ایران اسرائیل جنگ 2025ء، پسِ پردہ حقائق، پراکسی نیٹ ورکس اور آئندہ کا منظرنامہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ جنگ ایک روایتی لڑائی سے بڑھ کر نظریاتی، انٹیلی جنس، پراکسی اور نفسیاتی محاذ کی جنگ بن چکی ہے۔ ایران کی مرحلہ وار حکمتِ عملی ثابت کرتی ہے کہ وہ نہ صرف پروپیگنڈا بلکہ حقیقی عسکری قوت کا حامل ہے۔ اسرائیل کے پاس اب صرف دو راستے ہیں پہلا یہ کہ مذاکرات کی میز پر آنا اور دوسرا یہ کہ اپنے (اسرائیل) وجود کو خطرے میں ڈالنے کی دعوت دینا۔ یہ بھی یاد رہے کہ لبنان، عراق، یمن اور خلیجی ممالک میں موجود ایرانی نیٹ ورکس تھکے ہوئے اسرائیل پر کسی بھی وقت فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے تیار ہیں۔ تجزیہ و تحریر: ایس این سبزواری
13 جون 2025ء کو اسرائیل نے ایران پر اچانک فضائی حملے کر کے متعدد اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد سے پورے خطے میں کشیدگی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایران نے بھرپور جوابی حملے کیے، جس کے بعد حالات نہ صرف ایران و اسرائیل بلکہ عالمی سطح پر شدید اضطراب کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس مضمون میں ہم حالیہ جنگ کے مختلف پہلوؤں، ایران کی جنگی حکمتِ عملی، اس کی پراکسی قوتوں، اسرائیل کی داخلی کمزوریوں اور آئندہ ممکنہ منظرنامے کا جائزہ لیں گے۔
1۔ ابتدائی حملہ اور اسرائیلی اہداف
اسرائیل نے 13 جون کو ایران کے متعدد اہم فوجی مراکز، انٹیلی جنس ہیڈکوارٹرز اور ایک درجن سے زائد اعلیٰ کمانڈروں کو نشانہ بنایا۔ مبینہ طور پر اسرائیل کی "ہٹ لسٹ" پر 40 اہم ایرانی شخصیات شامل تھیں، جن میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی شامل تھے۔ اگرچہ وہ حملے میں محفوظ رہے، مگر ایران کو قیادت کی سطح پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
2۔ ایران کا ابتدائی ردعمل
ایران نے چند گھنٹوں کے اندر اپنے نظام کو ری اسٹور کیا اور درجنوں بالیسٹک اور کروز میزائل داغے جنہوں نے اسرائیلی دفاعی نظام کو الجھا کر رکھ دیا۔ "فاتح" جیسے ہائپرسونک میزائل نے آئرن ڈوم اور ایرو ڈیفنس سسٹمز کی محدودات کو نمایاں کر دیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق اسرائیلی دفاع "اوور وہلمڈ" (قابو سے باہر) ہو چکا ہے۔
ایران کی طاقت، حقیقت یا پروپیگنڈا؟
روس، چین اور دیگر رپورٹس کی روشنی میں
● ایران کی جوہری تنصیبات اب تک محفوظ ہیں، روسی صدر پیوٹن نے اس بات پر زور دیا ہے۔
● ایران نے دھوکہ دہی پر مبنی "ڈمی سسٹمز" نصب کیے تھے جن پر اسرائیل نے حملے کیے، جبکہ اصل نظام محفوظ رہا۔
● آج تک ایران روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل پر کامیاب میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
● ڈرونز، کروز اور ہائپرسونک میزائلز کا استعمال جاری ہے۔
● ایران کی میزائل طاقت اس وقت تک برقرار ہے، جو اسرائیل کے لیے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔
اسرائیل کا دفاعی نظام اپنی آخری حدوں پر؟
سامنے آنے والے حقائق
● آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور ایرو سسٹمز اب اوورلوڈ ہو چکے ہیں۔
● امریکی ذرائع کا اعتراف "The system is already overwhelmed.
● یمن، عراق، لبنان اور ایران سے بیک وقت حملوں کی صورت میں دفاعی نظام مکمل ناکام ہو سکتا ہے۔
امریکی مداخلت کی حقیقت
تھاڈ (THAAD)، ایجس (AEGIS) اور دیگر امریکی دفاعی سسٹمز اسرائیل کی مدد میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اسرائیل اب تنہا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہا۔
3۔ ایران کی مرحلہ وار حکمتِ عملی
ایران نے اپنی تمام اتحادی قوتوں کو فوری طور پر فعال نہیں کیا۔ حزب اللہ، حماس، حشد الشعبی (عراق) اور انصار اللہ (یمن) کو جان بوجھ کر خاموش رکھا گیا تاکہ اسرائیل کو دفاعی طور پر تھکایا جا سکے۔ ایران کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ پہلے دشمن کو میزائلوں سے الجھایا جائے، اس کی فضائی دفاع اور نفسیاتی استقامت کو کمزور کیا جائے، پھر زمینی یا پراکسی حملوں سے فیصلہ کن ضرب لگائی جائے۔
4۔ ایران اتحادی قوتوں کا کردار
حزب اللہ: شمالی اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے وہ ہزاروں راکٹوں اور میزائلوں سے لیس ہے اور وہ اس علاقے سے مکمل اشنائی رکھتی ہے
حماس: جنوبی محاذ سے زیرِ زمین سرنگوں اور مقامی نیٹ ورک کے ذریعے حملہ آور ہو سکتی ہے، اس کے 20 سے 30 ہزار جنگجو اب بھی کسی بھی وقت اسرائیل پر زمینی حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں
انصار اللہ: یمن کے انصار اللہ بحیرۂ احمر میں اسرائیلی بحری جہازوں اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حشد الشعبی و دیگر: عراق سے اسرائیلی یا امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
5۔ اسرائیلی کمزوریاں اور عوامی ردعمل
جنگ کے مسلسل دباؤ سے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت، معیشت اور عوامی اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔ عوام میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، جبکہ عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو یکطرفہ جارحیت کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔
6۔ ایرانی نیٹ ورک اور پاکستان کا منظرنامہ
پاکستان میں ایران کی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ عوامی سطح پر اور فیصلہ ساز حلقوں میں ایران کے لیے ہمدردی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔
7۔ مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ
ایران کا مقصد: اسرائیل کو اندرونی طور پر تقسیم کرنا اور اس کے دفاعی نظام کو غیر مؤثر بنانا۔
● حزب اللہ یا حماس کی مدد سے زمینی حملے کا امکان۔
● انصار اللہ جیسے جنگجوؤں کے ذریعے غیر روایتی محاذ کھولے جا سکتے ہیں۔
● اسرائیل کے عوام اور میڈیا نتن یاہو حکومت پر شدید تنقید کر رہے ہیں، داخلی بغاوت کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
اہم انتباہ: رہبرِ اعلیٰ پر حملے کے نتائج
اگر اسرائیل رہبرِ اعلیٰ یا دیگر اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے تو ایران کی مذہبی قیادت عالمی شیعہ رائے عامہ کو متحرک کر سکتی ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوں گے۔ مجلسِ خبرگان چند گھنٹوں میں نئے رہبر کا انتخاب کر لے گی مگر امریکہ اور اسرائیل کو ناقابلِ تلافی ردعمل کا سامنا ہوگا۔
تاریخی تناظر:
● ایران کی قیادت ہمیشہ شہادت کو اعزاز سمجھتی رہی ہے۔
● ابتدائے انقلاب سے اب تک ہزاروں شخصیات (جیسے آیت اللہ بہشتی، مطہری، محمد علی رجائی، مصطفیٰ چمران) شہید ہو چکی ہیں، مگر نظام مضبوط تر ہوا ہے۔
● امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی انقلاب اپنی شدت کے ساتھ آگے بڑھا۔
● امام علیؑ اور امام حسینؑ کی شہادتیں ایران کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
موجودہ رہبرِ اعلیٰ پر 1981ء میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جہاں وہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ شہادت ان کے لیے اعزاز ہے۔
شخصیات کے جانے سے ایران میں قائم نظام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ شخصیات سے نہیں نظام سے ہے اور ایران کا نظام اس وقت بہت طاقتور ہے جس کو فی الحال شکست دینا امریکہ اور اسرائیل کے لیے ناممکن ہے
جوہری صلاحیت: حقیقی مسئلہ کیا ہے؟
● ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے واضح کیا ہے کہ "ایٹم بم بنانا حرام ہے"۔
● اصل مسئلہ ایران کی جوہری صلاحیت نہیں، بلکہ اس کی سائنسی ترقی ہے۔
● 9 اپریل 2025ء کو ایران نے اپنی 100+ جوہری کامیابیاں (انسانیت کی فلاح کے لیے) عالمی سطح پر پیش کیں۔
● امریکہ و اسرائیل دراصل ایران کی معاشی، سائنسی اور معاشرتی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں۔
● موجودہ جنگ ثابت کر چکی ہے کہ ایران کو روایتی ہتھیاروں سے ہی مخالفین کا جواب دینے کی صلاحیت حاصل ہے۔ اس کو کسی ایٹم بم بنانے کی ضرورت نہیں ہے وہ اسرائیل کو روایتی ہتھیاروں کے ذریعے ہی بہت بڑی ضرب لگا رہا ہے
روس اور چین کا کردار
روس اور چین جیسے ممالک خطے کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ایران کو خاموش یا اعلانیہ حمایت فراہم کر سکتے ہیں۔
خلاصہ
یہ جنگ ایک روایتی لڑائی سے بڑھ کر نظریاتی، انٹیلی جنس، پراکسی اور نفسیاتی محاذ کی جنگ بن چکی ہے۔ ایران کی مرحلہ وار حکمتِ عملی ثابت کرتی ہے کہ وہ نہ صرف پروپیگنڈا بلکہ حقیقی عسکری قوت کا حامل ہے۔ اسرائیل کے پاس اب صرف دو راستے ہیں پہلا یہ کہ مذاکرات کی میز پر آنا اور دوسرا یہ کہ اپنے (اسرائیل) وجود کو خطرے میں ڈالنے کی دعوت دینا۔ یہ بھی یاد رہے کہ لبنان، عراق، یمن اور خلیجی ممالک میں موجود ایرانی نیٹ ورکس تھکے ہوئے اسرائیل پر کسی بھی وقت فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے تیار ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عالمی سطح پر اور اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل پر اسرائیل کی دفاعی نظام انصار اللہ اسرائیل کے کو نشانہ ایران کے ایران کی ایران نے اور اس چکی ہے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی بنائی ہوئی تباہی کی سرنگ میں داخل ہو چکے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں، ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن عمران خان صرف ان سے بات کرنا چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی تحریک ایک دن کے احتجاج میں بدل چکی ہے، تمام کارڈز ناکام ہوچکے، پی ٹی آئی کے پاس اب صرف ناکامی کارڈ بچا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی بنائی ہوئی تباہی کی سرنگ میں داخل ہو چکے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں، ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن عمران خان صرف ان سے بات کرنا چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا ماضی اور حال ہے مگر اس جماعت کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں رہا، عوام پی ٹی آئی کے بیانیے سے بیزار ہو چکے ہیں، سلمان اور قاسم کے ویزا درخواست دینے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہ خود کو پاکستانی شہری تسلیم نہیں کرتے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے آل پارٹیز کانفرنس کے حالیہ اعلامیے کے حوالے سے سوال پر کہا کہ یہ اعلامیہ فوج سے بغض اور پی ٹی آئی کے درد سے لبریز تھا، پاکستان کی عظیم فتح معرکہ حق کا اعلامیے میں ذکر تک نہ کرنا شرم ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی، معاشی اور سفارتی میدانوں تمام محاذوں پر کامیابیاں کسی ایک نہیں، قومی اداروں اور قیادت کی مشترکہ حکمت عملی اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی لیڈروں اور کارکنوں کو سزاؤں کے حوالے سے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ برطانیہ میں 2 ہفتوں کے اندر بلوائیوں کو سزائیں دے دی گئیں جبکہ پاکستان میں 9 مئی کے واقعات کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور سزاؤں کا آغاز اب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت کوئی سیاسی بحران نہیں ہے یہ بحران صرف اُن چند افراد کے ذہنوں میں پل رہا ہے جو ذاتی انا اور تلخی کا شکار ہیں، ریاست کا پہیہ رواں دواں ہے، ادارے کام کر رہے ہیں، معاشی کامیابیاں جاری ہیں اور پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا دورہ پاکستان ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا۔