ایران نے اسرائیل کے "سائبر دارالحکومت" کو کیوں نشانہ بنایا؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
بئر السبع میں واقع بن گوریون یونیورسٹی کے قریب "ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز پارک" (ATP) قائم ہے، یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جہاں سے ایران سمیت مختلف ممالک کے خلاف اسرائیل کی سائبر جنگی کارروائیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور چلائی جاتی ہیں۔ اس پارک میں کئی بڑی سائبر سیکیورٹی کمپنیاں موجود ہیں جو براہِ راست اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے بینکاری نیٹ ورک اور ریاستی ٹیلی ویژن کو نشانہ بنانے والے متعدد مربوط سائبر حملوں کے ایک دن بعد، ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کے "سائبر دارالحکومت" پر میزائل حملہ کیا۔ جمعہ کی صبح، ایرانی مسلح افواج نے "آپریشن وعدہ صادق III" کی ایک نئی لہر کا آغاز کیا، جس میں اسرائیل کے کئی اہم فوجی، انٹیلی جنس، اور صنعتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا، یہ وہ مراکز ہیں جو غزہ، لبنان، یمن یا خود ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں معاونت کرتے ہیں۔ پریس ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سب سے اہم ہدف ’"بئر السبع" تھا، جسے اسرائیلی حکومت کی سائبر صنعت کا گڑھ اور اس کی عالمی سائبر جنگی مشین کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایران کی جانب سے داغا گیا میزائل حکومت کے کثیر سطحی فضائی دفاعی نظاموں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اگرچہ میزائل کی ابتدائی نشاندہی ہو گئی تھی، تاہم انٹرسیپٹ سسٹمز اسے روکنے میں ناکام رہے۔
یہ حملہ ایک انتہائی درست نشانے پر کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں عمارت مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن گئی، اور اس میں سے گھنے دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے، اس عمارت کی شناخت اسرائیلی سائبر فوج کے ایک اہم مرکز کے طور پر کی گئی ہے۔ بئر السبع میں واقع بن گوریون یونیورسٹی کے قریب "ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز پارک" (ATP) قائم ہے، یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جہاں سے ایران سمیت مختلف ممالک کے خلاف اسرائیل کی سائبر جنگی کارروائیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور چلائی جاتی ہیں۔ اس پارک میں کئی بڑی سائبر سیکیورٹی کمپنیاں موجود ہیں جو براہِ راست اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے منسلک ہیں، نیز یہاں IBM، PayPal اور Oracle جیسی عالمی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ شہر فوجی اور انٹیلی جنس اثاثوں کے انضمام کا ایک مرکز بھی ہے، جہاں اسرائیل کی مرکزی سائبر انٹیلیجنس اور نگرانی کی شاخ، "یونٹ 8200" کا بڑا حصہ قائم ہے۔
اسی ماحول میں قابض فوج، نجی سائبر کمپنیاں، اور حکومت سے منسلک تعلیمی ادارے باہم مل کر کام کرتے ہیں، اور سائبر وارفیئر کو خطے میں صہیونی توسیع پسندی اور آبادکاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بن گوریون یونیورسٹی خود بھی اسرائیلی حکومت کی سائبر سیکیورٹی تحقیق میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اور فوج و انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ مل کر جارحانہ سائبر صلاحیتوں کی تیاری میں شریک رہتی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے بئر السبع میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ اسے صہیونی ریاست کے سائبر دارالحکومت کے طور پر مستحکم کیا جا سکے، اور دنیا کی بڑی سائبر کمپنیاں یہاں اپنے دفاتر قائم کریں۔ یہ حکومت طویل عرصے سے سائبر حملوں کو اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آ رہی ہے۔ 2009-2010ء میں، اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات پر ایک بڑا سائبر حملہ کیا، جس میں سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچایا گیا تھا، یہ سائبر ٹیکنالوجی کے ذریعے تباہی پھیلانے کی پہلی واضح مثالوں میں سے ایک ہے، حالانکہ ایرانی تنصیبات اقوام متحدہ کی نگرانی میں تھیں۔
گزشتہ برسوں میں، اسرائیلی حکومت نے ایران کی بندرگاہوں، ایندھن کی تقسیم کے نیٹ ورک، اور ریلوے نظام پر بھی سائبر حملے کیے، جو کہ عالمی سائبر قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس حکومت نے غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروہوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، تاکہ ان کی مواصلاتی صلاحیتوں اور آپریشنز میں خلل ڈالا جا سکے۔ ان تمام کارروائیوں کے مرکز میں "یونٹ 8200" ہے، جو اسرائیلی فوج کی سائبر انٹیلیجنس اور ہیکنگ کے لیے بدنام شاخ ہے۔ یہ یونٹ بڑے پیمانے پر نگرانی، جاسوسی، اور جارحانہ ڈیجیٹل کارروائیاں کرتا ہے۔ اسرائیل نے دنیا بھر میں حکومتوں اور اداروں کی جاسوسی کے لیے سائبر ٹولز بھی استعمال کیے ہیں۔ ان میں "پیگاسس" اسپائی ویئر شامل ہے، جسے اسرائیلی کمپنی NSO گروپ نے تیار کیا، اور یہ خفیہ طور پر موبائل ڈیوائسز میں داخل ہو کر انٹیلی جنس اکٹھی کرتا ہے۔ ان تمام ریکارڈز کو مدنظر رکھتے ہوئے، علاقائی سائبر سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ایران کی جانب سے بئر السبع پر کیا گیا میزائل حملہ، وہاں سے برسوں سے جاری اسرائیلی سائبر جارحیت کا ایک طویل مدت سے واجب الادا جواب تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سائبر سیکیورٹی اسرائیلی حکومت اسرائیل کی انٹیلی جنس بئر السبع ایران کی کی سائبر جاتی ہیں کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی
بین الاقوامی امور کے ماہر حمد حسن العربی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اب تک کتنے معاشی معاہدے اور اُن پر کیا پیشرفت ہوئی؟
وی نیوز کے پروگرام ’سیاست اور صحافت‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پائے جانے والا معاہدہ ’ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا‘ اور یہ گلوبل جیو پالیٹکس کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ورلڈ آرڈر تبدیل ہورہا ہے اور دنیا طاقت کے ایک مرکز سے ہٹ کر طاقت کے زیادہ مراکز کی طرف جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران پرانے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں اور نئے گٹھ جوڑ اور معاہدے طے پاتے ہیں اور یہی سب کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی ہوا تھا کہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹی اور نئے معاہدے اور بارڈر بنے۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کبھی بھی مڈل ایسٹ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں نہیں تھا اور اسی طرح یورپ سارے کا سارا پہلے کبھی اکٹھا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی یونین کا وجود ہوا اور تمام ملک اکٹھے ہوگئے، ادھر مڈل ایست الگ الگ ریاستوں میں بٹ گیا۔
’یورپ بکھرنے اور اسلامی ممالک ایک ہونے جا رہے ہیں‘انہوں نے کہا کہ اب دنیا ملٹی پولرِٹی کی طرف جارہی ہے اس تبدیلی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یورپ پھر سے ٹوٹنے اور مسلم ممالک ایک ہونے جارہے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان سعودی عرب کا ہر فورم پر بھرپور ساتھ دے گا: وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد کو یقین دہانی
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسلم اتحاد نیتن یاہو کی مڈل ایسٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کی بدولت وجود میں آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے سابق امریکی صدر نے بھی کہا تھا کہ نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مڈل ایسٹ میں جنگوں پر جنگیں کر رہا ہے۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مڈل ایسٹ کو پہلے سلطنت برطانیہ اور بعد میں امریکا کہتا تھا کہ ہم آپ کو سیکیورٹی فراہم کریں گے آپ اسلحے کی فکر نہ کریں لیکن جب اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں مختلف ملکوں پر حملے کرنا شروع کیے تو ان تمام ممالک کی سیکیورٹی گارنٹی پر سوال اٹھے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران سعودی عرب نے اپنی سالمیت کو مقدم سمجھتے ہوئے اپنی سیکیورٹی کے لیے یہ فیصلہ کیا اور اپنے بھائی ملک پاکستان سے معاہدہ کرلیا۔
وی نیوز کے سوال کے جواب میں احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ نیا نہیں اس پر بات چیت اس وقت ہی شروع ہوچکی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔
مزید پڑھیں: صحرا کو کیسے قابل کاشت بنائیں؟ پاکستان سعودی عرب سے مدد لینے کا خواہاں
عربوں کو اس وقت ہی اپنی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہوچکی تھی اور کچھ ماحول بھی ایسا ہوچکا تھا کہ یہ معاہدہ ہونا ہی تھا کیونکہ پاکستان نے معرکہ حق اور آپرشن بنیان مرصوص کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔
’یہ ٹاپ لیول معاہدہ ہے، گزشتہ معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں لائے گئےانہوں نے کہا کہ جو پاکستان اور سعودیہ کے پرانے دفاعی معاہدے تھے وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے تھے لیکن ابھی جو معاہدہ طے پایا ہے ٹاپ لیول کا معاہدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں آئے تھے جو ابھی ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی اس طرح کا ہائی آرڈر معاہدہ کبھی بھی کسی ملک کے درمیان نہیں ہوا کہ ایک ملک کے کسی شہر پر حملہ دوسرے ملک کے شہر پر حملہ تصور کیا جائے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاہدہ سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا، باقی ممالک بھی اسی معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے سائے تلے جمع ہوں گے اور یہ معاہدہ مسلم اتحاد کے حقیقی سفر کی طرف بڑھنے کی شروعات ہے۔
’اس معاہدے پر 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی‘انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی ہے جن میں سے ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟
احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ کو روکنے کے لیے ہے، معاہدے کا مقصد امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس معاہدے کے نکات خفیہ ہی رہیں تو بہتر ہیں کیونکہ اسرائیل سمیت دیگر ملکوں نے بھی اپنے معاہدے خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد حسن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پیش آنے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے عوام بہت خوش ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو یہ معاہدہ کسی لسانی یا ثقافتی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں طے پایا بلکہ اسلام کی بنیادوں پر طے پایا۔
’دیگر ممالک بھی پاکستان سے دفاعی معاہدے کریں گے‘احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودیہ کے اس اقدام کے بعد دیگر ممالک بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے پیش نظر اس سے معاہدے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اکانومی کافی سالوں سے گراوٹ کا شکار ہے لیکن جیو اکانومی کبھی بھی جیو اسٹریٹجک سے اوپر نہیں جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بڑے ممالک ہیں امریکا، روس اور چین ان سب نے جیو اسٹریٹجی کی بدولت ہی دنیا میں اپنی ڈھاک بٹھائی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
احمد حسن العربی نے کہا کہ ہم سب کے سامنے ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہترین اکانومی ہے اور ہمارے پاس بہترین دفاعی صلاحیت ہے تو دونوں مل کر بہترین حکمت عملی کے تحت اس پر کام کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی اکانومی بہت اوپر چلی جائے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں احمد العربی نے کہا کہ بڑے تھنک ٹینکس اس حوالے سے بات کرچکے ہیں کہ 21ویں صدی مشرق والوں کی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاور شفٹ ہورہی ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے کہ 21ویں صدی مشرق کی صدی ہوگی۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق اگلے 10 سال بعد اس ملک کا مستقبل بہت اچھا ہوگا جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اپنا پول سیٹ کرلے گا اور اس وقت قدرتی طور پر پاکستان کے لیے حالات خوشگوار دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان ان تینوں ملکوں کے درمیان اپنی جگہ بخوبی بنا رہا ہے۔
’بہترین ملٹری ڈپلومیسی نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنارہی ہے‘انہوں نے کہا کہ یہ بات یہاں بہت اہم ہے کہ پاکستان کی ملٹری ڈپلومیسی اس وقت بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ کی تفصیلات
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسی طرح پاکستان اپنے تعلقات مزید مضبوط کرتا رہا تو اگلے 10سالوں سے پہلے ہی پاکستان اس مقام پر ہوگا کہ جس کی رائے اور ہاں یا نہ طاقتور حلقوں میں مقدم ہوگی۔
احمد حسن العربی نے کہا کہ ’اگلے 10سالوں کے دوران پاکستان کا شمار دنیا کے ان 3،4 ملکوں میں ہوگا جن کی بات کہنے سے دنیا کے فیصلے ہوتے ہیں‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد حسن العربی پاکستان پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ سعودی عرب