رازدارِ رسول ﷺ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نبی کریمؐ کے تمام صحابہ معزز، محترم اور قابلِ تعظیم ہیں، قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں ان کے بے شمار فضائل ومناقب وارد ہوئے ہیں، اسلام کے لیے انھوں نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا تصور کرنا بھی مشکل ہے؛ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بعض صحابہ کرامؓ کے خاص مناقب اور اوصاف تھے جو دوسروں میں نہیں تھے۔ یقیناً ان صحابہ کا تذکرہ کرنا اور امت کے سامنے ان کا اوصاف اجاگر کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت اور ہماری ذمے داری ہے؛ اس لیے ذیل میں ان جلیل القدر صحابہ میں سے ایک ایسے صحابی کا تذکرہ کریں گے جنھیں نبیؐ کے رازدار ہونے کا شرف حاصل ہے اور وہ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ ہیں۔
نام ونسب
ان کا مکمل نام ’’حذیفہ بن حسل بن جابر‘‘ ہے، ان کے والد کا اصل نام ’’حسل‘‘ تھا؛ لیکن وہ ’’یمان‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (الاستیعاب)
سیدنا حذیفہؓ کے والد کی شہادت
سیدنا حذیفہؓ کے والد اور والدہ دونوں صحابہ میں سے تھے۔ ان کے والد ’’یمان‘‘ کی شہادت غزوئہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ اس طرح کہ حذیفہؓ اور ان کے والد دونوں غزوہ احد میں شریک تھے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑ رہے تھے اور اس زمانے مین چونکہ خود وغیرہ پہن کر لڑتے تھے؛ اس لیے حذیفہؓ کے والد یمانؓ کو صحابہ پہچان نہ سکے اور ان پر حملہ کردیا، حذیفہؓ نے جب یہ دیکھا تو انھیں روکنے لگے؛ لیکن تب تک ان کے والد یمانؓ شہید ہوچکے تھے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے:
’’حذیفہ پکارنے لگے کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، میرے والد ہیں؛ لیکن لوگ نہیں رکے، یہاں تک کہ انھیں شہید کردیا‘‘۔
حذیفہؓ کی والدہ کی نبی اکرمؐ سے محبت
سیدنا حذیفہؓ کے والد کی طرح ان کی والدہ بھی جلیل القدر صحابیہ تھیں اور آپؐ سے بے انتہا محبت کرتی تھیں، اپنے بیٹے حذیفہؓ کو بھی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سختی سے تاکید کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ نبیؐ نے ان کے لیے دعا کی تھی۔
سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری والدہ نے پوچھا کہ تم رسولؐ کی خدمت میں کتنے دن بعد حاضر ہوتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اتنے دنوں سے میرا وہاں جانا نہیں ہوا، اس پر انھوں نے مجھے سخت ڈانٹا۔ (سنن الترمذی)
پھر حذیفہؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا بتایا، تو آپؐ نے حذیفہ اور ان کی والدہ دونوں کے لیے دعا کی۔
حذیفہؓ اور نبیؐ کا ایفائے عہد
حذیفہؓ اور ان کے والد غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں حضرات ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے انھیں روک لیا اور پوچھا کہ کیا تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم ان کے پاس نہیں؛ بلکہ صرف مدینے میں جانا چاہتے ہیں، تو کفار نے ان سے اللہ کا نام لے کر عہد وپیماں لیا کہ وہ مدینے جائیں اور نبیؐ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گے، پھر جب وہ دونوں رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا، توآپ نے ان سے فرمایا: ’’تم مدینے چلے جاؤ! ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالی سے مدد چاہیں گے‘‘۔ (صحیح مسلم)
اس واقعے سے اسلام میں ایفائے عہد کی اہمیت اور لزوم کا اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کا زمانہ ہے، مسلمانوں کو مجاہدین کی ضرورت بھی ہے اور دوسری طرف حملہ آور کفار سے کیا ہوا عہد ہے؛ لیکن پھر بھی نبیؐ نے ایفائے عہد کا حکم دیا اور دونوں صحابہ کو جنگ میں شریک ہونے سے روک دیا۔
مہاجر یا انصاری
سیدنا حذیفہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ رسولؐ نے ان کو ہجرت اور نصرت دونوں کا اختیار دیا۔ ایک روایت میں کہ نبیؐ ان سے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو مہاجرین میں سے ہو اور اگر چاہو تو انصار میں سے ہو، اس پر انھوں نے عرض کیا: انصار میں سے ہونا چاہتا ہوں، تو آپؐ نے فرمایا کہ تم انہی میں سے ہو‘‘۔ (المعارف لابن قتیبۃ الدینوری)
حذیفہ اور تعظیمِ رسولؐ
سیدنا حذیفہؓ نبیؐ کی بے انتہا تعظیم اور احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حالتِ جنابت میں صبح سویرے کہیں جارہے تھے کہ سامنے سے نبیؐ کو تشریف لاتے دیکھا تو ایک طرف کھسک گئے اور پھر غسل وغیرہ کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے اس بارے میں استفسار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ حالتِ جنابت میں تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس حالت میں نبیؐ کو چھوئیں، اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان ناپاک نہیں ہوتا‘‘۔ (سنن النسائی)
حذیفہؓ کا جنابت کی حالت میں آپؐ کا جسم چھونے سے گریز کرنا ان کے دل میں آپ کی بے انتہا عظمت واحترام کی دلیل ہے۔
سیدنا حذیفہؓ کے مناقب
سیدنا حذیفہؓ کے بہت سے خصائص ومناقب احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن میں سے بعض کچھ وضاحت کے ساتھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔
شرور اور فتن کے متعلق سوالات
صحابہ کرامؓ عام طور پر نبیؐ سے خیر، بھلائی اور نیکی سے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔ لیکن حذیفہؓ ان کے برعکس شر اور فتنوں وغیرہ سے متعلق سوالات کیا کرتے تھے تاکہ ان سے بچا جاسکے(بخاری)، اس لیے فتنوں، علاماتِ قیامت اور منافقین کے احوال سے متعلق احادیث کا اچھا خاصا ذخیرہ ان سے منقول ہے۔
جذبات سے مغلوب نہ ہونا
حذیفہؓ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ انھیں اپنے جذبات پر مکمل قابو تھا، کیسے بھی تکلیف دہ حالات ہوں، حذیفہؓ کبھی اپنے جوش وجذبے کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوئے، جیسا کہ درج ذیل دو واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔
1۔ان کے والد یمان کو ان کے سامنے شہید کیا گیا؛ لیکن ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا: ’’اللہ تعالی تمہیں بخشے‘‘۔ (صحیح البخاری)
حالانکہ ان کو اپنے والد سے بہت محبت تھی۔ عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! حذیفہ کو (اپنے والد کے اس طرح شہید ہونے پر) ہمیشہ غم رہا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی سے جاملے‘‘۔ (صحیح البخاری)
2۔نبیؐ نے حذیفہؓ کو غزوئہ خندق کے موقع پر مشرکینِ مکہ کے لشکر کی طرف جاسوس بنا کر بھیجا اور ان سے فرمایا: ’’جاکر ان کی خبر لے آؤ؛ لیکن انھیں مت اکسانا‘‘۔ (صحیح مسلم)
سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں مشرکینِ مکہ کے لشکر میں گیا، تو وہاں ابو سفیان سامنے بیٹھا تھا، میں نے ترکش سے تیز نکال کر اس کو مارنا چاہا؛ لیکن مجھے نبیؐ کا فرمان یاد آگیا؛ اس لیے میں کچھ کیے بغیر واپس آگیا، اگر میں اس کو تیر مارتا تو یقیناً اس کو لگتا۔
رازدار رسولؐ
سیدنا حذیفہؓ میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو کسی کو رازدار بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور ان میں بالخصوص اپنے جوش وجذبات پر قابو رکھنا ہے۔ انہی خدادا صلاحیتوں کی بنا پر نبیؐ نے انھیں اپنے رازدار بنانے کا شرف بخشا اور فتنوں، منافقین کے ناموں اور ان کے احوال سے متعلق پوری تفصیل سے آگاہ کیا۔ (أسد الغابۃ)
انتقال پُر ملال
نبیؐ کے اس رازدار صحابی کا انتقال محرم الحرام، سن 36ھ کو شہر مدائن میں ہوا۔ (الاستیعاب
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی خدمت میں حاضر سیدنا حذیفہ ان کے والد اور ان کے میں سے ہو انھوں نے کے لیے اس لیے
پڑھیں:
کراچی: ملزم کے والد پولیس اہلکار کے قتل کا الزام مقتول سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام پر عائد تھا
—سینئر وکیل پر مسجد میں فائرنگ کا منظر، چھوٹی تصویر مقتل خواجہ شمس الاسلام کی ہے—ویڈیو گریب/فائل فوٹوکراچی کے علاقے ڈیفنس میں سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل کے ملزم عمران آفریدی سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ اس کا والد نبی گل سندھ پولیس کا اہلکار تھا۔
تفتیشی حکام کے مطابق نبی گل سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کی سیکیورٹی پر تعینات تھا، 2021ء میں تھانہ بوٹ بیس کی حدود سے نبی گل کو اغواء کر لیا گیا تھا۔
تفتیشی حکام نے بتایا ہے کہ اغواء کے چند روز بعد نبی گل کی لاش ٹھٹہ سے ملی تھی۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ نبی گل کے اہلِ خانہ نے اس کے قتل کا الزام خواجہ شمس الاسلام سمیت 2 افراد پر عائد کیا تھا، لیکن تفتیش میں خواجہ شمس الاسلام سمیت دونوں افراد پر قتل کا الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 6 میں سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام پر فائرنگ کی سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے آ گئی۔
واضح رہے کہ آج ڈی ایچ اے فیز 6 میں فائرنگ سے سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو قتل اور بیٹے کو شدید زخمی کر دیا گیا تھا۔
خواجہ شمس الاسلام ڈی ایچ اے فیز 6 میں ایک جنازے میں شرکت کے لیے بیٹے کے ہمراہ آئے تھے کہ قمیض شلوار پہنے مسلح ملزم نے ان پر فائرنگ کی اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا۔
خواجہ شمس الاسلام 30 سال سے زائد سے شعبہ وکالت سے منسلک تھے، ان پر نومبر 2024ء میں بھی ڈیفنس میں حملہ ہوا تھا جس میں ان کے ہاتھ پر گولی لگی تھی۔
پولیس حکام کے مطابق سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل کے ملزم کی شناخت عمران خان آفریدی کے نام سے ہوئی ہے۔
ملزم کے 2 رشتے داروں کو گلشنِ سکندر آباد سے حراست میں لیا گیا ہے، جن سے ملزم کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے، واقعے میں ملوث ملزم عمران آفریدی مفرور ہے، جس کی تلاش جاری ہے۔