Daily Sub News:
2025-09-17@23:47:16 GMT

تاریخ اور تلخیاں

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

تاریخ اور تلخیاں

تاریخ اور تلخیاں WhatsAppFacebookTwitter 0 18 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عاصم قدیر رانا

: ’’روزویلٹ ہوٹل کی فروخت: تاریخی ورثہ یا قومی بے نیازی؟‘‘

نیویارک کے قلب میں واقع “روزویلٹ ہوٹل” پاکستان کا نہ صرف ایک قیمتی غیر ملکی اثاثہ ہے بلکہ قومی وقار، تاریخ اور سفارتی وجود کی جیتی جاگتی علامت بھی ہے۔ آج جب پاکستان شدید مالی دباؤ، قرضوں کی بھرمار اور زرمبادلہ کی قلت جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے، تو حکومت کی جانب سے اس قیمتی اثاثے کی فروخت یا نجکاری پر غور کیا جا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روزویلٹ صرف ایک عمارت ہے؟ یا یہ وہ تاریخی حوالہ ہے جس سے ہماری سفارتی موجودگی، معاشی حکمت عملی اور قومی خودی جڑی ہے؟

روزویلٹ ہوٹل: ایک تاریخی جھلک
• قیام: 1924 میں قائم ہوا، مین ہیٹن کی 45ویں اسٹریٹ اور میڈیسن ایوینیو پر واقع
• پاکستانی ملکیت: پی آئی اے نے 1979 میں مکمل طور پر خرید لیا۔ اس وقت اس کی مالیت تقریباً $35 ملین تھی
• کمروں کی تعداد: 1,015
• قومی سرمایہ کاری: اس ہوٹل کو خریدنا اُس وقت ایک قابل فخر قومی فیصلہ سمجھا گیا، جس نے پاکستان کو نیویارک کے معاشی اور سفارتی مرکز میں ایک مستقل وجود عطا کیا

سیاسی شخصیات کا قیام: یادگار لمحات

روزویلٹ ہوٹل کی راہداریوں نے پاکستان کے کئی اہم ترین سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے قدموں کے نشان محفوظ رکھے ہیں:
• ذوالفقار علی بھٹو: اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران یہی ہوٹل ان کی قیام گاہ تھا، اور بعض تاریخی سفارتی ملاقاتیں یہیں ہوئیں
• محترمہ بینظیر بھٹو: نیویارک میں خواتین کانفرنسوں اور عالمی اجلاسوں کے دوران انہوں نے یہاں قیام کیا
• نواز شریف: اپنے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ہمیشہ روزویلٹ کو قیام کے لیے منتخب کیا
• جنرل پرویز مشرف: بطور صدر کئی بار روزویلٹ ہوٹل سے اقوام متحدہ گئے، کئی عالمی صحافیوں کو انٹرویوز بھی اسی ہوٹل میں دیے
• عمران خان: بطور وزیر اعظم 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے دوران بھی روزویلٹ میں قیام کیا، اور ان کے اسٹے کو میڈیا نے نمایاں کوریج دی
• وزرائے خارجہ، دفاعی وفود، سفارتی مشن: ہر سال سینکڑوں حکومتی اور ریاستی شخصیات اسی ہوٹل کو سرکاری طور پر استعمال کرتی رہیں

کرایہ، آمدنی اور حالیہ لیز معاہدہ
• 2020 میں بند: کورونا وبا کے باعث مستقل آپریشنز بند کر دیے گئے
• 2023 سے کرایہ پر اقوام متحدہ مشن کو لیز:
• مدت: کم از کم 3 سال (2023-2026)
• ماہانہ آمدنی: تقریباً $2 ملین
• کل آمدنی: متوقع $36-40 ملین
• منافع: اخراجات نکال کر بھی اچھی خاصی خالص آمدنی حاصل ہو رہی ہے

فروخت یا خودکفالت؟

حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہوٹل کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہے جو موجودہ مالی حالات میں ممکن نہیں۔ اسی بنا پر نجکاری یا جزوی فروخت کے آپشن پر غور ہو رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے:

کیا حکومت نے کبھی سنجیدگی سے روزویلٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کاروباری ماڈل پیش کیا؟ کیا روزویلٹ کو مقامی یا عالمی کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں دینے کی کوشش کی گئی؟ کیا پاکستانی ڈاسپورا کو اس اثاثے کے تحفظ میں شامل کیا گیا؟

ممکنہ فروخت کے نقصانات
• قومی وقار میں کمی: نیویارک میں پاکستانی پرچم کی موجودگی ختم ہو جائے گی
• مستقل آمدنی کا ذریعہ ختم: فوری رقم تو حاصل ہوگی، لیکن مستقل آمدنی کا سلسلہ بند
• سیاسی دباؤ: یہ تاثر ابھرے گا کہ پاکستان اپنی مالی نااہلی کے سبب اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور ہے
• حکومتی کاروباری ناکامی کا اعتراف: یہ فروخت ریاستی انتظامی نااہلی کا ثبوت بنے گی

متبادل حل: فروخت کے بغیر آمدنی
• ری نوویشن اور ریلانچ: بین الاقوامی ہوٹل چینز (مثلاً Marriott, Hilton) سے شراکت
• سفارتی مرکز: اسے مستقل پاکستانی سفارتی و کلچرل سینٹر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
• ڈائسپورا انویسٹمنٹ بانڈز: بیرون ملک پاکستانیوں سے اس ہوٹل کی بحالی کے لیے بانڈز کے ذریعے سرمایہ حاصل کیا جا سکتا ہے
• ٹریڈ اینڈ بزنس سینٹر: اسے پاکستانی برآمدات، اسٹارٹ اپس اور انویسٹمنٹ پروموشن کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
روزویلٹ ہوٹل صرف اینٹوں، کمروں اور کرایے کی ایک عمارت نہیں، یہ پاکستانی خودمختاری، وقار اور ریاستی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی فروخت فوری فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر طویل المیعاد قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم فائدوں کے بجائے قومی تشخص اور مالی خود کفالت پر مبنی طویل مدتی حکمت عملی اپنائے۔

ہمیں وہ قیادت درکار ہے جو اثاثے بیچے نہیں، انہیں بہتر انداز میں چلا کر اگلی نسلوں کے لیے محفوظ بنائے

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمودی نے ٹرمپ سے کہا ہے بھارت پاکستان سے تنازع پر کبھی ثالثی قبول نہیں کریگا، وکرم مسری دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

طوطے پالنے اور خرید و فروخت کے لیے نیا قانونی مسودہ تیار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے طوطے (Parrot) پالنے اور ان کی خرید و فروخت کے حوالے سے نیا قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے، جسے منظوری کے لیے پنجاب کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اس مسودے کا مقصد پرندوں کے غیر قانونی کاروبار کو روکنا اور ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کے ذریعے بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق مسودے  میں کہا گیاہےکہ اب گھروں میں پالے جانے والے مختلف اقسام کے طوطے رجسٹریشن کے دائرے میں آئیں گے۔ ان میں خاص طور پر الیگزینڈرائن، روز رنگڈ، سلیٹی ہیڈڈ اور پلم ہیڈڈ طوطے شامل ہیں، ان اقسام کو وائلڈ لائف کے دوسرے شیڈول میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کی افزائش اور خرید و فروخت کو منظم کیا جا سکے۔

نئے قانون کے تحت ہر طوطے کی رجسٹریشن کے لیے ایک ہزار روپے فیس مقرر کی گئی ہے،  اس کے ساتھ ہی طوطے پالنے والوں کے لیے چھوٹے اور بڑے بریڈرز کی کیٹیگری بھی بنائی گئی ہے تاکہ شوقیہ افراد اور تجارتی پیمانے پر بریڈنگ کرنے والوں میں فرق رکھا جا سکے۔

مزید یہ کہ طوطے اب صرف لائسنس یافتہ ڈیلرز کو ہی فروخت کیے جا سکیں گے۔ اس اقدام کا مقصد بلیک مارکیٹ اور غیر قانونی خرید و فروخت کو روکنا ہے۔ وائلڈ لائف حکام کے مطابق طوطوں کی غیر قانونی تجارت نہ صرف ان کی بقا کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس سے جنگلی حیات کے توازن پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف کے ایک افسر نے بتایا کہ حکومت اس قانون کے ذریعے لوگوں کو قانونی دائرے میں لا کر ان کے شوق کو بھی محفوظ بنانا چاہتی ہے اور پرندوں کی نسلوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا مقصود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد رجسٹریشن نہ کروانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔

خیال رہےکہ  یہ اقدام پاکستان میں پہلی بار پرندوں کی باقاعدہ نگرانی اور تحفظ کی سمت میں اہم پیش رفت ہے،  توقع ہے کہ اس قانون سے نایاب اقسام کے طوطوں کو بچانے اور ان کی آبادی کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔

متعلقہ مضامین

  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • ایشیا کپ: پی سی بی اور آئی سی سی میں ڈیڈ لاک ختم، قومی ٹیم اسٹیڈیم روانہ
  • ایشیاکپ: پاکستان کرکٹ ٹیم کی ہوٹل سے اسٹیڈیم روانگی روک دی گئی،اعلی سطح مشاورت جاری
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • بھارت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ، دو قومی نظریئے کی اہمیت مزید بڑھ گئی: عطا تارڑ
  • طوطے پالنے اور فروخت کے لیے رجسٹریشن لازمی، نیا قانونی مسودہ تیار
  • طوطے پالنے اور خرید و فروخت کے لیے نیا قانونی مسودہ تیار
  • سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
  •  ملکی تاریخ کی پہلی قومی انسداد سرویکل کینسر مہم کا آغاز
  • وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی