ایران ناقابل شکست بن چکا ہے، سید منیر گیلانی
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
سابق وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ ایران نے ایسا سرپرائز دیا ہے کہ اب اسرائیلی وزیراعظم کا اپنا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے، لوگ اس کیخلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بھی حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی حکومتوں کو ان کے عوام نے مسترد کر دیا ہے جبکہ ایران میں رجیم چینج کا اسرائیلی خواب چکنا چور ہو گیا ہے،حالیہ اسرائیلی حملے نے ایرانی قوم کو متحد کر دیا ہے اور ایرانی بطور قوم اسرائیل کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر تعلیم سید منیر حسین گیلانی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران ناقابل شکست ہو چکا ہے، امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملہ کروا کر اسے ٹیسٹ کیا ہے اور امریکہ پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ و اسرائیل کو ایران کی جانب سے ایسے شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی، لیکن ایران نے ایسا سرپرائز دیا ہے کہ اب اسرائیلی وزیراعظم کا اپنا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے، لوگ اس کیخلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بھی حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی حکومتوں کو ان کے عوام نے مسترد کر دیا ہے جبکہ ایران میں رجیم چینج کا اسرائیلی خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ اسرائیلی حملے نے ایرانی قوم کو متحد کر دیا ہے اور ایرانی بطور قوم اسرائیل کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب سید علی خامنہ ای کے قتل کی دھمکیاں عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ سید منیر گیلانی کا کہنا تھا کہ ایران ایک مضبوط قوت ہے، اس کو شکست دینا اسرائیل کے بس میں نہیں۔ اسرائیل کی حالیہ تباہی سے حماس اور دیگر فلسطینی خوش ہیں اور انہیں آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اکثر عرب ملک بھی ایران کی حمایت کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسی جنگ میں ہی اسرائیل کا صفایا کر دیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی کہ امریکہ کر دیا ہے کہ ایران گیا ہے
پڑھیں:
امریکہ اسرائیل کا کہاں تک ساتھ دے گا؟
اسلام ٹائمز: ایران نے جس طرح کی اپنی میزائل پاور دکھائی وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ وہ امریکہ جس سے اسرائیل کی ساری امیدیں وابستہ تھیں، اسرائیل کی دیرینہ خواہش کے باوجود فوری طور پر ایران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکا بلکہ اس کی بجائے ٹرمپ نے اب یہ کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ دو ہفتے کے بعد کرے گا۔ ایک ہفتے میں اسرائیل کا جو حشر ہوا ہے گویا اگر یہی رفتار رہی تو دو ہفتے کے بعد اسرائیل کی حالت موجودہ حالت سے تین گنا زیادہ خراب ہوگی۔ تحریر: سید تنویر حیدر
امریکہ اپنی دوستی کی بجائے اپنی دشمنی سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اگر کسی کو کسی کی خالص دشمنی کا ذائقہ چکھنا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ امریکہ کی ذلف گرہ گیر کا اثیر ہو جائے۔ امریکہ اپنے چاہنے والوں سے جس طرح کا سلوک کرتا ہے، منیر نیازی کا یہ مصرعہ اس سلوک کی خوب ترجمانی کرتا ہے:
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسی کو مار دیتا ہوں
امریکہ کے اس دام الفت سے جڑی بہت سی کہانیاں ”انٹرنیشنل ریلیشنز“ پڑھنے والے طلباء کو فرفر یاد ہیں۔ امریکہ کی بے وفائی کی ان تمام داستانوں کو جاننے کے باوجود امریکی مدد سے لیلئ اقتدار کو حاصل کرنے والوں کو یہ گماں رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی ذلفوں کے سایے تلے رہیں گے۔ ایسے خوش گمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ پر اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرکے اس کی محبت خرید لیں گے لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ جس امریکی بیڑے سے مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ آپ کو طوفانی لہروں سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ اس کا کام محض آپ کے دریا برد ہونے کا تماشا دیکھنا ہے۔
ہم یہاں امریکہ کو اپنی امیدوں کا مرکز سمجھنے والے ان مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں، سیاسی جماعتوں یا شخصیات کا ذکر نہیں کرتے جو امریکہ کی بے وفائی کا شکار ہوئے بلکہ اس کا ذکر کرتے ہیں جو امریکہ کی جان سمجھا جاتا ہے اور جو امریکہ سے ہے اور امریکہ اس سے ہے۔ ہماری مراد امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل سے ہے۔ اسرائیل کو امید تھی کہ جب بھی اس پر کوئی حملہ آور ہوا امریکہ فوراً آگے آکر اس کی ڈھال بن جائے گا۔ اسرائیل نے جب ایران پر حملہ کیا تو امریکہ نے اس قسم کے بیانات دیئے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ امریکہ بس ایران کے خلاف جنگ میں کودا کہ کودا۔
یہ خیال تب تک پختہ تھا جب تک ایران نے پلٹ کر وار نہیں کیا لیکن ایران کے جوابی حملے کے بعد گویا ”این خیال است محال است و جنون“۔ ایران نے جس طرح کی اپنی میزائل پاور دکھائی وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ وہ امریکہ جس سے اسرائیل کی ساری امیدیں وابستہ تھیں، اسرائیل کی دیرینہ خواہش کے باوجود فوری طور پر ایران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکا بلکہ اس کی بجائے ٹرمپ نے اب یہ کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ دو ہفتے کے بعد کرے گا۔
ایک ہفتے میں اسرائیل کا جو حشر ہوا ہے گویا اگر یہی رفتار رہی تو دو ہفتے کے بعد اسرائیل کی حالت موجودہ حالت سے تین گنا زیادہ خراب ہوگی لیکن اگر اسی دوران جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہوا تو پھر اس وقت تک پلوں پر سے بہت سا پانی بہ چکا ہوگا۔ البتہ یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ آئندہ کسی مرحلے پر اس جنگ میں شامل نہیں ہوگا۔ آئندہ آنے والے حالات امریکہ کے کردار کو واضح کریں گے۔