عمران خان سیاسی قیدی ہیں، رہائی کیلئے تحریک جاری رکھیں گے، وزیراعلیٰ پختونخوا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
وفد سے ملاقات میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بڑی سیاسی تحریک کے لئے ورکرز کو موبلائز کر رہے ہیں، اس مقصد کے لئے مقامی سطح پر جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں، عمران خان کے بیانیے نے عوامی مقبولیت حاصل کی ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ عمران خان سیاسی قیدی ہیں، انکی رہائی کے لئے سیاسی تحریک جاری رکھیں گے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے نو منتخب صدر کاظم خان کی قیادت میں کونسل کے وفد سے ملاقات میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بڑی سیاسی تحریک کے لئے ورکرز کو موبلائز کر رہے ہیں، اس مقصد کے لئے مقامی سطح پر جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں، عمران خان کے بیانیے نے عوامی مقبولیت حاصل کی ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سی پی این ای کے وفد نے وزیر اعلیٰ کو اگلے مالی سال کے لئے سرپلس بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ ملاقات میں مقامی اخبارات کو درپیش مسائل، اشتہارات کی مد میں واجبات کی ادائیگی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سے متعلق گفتگو کی گئی۔
علی امین گنڈاپور نے وفد کو بتایا کہ اشتہارات کی مد میں اخبارات کے بقایاجات کی ادائیگیوں کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں بھی اخبارات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، ہم بانی چیئرمین کے وژن کے مطابق آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ ملک میں آزادی صحافت اور اخباری صنعت کی ترقی میں سی پی این ای کا اہم کردار رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو خزانے میں صرف 18 دنوں کی تنخواہ کے پیسے تھے، ہم نے بہتر مالی نظم و ضبط اور موثر مانیٹرنگ کے ذریعے 250 ارب روپے اضافی آمدن پیدا کی، یہ رقم پہلے بھی سسٹم میں موجود تھی مگر ضائع ہو رہی تھی، صوبے کے اپنے محصولات 125 ارب روپے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور نے رہے ہیں نے کہا کے لئے
پڑھیں:
ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انقلاب صرف سوشل میڈیا پر “ٹک ٹک” کرنے سے نہیں آتے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو بانی پی ٹی آئی عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے۔
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گنڈاپور نے کہا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کی بدولت ہم نے جس مقصد کا تعین کیا تھا، وہ حاصل کیا، اور قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملنا اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ہدف عمران خان نے دیا تھا اور وہ خود 4 اکتوبر کو پشاور سے نکل کر 5 اکتوبر کو ہدف حاصل کرکے واپس آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ سوشل میڈیا پر ہر وقت باتیں کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، لیکن آزادی کی جنگ وی لاگز اور جعلی اکاؤنٹس سے نہیں لڑی جاتی۔ سچ یہ ہے کہ ووٹ پولنگ بوتھ پر جا کر ڈالے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر نہیں۔
سیاست سڑکوں پر ہوتی ہے، نہ کہ فون کی اسکرین پر
علی امین کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ میں ملا ہوا ہوں، میرے خلاف خود میری پارٹی کے اندر باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جو لوگ پارٹی کو تقسیم کر رہے ہیں، وہ میں نہیں ہوں۔” انہوں نے کارکنوں سے اپیل کی کہ گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں اور پارٹی کو اندر سے کمزور نہ کریں۔
جیل توڑنے سے انقلاب نہیں آتا
انہوں نے کہا کہ ملاقاتیں نہ دینے کی پالیسی جان بوجھ کر اپنائی گئی تاکہ کنفیوژن بڑھے اور قیادت کے درمیان فاصلے پیدا ہوں۔ “کیا میں جیل توڑ دوں؟ میں چاہوں تو جیل جا سکتا ہوں، لیکن جیل توڑنے سے کیا حاصل ہوگا؟ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “حکومت نہ شہباز شریف کی ہے، نہ مریم کی۔ اصل اختیار کہیں اور ہے۔
سیلاب میں سب کچھ بہہ گیا، لیکن وفاق نے کوئی مدد نہیں کی
علی امین گنڈاپور نے سیلابی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں حالات مختلف تھے، پہاڑی تودے، مٹی اور پانی نے بستیاں بہا دیں۔ “اب تک 400 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، لیکن وفاق نے نہ کوئی وعدہ نبھایا اور نہ مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صرف زبانی دعوے کیے، فارم 47 کے ایم این ایز تو گھومتے رہے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ “ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں، نہ ہم اس پر سیاست کرتے ہیں۔
انقلاب انگلیاں چلانے سے نہیں آتا
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انقلاب گھر بیٹھ کر موبائل چلانے سے نہیں آتا، ہمیں عوام کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کو چیلنج کرنا ہوگا۔” ان کا کہنا تھا کہ “5 اور 14 اگست کے جلسوں میں کتنے لوگ نکلے؟ صرف سوشل میڈیا پر باتیں ہوتی رہیں۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کی حرکت سے گھوڑے دوڑانے کا طریقہ بھی بتایا، جس پر موجود پی ٹی آئی اراکین ہنسنے لگے۔
ہمیں تو ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتے
علی امین گنڈاپور نے شکایت کی کہ حکومت ان سے ملاقات تک کرنے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ بجٹ اور مائننگ بل جیسی اہم قانون سازی کے وقت بھی رابطے نہیں کیے گئے۔ “ہر ملاقات کے باہر سیکیورٹی کھڑی کر دی جاتی ہے، تاکہ کوئی بات نہ ہو۔