بئر السبع میں واقع بن گوریون یونیورسٹی کے قریب "ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز پارک" (ATP) قائم ہے، یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جہاں سے ایران سمیت مختلف ممالک کے خلاف اسرائیل کی سائبر جنگی کارروائیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور چلائی جاتی ہیں۔ اس پارک میں کئی بڑی سائبر سیکیورٹی کمپنیاں موجود ہیں جو براہِ راست اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے بینکاری نیٹ ورک اور ریاستی ٹیلی ویژن کو نشانہ بنانے والے متعدد مربوط سائبر حملوں کے ایک دن بعد، ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کے "سائبر دارالحکومت" پر میزائل حملہ کیا۔ جمعہ کی صبح، ایرانی مسلح افواج نے "آپریشن وعدہ صادق III" کی ایک نئی لہر کا آغاز کیا، جس میں اسرائیل کے کئی اہم فوجی، انٹیلی جنس، اور صنعتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا، یہ وہ مراکز ہیں جو غزہ، لبنان، یمن یا خود ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں معاونت کرتے ہیں۔ پریس ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سب سے اہم ہدف ’"بئر السبع" تھا، جسے اسرائیلی حکومت کی سائبر صنعت کا گڑھ اور اس کی عالمی سائبر جنگی مشین کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایران کی جانب سے داغا گیا میزائل حکومت کے کثیر سطحی فضائی دفاعی نظاموں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اگرچہ میزائل کی ابتدائی نشاندہی ہو گئی تھی، تاہم انٹرسیپٹ سسٹمز اسے روکنے میں ناکام رہے۔

یہ حملہ ایک انتہائی درست نشانے پر کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں عمارت مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن گئی، اور اس میں سے گھنے دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے، اس عمارت کی شناخت اسرائیلی سائبر فوج کے ایک اہم مرکز کے طور پر کی گئی ہے۔ بئر السبع میں واقع بن گوریون یونیورسٹی کے قریب "ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز پارک" (ATP) قائم ہے، یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جہاں سے ایران سمیت مختلف ممالک کے خلاف اسرائیل کی سائبر جنگی کارروائیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور چلائی جاتی ہیں۔ اس پارک میں کئی بڑی سائبر سیکیورٹی کمپنیاں موجود ہیں جو براہِ راست اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہیں، نیز یہاں IBM، PayPal اور Oracle جیسی عالمی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ شہر فوجی اور انٹیلی جنس اثاثوں کے انضمام کا ایک مرکز بھی ہے، جہاں اسرائیل کی مرکزی سائبر انٹیلیجنس اور نگرانی کی شاخ، "یونٹ 8200" کا بڑا حصہ قائم ہے۔

اسی ماحول میں قابض فوج، نجی سائبر کمپنیاں، اور حکومت سے منسلک تعلیمی ادارے باہم مل کر کام کرتے ہیں، اور سائبر وارفیئر کو خطے میں صہیونی توسیع پسندی اور آبادکاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بن گوریون یونیورسٹی خود بھی اسرائیلی حکومت کی سائبر سیکیورٹی تحقیق میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اور فوج و انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ مل کر جارحانہ سائبر صلاحیتوں کی تیاری میں شریک رہتی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے بئر السبع میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ اسے صہیونی ریاست کے سائبر دارالحکومت کے طور پر مستحکم کیا جا سکے، اور دنیا کی بڑی سائبر کمپنیاں یہاں اپنے دفاتر قائم کریں۔ یہ حکومت طویل عرصے سے سائبر حملوں کو اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آ رہی ہے۔ 2009-2010ء میں، اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات پر ایک بڑا سائبر حملہ کیا، جس میں سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچایا گیا تھا، یہ سائبر ٹیکنالوجی کے ذریعے تباہی پھیلانے کی پہلی واضح مثالوں میں سے ایک ہے، حالانکہ ایرانی تنصیبات اقوام متحدہ کی نگرانی میں تھیں۔

گزشتہ برسوں میں، اسرائیلی حکومت نے ایران کی بندرگاہوں، ایندھن کی تقسیم کے نیٹ ورک، اور ریلوے نظام پر بھی سائبر حملے کیے، جو کہ عالمی سائبر قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس حکومت نے غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروہوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، تاکہ ان کی مواصلاتی صلاحیتوں اور آپریشنز میں خلل ڈالا جا سکے۔ ان تمام کارروائیوں کے مرکز میں "یونٹ 8200" ہے، جو اسرائیلی فوج کی سائبر انٹیلیجنس اور ہیکنگ کے لیے بدنام شاخ ہے۔ یہ یونٹ بڑے پیمانے پر نگرانی، جاسوسی، اور جارحانہ ڈیجیٹل کارروائیاں کرتا ہے۔ اسرائیل نے دنیا بھر میں حکومتوں اور اداروں کی جاسوسی کے لیے سائبر ٹولز بھی استعمال کیے ہیں۔ ان میں "پیگاسس" اسپائی ویئر شامل ہے، جسے اسرائیلی کمپنی NSO گروپ نے تیار کیا، اور یہ خفیہ طور پر موبائل ڈیوائسز میں داخل ہو کر انٹیلی جنس اکٹھی کرتا ہے۔ ان تمام ریکارڈز کو مدنظر رکھتے ہوئے، علاقائی سائبر سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ایران کی جانب سے بئر السبع پر کیا گیا میزائل حملہ، وہاں سے برسوں سے جاری اسرائیلی سائبر جارحیت کا ایک طویل مدت سے واجب الادا جواب تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سائبر سیکیورٹی اسرائیلی حکومت اسرائیل کی انٹیلی جنس بئر السبع ایران کی کی سائبر جاتی ہیں کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل نے ایک نیا نقشہ بنا لیا

پچھلے دنوں ایک اہم لیکن غیر پابند اقدام میں اسرائیل کی پارلیمنٹ، کنیسٹ میں اسرائیلی مقننہ نے بھاری اکثریت سے ایک اعلامیہ کی منظوری دی ہے جس میں مقبوضہ مغربی کنارے اور وادی اردن میں یہودی بستیوں پر اسرائیلی خودمختاری کی فوری توسیع پر زور دیا گیا ہے۔13 کے مقابلے میں 71  ووٹوں سے منظور ہونے والی اس تحریک کو دائیں بازو اور مرکزی دائیں بازو کی اسرائیلی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی جن میں لیکود، شاس، مذہبی صیہونیت، اوتزما یہودیت اور یسرائیل بیتینو شامل ہیں۔

متن میں اعلان کیا گیا کہ 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کا حملہ جسے اسرائیلی سیاسی گفتگو میں "سمچات تورہ قتل عام" کہا جاتا ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے ایک جان لیوا خطرہ ہے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’کنیسٹ اعلان کرتی ہے کہ اسرائیل کی سرزمین کے تمام حصوں کو اپنے وجود میں شامل کرنا اس کا فطری، تاریخی اور قانونی حق ہے۔ "کنیسٹ حکومت اسرائیل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ یہودیہ، سامریہ اور وادی اردن میں یہودی آباد کاری کے تمام علاقوں پر خودمختاری کا اطلاق کرنے کے لیے بلا تاخیر عمل کرے۔"

یہ بالکل بھی علامتی نہیں

اس قرارداد پر علامتی کا لیبل لگایا گیا ہے، مگر فلسطینی ماہرین اس ووٹ کو مغربی کنارے میں اسرائیل کی مستقل موجودگی اور حکمرانی کے لیے نوکر شاہی کی بنیاد رکھنے کے طور پر دیکھتے ہیں جو بین الاقوامی اتفاق رائے کے ذریعے مستقبل کی فلسطینی ریاست کا مرکز ہے۔مغربی کنارے کی برزیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سعد نمر کہتے ہیں، اس اقدام کے مضمرات دور رس ہیں۔

"یہ بالکل بھی علامتی نہیں ۔" نمر کا کہنا ہے "اس کا مطلب ہے کہ ان بستیوں کو اب اسرائیلی شہروں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ فوجی قانون کے تحت اب 'قبضہ' نہیں رہے ہیں۔ یہ الحاق کا قانونی اور بیوروکریٹک بنیادی ڈھانچہ ہے۔"وہ مذید کہتے ہیں "اسرائیلی وزارتیں ، فوج نہیں ، اب ان علاقوں میں صحت، بہبود، منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی نگرانی کریں گی۔ یہ تھیوری نہیں ،یہ بلڈوزر، بجٹ اور توسیع کے بارے میں ہے۔"

فلسطین کی فتح انقلابی کونسل کے ایک رکن، دیمتری دلیانی نے ان جذبات کی بازگشت کی۔ان کا کہنا ہے ’’ووٹ کو علامتی طور پر بیان کرنا خطرناک حد تک نادانی ہے۔" دلیانی نے خبردار کیا۔ "اسرائیلی سیاست میں علامت پرستی اکثر حقیقت میں الحاق کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ گو کنیسٹ کی تحریک میں پابند قانون سازی کی اتھارٹی کا فقدان ہے، یہ نئے گھریلو سیاسی جواز کے ساتھ ریاست اسرائیل کے آباد کار نوآبادیاتی منصوبے کو وسعت دینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن، دونوں میں اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے۔"

دلیانی نے مزید کہا کہ کنیسٹ کے اراکان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصطلاح "ویسٹ بینک" کو بائبل کے "یہودا اور سامریہ" سے بدلنے کے لیے قانون سازی پر زور دے رہے ہیں ۔یوں وہ اسرائیلی قانون میں قوم پرست بیانیہ کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔

 سیاسی لین دین

بہت سے تجزیہ کار اس ووٹنگ کو نہ صرف نظریاتی بلکہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے کمزور حکومتی اتحاد کو بچانے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر سیاسی چال کے طور پر دیکھتے ہیں۔

"یہ بالکل واضح ہے کہ یہ ایک سیاسی تبادلہ تھا،" نمر نے کہا۔ "قومی مذہبی پارٹی اور مذہبی صیہونیت بیزلیل کے رہنما، سموٹریچ اوراوزمہ یہودیت ("یہودی طاقت") پارٹی کے رہنما،بین گویر نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوحہ میں مذاکرات غزہ میں جنگ بندی کا باعث بنتے ہیں تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔ یہ ووٹ نیتن یاہو کا انہیںاپنے ساتھ رکھنے کا طریقہ ہے۔"

انتہائی دائیں بازو کو الحاق پر ایک علامتی انعام کی پیشکش کر کے نیتن یاہو اپنی حکومت کے خاتمے کو روکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ،گو قطری ثالثی میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کسی نہ کسی طور جاری ہیں۔دلیانی اس اقدام کو "موقع پرست" قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قانونی جانچ پڑتال کو پہلے سے بے اثر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، خاص طور پر جولائی 2023 ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کے بعد، جس نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔"

دانتوں کے بغیر بین الاقوامی مذمت

بین الاقوامی برادری کی طرف سے ردعمل تیز لیکن دانتوں کے بغیر تھا۔ اردن نے ووٹنگ کی مذمت کرتے ہوئے اسے "بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی" قرار دیا۔ یوروپی یونین اور عرب لیگ نے دو ریاستی حل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسی طرح کے الفاظ کی سرزنش کی۔لیکن دونوں فلسطینی تجزیہ کار معنی خیز نتائج کی کمی کی وجہ سے غیر متزلزل تھے۔

"تاریخی ریکارڈ ہمیں سکھاتا ہے کہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہمیشہ عمل میں نہیں آتا۔" دلیانی کا کہنا ہے " یہاں تک کہ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی اور یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی حصوں میں زبردست جنگی جرائم کے دستاویزی لائیو سٹریم کے درمیان اہم مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی صف بندی مزید مضبوط ہوئی ہے ۔"

انہوں نے امریکی فوجی تعاون کا حوالہ دیا جو 3.8 بلین ڈالر سالانہ امداد کی مد میں ہے اور اکتوبر 2023 ء میں غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 20 بلین ڈالر کی اضافی فوجی امداد تک پہنچ چکا ہے۔دلیانی نے مزید کہا "اسرائیل یورپی یونین کے ساتھ وسیع تجارتی مراعات سے لطف اندوز ہونا جاری رکھے ہوئے ہے۔ دس لاکھ غیر قانونی نوآبادیاتی اسرائیلی آباد کاروں میں سے تین چوتھائی مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کی طرف سے ردعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ روک تھام کی پابندیوں یا جوابدہی کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کو اسرائیل آگے بڑھنے کی کھلی اجازت سے تعبیر کرتا ہے۔"

نمر بھی اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں "اسرائیل کنیسٹ میں بھاری اکثریت کے ساتھ اس فیصلے میں آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی بین الاقوامی برادری کی رائے کی پرواہ نہیں کرتے۔ یورپی یونین نے غزہ میں نسل کشی اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر پھر بھی کوئی حقیقی کارروائی نہیں کی۔اگر کوئی سزا نہیں ملتی ہے" نمر کا کہنا ہے "اور اِسے رضامندی سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اب اسرائیلی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سامنے سبز روشنی آ گئی ہے۔"

اسرائیل کی مغربی تسلط اور اس کے نتائج

تجزیہ کار اسرائیل کو حاصل اس استثنیٰ کو مغربی جغرافیائی سیاسی مدار میں اس کی مضبوط پوزیشن سے جوڑتے ہیں۔ 2024 ء میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تجارت 46 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور نیدرلینڈز دوہری استعمال کی اسرائیلی ٹیکنالوجیز کے سرفہرست برآمد کنندگان میں شامل ہیں۔دریں اثنا امریکہ نے بائیڈن انتظامیہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ ،دونوں میں اضافہ کیا یہاں تک کہ اس نے عوامی طور پر الحاق کی مخالفت کو برقرار رکھا۔

"یہ دوہرا معیار عالمی طاقت کے ڈھانچے میں شامل ہے" دلیانی کہتے ہیں۔ 2014 ء میں کریمیا کی صورت حال پر مغرب نے روس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے برعکس غزہ میں اسرائیلی ریاست کی جاری نسل کشی اور مغربی کنارے کے اصل الحاق جیسے جرائم پر اسرائیل کو اسلحے کی بڑھتی ہوئی منتقلی اور سفارتی امداد سے نوازا گیا ہے۔"

"اسرائیل مشرق وسطی میں ایک اسٹریٹجک مغربی نوآبادیاتی گڑھ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ یقینی بناتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا جائے۔ روس کے برعکس جو مغربی نظام کے لیے ایک خطرہ کے طور پر اٹھایا کیا گیا ہے، اسرائیل کو اس حکم کی توسیع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بین الاقوامی اصولوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔"

دلیانی نے مزید کہا کہ اسرائیل کے اقدامات کو تنقید سے بچانے کے لیے یہود دشمنی کے الزامات کو حکمت عملی کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس کے نسل کشی کے جنگی جرائم کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے یہود دشمنی کے الزامات کو صہیونی آلہ کار بنانے پر اسرائیلی ریاست کو جوابدہی سے مزید محفوظ کر دیا ہے۔"

نمر اتفاق کرتے کہتے ہیں "دوہرا معیار بین الاقوامی سفارت کاری کا نعرہ بن چکا ، ایسا نعرہ جو اعلانیہ نہیں لگایا جاتا۔سبھی ممالک اسرائیل کے ساتھ روس یا چین کے مقابلے میں مختلف طریقے سے نمٹتے ہیں کیونکہ اسرائیل اسی سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔"

انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی قانونی فریم ورک کی عالمی سطح پر دوبارہ تشکیل پر زور دیا۔ "ان تمام قوانین بشمول اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔اب یہ نظام ٹوٹ چکا ہے۔ امریکی ویٹو خطّے میں اس کے پسندیدہ اتحادی، اسرائیل جیسے ملک کے خلاف کسی بھی فیصلے کو روک سکتا ہے۔"

آگے کیا ہو گا؟

دونوں ماہرین کا خیال ہے کہ کنیسٹ کی ووٹنگ کے نتائج سفارتی بیان بازی سے کہیں آگے ہیں۔ نمر کے نزدیک یہ معاملہ فلسطینی قیادت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہونا چاہیے۔

"یہ فیصلہ تمام فلسطینیوں کو متاثر کرتا ہے،" نمر کا کہنا ہے۔ "دو ریاستی حل نہ صرف یہ کہ ہمارے پیچھے نہیں بلکہ وہ سرکاری طور پر ختم ہوچکا۔ اسرائیلی قانون نے اوسلو معاہدے کو اڑا دیا ہے۔" یاد رہے1990ء کی دہائی میں دستخط کیے گئیاوسلو فریم ورک نے اسرائیلی نگرانی کے تحت محدود فلسطینی خود مختاری کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ ایک سمجھوتہ تھا جس کا مقصد دو ریاستی حل کی طرف راہ ہموار کرنا تھا جو اب مکمل طور پر دفن نظر آتا ہے۔

نمر نے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ٹھوس اقدامات اٹھائے، جس کا آغاز اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن ختم کرنے سے ہوتا ہے،ایک ایسا عمل جس پر طویل عرصے سے فلسطینی سول سوسائٹی نے تعاون کے طور پر تنقید کی تھی۔

"اگر اوسلو مر گیا ہے، تو پھر ہم اس میں اپنا حصہ کیوں رکھیں؟ فلسطینی اتھارٹی کو فوری طور پر تمام سیکورٹی تعاون بند کرنا چاہیے۔ اس سے ایک مضبوط پیغام جائے گا۔"اس سے آگے نمر نے قومی اتحاد پر زور دیا۔ "اس وجودی خطرے کے خلاف حکمت عملی بنانے کے لیے ہمیں ایک متحدہ محاذ … الفتح، حماس اور تمام دھڑوں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں سے ہمارے پاس دو راستے تھے: اوسلو کے تحت مذاکرات، یا مزاحمت۔ اب اوسلو کا راستہ خود اسرائیل نے بند کر دیا ہے۔"

دلیانی کا بھی خیال ہے کہ فلسطینیوں کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہیں۔’’ہم اب نظریاتی الحاق کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے ہیں،" انہوں نے کہا "اسے نافذ کرنے کے اسرائیلی قانونی طریقہ کار کے ساتھ یہ نسل پرستی اور یہودی آباد کاروں کے استعماری تسلط کو معمول پر لانا ہے ۔ فلسطینیوں کو اب نچلی سطح پر مزاحمت کی تعمیر، بین الاقوامی سول سوسائٹی کو متحرک کرنے اور اسرائیلی جمہوریت کے افسانے کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔" 

متعلقہ مضامین

  • اپوزیشن اراکینِ اسمبلی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،عامرڈوگر
  • حکومت عدلیہ کے فیصلوں کا سہارا لے کر مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے: حافظ نعیم
  • اسرائیلی حکومت نے بھی مودی سرکار کو بڑا جھٹکا دیدیا
  • بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ اپنی پولیس کو تنقید، تمسخر اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا ہے، شرجیل میمن
  • اسرائیل نے ایک نیا نقشہ بنا لیا
  • یمنی فوج کا اسرائیل کے بن گوریون ایئرپورٹ ہائپرسانک بیلسٹک میزائل حملہ
  • غزہ میں مسلمان بچوں کے سر اور سینے پر گولیوں کا نشانہ
  • اضافی سامان کی فیس کیوں مانگی؟ بھارتی فوجی افسر نے ایئرلائن عملے کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف
  • یوکرین کا روس پر بڑا حملہ، آئل ریفائنری سمیت کئی فوجی تنصیبات تباہ