بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت میں بڑھتی خلیج، سنگین اندرونی خلفشار بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ممتاز بھارتی تجزیہ نگار سمت گنگولی کے مطابق سمت گنگولی کے مطابق بھارت میں سول و عسکری قیادت کے درمیان وہ واضح سرحدیں اب مدہم ہو چکی ہیں جو کسی بھی قومی بحران کے وقت فیصلہ سازی اور حکمتِ عملی کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔
19 جون 2025 کو جریدہ ’فارن پالیسی‘ میں شائع ہونے والی بھارتی امور کے سمت گنگولی کی رپورٹ میں بھارت کی سول اور عسکری قیادت کے درمیان شدید عدم ہم آہنگی پر ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول اور ایئر چیف کے مابین ناخوشگوار جملوں کا تبادلہ
یہ اختلافات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نئی دہلی اس وقت صرف دفاعی محاذ پر ہی نہیں، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی بحران کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے حالیہ پاک بھارت جھڑپ کے دوران بھارتی فضائیہ کو ہونے والے نقصانات کا اعتراف بھارت میں نہیں بلکہ بیرون ملک ایک فورم پر کیا، جو کہ خود بھارتی ادارہ جاتی ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے۔
اس کے برعکس وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت سیاسی قیادت نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اور عوامی احتساب کی تمام تر ذمہ داری عسکری قیادت پر ڈال دی گئی ہے۔
یہ رویہ بھارت کے اس طویل المدتی نظریے سے متصادم ہے جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کے دور سے فوجی اداروں پر سویلین کنٹرول کو اولین اہمیت حاصل رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایئر چیف مارشل وی آر چودھری نے بنگلور میں منعقدہ ایک بین الاقوامی ایئر شو کے دوران بھارت کی سرکاری دفاعی کمپنی HAL پر کھلی تنقید کی، جس سے عسکری قیادت کے خودمختار بیانیے اور سول قیادت کی پسپائی کا تاثر اور گہرا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’پاکستان نے ہمارے طیارے تباہ کیے‘، بھارتی جنرل کا اعلانیہ اعتراف
سمت گنگولی کے مطابق بھارت میں سول و عسکری قیادت کے درمیان وہ واضح سرحدیں اب مدہم ہو چکی ہیں جو کسی بھی قومی بحران کے وقت فیصلہ سازی اور حکمتِ عملی کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔
سمت گنگولی کے مطابق اب ایک ایسا منظر بن چکا ہے جہاں نہ صرف عسکری افسران سول اداروں پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
فوجی قیادت عوامی بیانات میں ناکامی کا بوجھ سیاسی نظام پر ڈال رہی ہے، جبکہ وزرا مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کی صورت حال بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ پاکستان کی سول و عسکری قیادت عالمی دباؤ کے باوجود قومی سلامتی جیسے حساس امور پر مکمل ہم آہنگی اور تدبر سے کام لے رہی ہے۔
پاکستان میں جہاں اہم فیصلے منتخب قیادت کرتی ہے، وہیں ان پر عملدرآمد عسکری ادارے منظم طریقے سے کرتے ہیں، جو ایک مربوط اور مستحکم قومی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ ملاقات، بھارت حیران و پریشان، کیا پاکستان ایران کا ساتھ دے گا؟
جہاں بھارت میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے، وہیں پاکستان میں فیصلہ سازی سے لے کر عملدرآمد تک مکمل تسلسل اور نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ بھارت کو اب صرف شفافیت کی کمی کا نہیں بلکہ قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔
سمت گنگولی کی رپورٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جو کچھ بھارت میں نظر آ رہا ہے وہ ہم آہنگی نہیں بلکہ اندرونی انتشار ہے اور دنیا اس منظر کو غور سے دیکھ رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارتی قیادت جریدہ فارن پالیسی سمت گنگولی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت بھارتی قیادت جریدہ فارن پالیسی سمت گنگولی سمت گنگولی کے مطابق عسکری قیادت کے بھارت میں ہیں بلکہ رہی ہے
پڑھیں:
شبیر احمد شاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر این آئی اے کی مذمت
ڈی ایف پی ترجمان نے تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں منتقل کرنے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو قیدیوں کے بنیادی حق کا احترام کرنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی اکائی ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے غیر قانونی طور پر نظربند پارٹی سربراہ شبیر احمد شاہ کی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر بھارتی تحقیقاتی ادارے ”این آئی اے” کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں شبیر احمد شاہ کے خلاف این آئی اے کے مقدمے کو بے بنیاد اور سیاسی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ این آئی اے عدالت میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اب شبیر شاہ کی غیر قانونی نظربندی کو طول دینے کے لیے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ایڈووکیٹ اقبال نے شبیر احمد شاہ کی بگرتی ہوئی صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی کے بجائے سیاسی دبائو کے تحت کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ 1968ء سے جھوٹے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دہلی کی تہاڑ جیل میں آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی کوئی عدالت ان کے خلاف الزامات کو ثابت نہیں کر سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری سیاسی قیدیوں کو غیر قانونی طور پر نظربند رکھنے کے لیے جان بوجھ کر ضمانت سے انکار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت رہنمائوں کو صرف ان کی پرامن سیاسی جدوجہد اور کشمیری عوام کے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔ ایڈوکیٹ اقبال نے عدالت میں حقائق کو مسخ کرنے پر بھارتی سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شبیر احمد شاہ نے اپنے سیاسی نظریے کی وجہ سے آدھی سے زیادہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزاری ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ شبیر شاہ کی بگڑتی ہوئی صحت کا فوری نوٹس لیں جو کئی دائمی عارضوں میں مبتلا ہیں۔ انہیں خصوصی طبی امداد کی ضرورت ہے جو جیل میں دستیاب نہیں ہے۔ ڈی ایف پی ترجمان نے تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں منتقل کرنے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو قیدیوں کے بنیادی حق کا احترام کرنا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کے مناسب علاج کو یقینی بنانا چاہیے۔