نان فائلرز کیخلاف بڑی کارروائی، بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے: چیئرمین ایف بی آر
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے فنانس بل 2025 کے تحت نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق اب ایف بی آر کو نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کروانے، زبردستی رجسٹریشن کروانے اور بجلی و گیس کی سہولیات منقطع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
فنانس بل 2025 میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سیلز ٹیکس کے دائرے میں آتا ہے مگر رجسٹرڈ نہیں تو کمشنر ان لینڈ ریونیو ایسے افراد کو زبردستی رجسٹر کروا سکے گا۔ اگر وہ تعاون نہ کریں تو ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکیں گے، جو صرف رجسٹریشن مکمل ہونے پر بحال ہوں گے۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بھی بحث ہوئی۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بڑے شہروں، خاص طور پر کراچی میں متعدد فیکٹریاں اور کاروباری ادارے بغیر رجسٹریشن کے اربوں کی سیل کر رہے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جا رہا، اور وہ جان بوجھ کر سیلز ٹیکس کے دائرے سے بچنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بریفنگ میں کہا کہ ایسے افراد کو نوٹس جاری کیا جائے گا، اگر وہ انکار کریں تو ان کے بینک اکاؤنٹس بند کر دیے جائیں گے، تاہم اگر وہ رجسٹر ہو جائیں تو دو دن میں ان کے اکاؤنٹس بحال کر دیے جائیں گے۔
کمیٹی کے بعض اراکین نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسے اقدامات چھوٹے دکانداروں یا کاٹیج انڈسٹری کو متاثر نہ کریں، جس پر ایف بی آر نے وضاحت کی کہ یہ صرف بڑے مینوفیکچرنگ یونٹس یا ایسی سیلز والے افراد پر لاگو ہوگا جن کی سالانہ آمدنی 8 سے 10 ملین روپے سے زائد ہو۔
ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ ہم ان سے ٹیکس نہیں بلکہ صرف رجسٹریشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ٹیکس نیٹ کو بڑھانا، ٹیکس چوری روکنا اور قومی ریونیو میں اضافہ کرنا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بینک اکاؤنٹس ایف بی آر
پڑھیں:
پاکستان کو ریکوڈک منصوبے کیلیے 5 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی پیشکش
اسلام آباد:
بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک سونے اور تانبے کے منصوبے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور کثیرالملکی ڈونرز کی جانب سے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش موصول ہوئی ہے، جو کہ منصوبے کی کل مالی ضروریات یعنی 3 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مالی معاونت کی پیشکش کرنیوالے اداروں میں ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، اسلامی ترقیاتی بینک (IDB)، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC)، یو ایس ایکزم بینک، جرمنی اور ڈنمارک کے ادارے شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق منصوبے کا مالی بندوبست حتمی مراحل میں ہے جبکہ پیٹرولیم کے وفاقی وزیر علی پرویز ملک، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کی مدد سے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے میں کلیدی کردار اداکر رہے ہیں۔
یو ایس ایکزم بینک نے منصوبے کے لیے بغیرکسی حدکے مالی تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی برادری کی خصوصی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
حال ہی میں وزارت پیٹرولیم نے یو ایس سفارتخانے اور امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ویبینارکا انعقادکیا، جس کا مقصد پاکستان کے معدنی شعبے میں امریکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔ ویبینار کی میزبانی او جی ڈی سی ایل نے کی، جو کہ اس منصوبے کی سرکاری شراکت دار کمپنی ہے۔
پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور ملک بھر میں 92 مختلف اقسام کے معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں سے 52 تجارتی طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
ریکوڈک منصوبہ دنیاکے سب سے بڑے غیر دریافت شدہ تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک ہے، جسے کینیڈا کی کمپنی بیریک گولڈ کے اشتراک سے بحال کیاگیا ہے۔ منصوبے سے 2028 تک پیداوار شروع ہونے کی توقع ہے، جس پر ابتدائی طور پر 5.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
بیریک گولڈکے سی ای او مارک بریسٹو کے مطابق منصوبہ آئندہ 37 برسوں میں تقریباً 74 ارب ڈالر کا منافع دے سکتا ہے۔ یہ منصوبہ سالانہ 2.8 ارب ڈالر کی برآمدات، ہزاروں روزگار کے مواقع اور بلوچستان کی معیشت میں انقلابی تبدیلی کا سبب بنے گا۔
سعودی عرب کی مائننگ کمپنی "منارہ منرلز” نے منصوبے میں 15 فیصد شراکت داری حاصل کرنے کے لیے 1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی دلچسپی ظاہر کی ہے، جس کی منظوری وفاقی کابینہ پہلے ہی دے چکی ہے۔ریکوڈک سے کان کنی کا سامان کراچی تک لانے اور برآمدکرنے کے لیے پاکستان ریلوے کے تعاون سے نئی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
Tagsپاکستان