آج جو قرارداد ایوان میں پیش کی وہ اہم ہے نیپرا کی جانب سے 200 یونٹ والا سلیب ختم کیا جائے، غریب آدمی 200 یونٹ استعمال کرتا ہے، 201 یونٹ ہوجاتے ہیں وہ غریب کے دسترس سے زیادہ ہے، بلدیہ ٹاؤن میں 12 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی، کے الیکٹرک کے نمائندوں کو اسمبلی میں بلایا کوئی فرق نہیں پڑا، پچھلی بار میٹنگ بلائی تھی کے الیکٹرک کے لیے سزا اور جزا کا عمل ہونا چاہیے، نیپرا میں سندھ حکومت یا کراچی کا کوئی نمائندہ نہیں ہے، یہ ایوان 200 یونٹ کی پالیسی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، حکومت سندھ وفاقی حکومت سے رابطہ کرے 200 یونٹ کی حد کو بڑھایا جائے۔

ہیر سوہو نے کہا کہ حیسکو اور سیپکو کی لوڈ شیڈنگ کی کوئی حد نہیں، دو گھنٹے بجلی ہوتی ہے چار گھنٹے نہیں ہوتی۔

پیپلز پارٹی کے رکن جمیل سومرو نے کہا کہ بجلی کی کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے، کسی علاقے میں ایک بندہ بھی بجلی چوری کرے تو پی ایم ٹی اٹھا کر لے جاتے ہیں، لاڑکانہ شہر میں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہے، عام شہریوں نے سولر لگانا شروع کردیا ہے، 49 ڈگری گرمی میں بجلی نہیں تو لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے، ہماری تقاریر کا کوئی اثر نہیں ہوتا بجلی کمپنیاں شتر بے مہار ہیں، لاہور میں کتنی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور کراچی میں کتنی ہوتی ہے، ہم قراداد پاس تو کرتے ہیں اس کی ویلیو نہیں ہے ہم خالی تقریریں کرنے آئے ہیں کیا؟ ایوان سے گزارش ہے کہ کمیٹی بلا کر ان کو بلائیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن خرم سومرو نے کہا کہ الیکٹرک کمپنیوں کو اسمبلی میں بلایا گیا وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے، کے الیکٹرک اور واپڈا کے خلاف قانون بنایا جائے، قراداد منظور کی جائے قانون سازی بھی کی جائے۔

ایم کیو ایم کے رکن نجم مرزا نے کہا کہ نیپرا نے حالیہ دنوں میں ایک فیصلہ جاری کیا ہے سندھ کے شہریوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، کراچی کے شہریوں سے زبردستی 50 ارب روپے وصول کیے جارہے ہیں، لائین لاسز کا بہانہ ہے جبکہ اضافی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، نشانہ وہ صارفین بن رہے ہیں جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں نیپرا یہ حکم فوری واپس لے۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد اویس نے کہا کہ دس گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ غیر قانونی ہے، کے الیکٹرک قانون توڑ رہی ہے، آج یہ قانون پاس کریں کہ کے الیکٹرک کے جنرل مینیجر کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ کے الیکٹرک عملہ خود بجلی چوری کرواتا ہے۔

وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ ہر بار اسمبلی میں یہ قراداد آتی ہے کے الیکٹرک حیسکو سیپکو کے کان پر جوں نہیں رینگتی، اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے 50 سینٹی گریڈ گرمی میں بجلی نہیں ہوتی سندھ حکومت 4 لاکھ گھروں کو سولر دے رہی ہے یہ پاور کمپنیوں کو حل کی جانب آنا پڑے گا، اب نیپرا بول رہا ہے کہ کراچی کے شہریوں سے 50 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، پری پیڈ میٹر شروع کیے جائیں پری پیڈ میٹر بنانا کون سا مشکل ہے؟ اجتماعی سزا دی جا رہی جو ختم کی جائے پری پیڈ میٹر ہوگا ہر کوئی اپنے یونٹ استعمال کرے گا یونٹ ختم ہونے سے خود بجلی بند ہو جائے گی وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ سنجیدگی کے ساتھ سوچیں ڈیڑھ سو دو سو قراردادیں منظور ہو چکی ہیں کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا کہ یہ اسمبلی کی حرمت کے لیے سوالیہ نشان ہے اسمبلی کی قراداد کو اہمیت نہیں ملتی تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ وفاقی حکومت اور نیپرا سے مؤدبانہ گزارش ہے کراچی سے کشمور تک پورا سندھ پریشان ہے ہر شہری بجلی کے مسئلے کی شکایت کرتا ہے تمام جماعتوں کے ایم پی ایز کا ایک ہی مسئلہ ہے کراچی کے عوام سے کے الیکٹرک بھتہ لے رہی ہے یہ اسمبلی مطالبہ کر رہی ہے بھتہ وصول نہ کیا جائے تو وہ فیصلہ واپس ہونا چاہیے ہم اس قراداد کی حمایت کرتے ہیں۔

بعدازاں ایوان سے قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوگئی اور اجلاس جمعہ تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا، جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • کراچی: دنیا کا سب سے بڑا بغیر سلائی والا پاکستانی پرچم آج گورنر ہاؤس میں لہرایا جائے گا
  • وزیراعلی سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • وزیراعلیٰ سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • کراچی، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی ملاقات
  • ترجمان سندھ حکومت گنہور خان اسران کا ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن کے بیان پر ردعمل
  • پنجاب حکومت کا اشیا کی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے نئی وزارت تشکیل دینے کا فیصلہ
  • سندھ حکومت کا یوم آزادی پر گاڑی، دکان یا عمارت کی بہترین سجاوٹ پر انعام دینے کا اعلان
  • مزدوروں کی کم ازکم ماہانہ اجرت 40 ہزار روپے مقرر
  • سندھ اسمبلی : سیپکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کی زائد بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف قرارداد منظور