ایران کی پارلیمنٹ میں اصول پرست بیٹھے ہوئے ہیں، جون حسین
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
لاہور:
ایرانی صحافی جون حسین کا کہنا ہے کہ میرا ذاتی خیال ہے ہو سکتا ہے سرپرائز ہو، ہو سکتا ہے کہ ریئلائزیشن بھی ہو کہ اب شاید ایران بات چیت نہیں کرے۔ اب ساکھ بچانے اور فوراً حملہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے جس میں سرپرائز کے عنصر کو بھی شامل کیا گیا ہے، دونوں چیزوں کا مکسچر بھی ہو سکتا ہے لیکن انہیں احساس ہو گیا تھا کہ امریکا کے ساتھ کوئی بھی مذاکرات نہیں ہوں گے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایران کا جو سسٹم ہے، جو موجودہ صدرمسعود پزشکیان ہیں وہ اصلاح پسند ہیں اور جو پارلیمنٹ ہے اس میں اصول پرست بیٹھے ہوئے ہیں.
(ر)ایئر کموڈور خالد چشتی نے کہا کہ میری نظر میں یہ ٹو فرنٹ ہے، ٹوفرنٹ یہ ہے کہ یہ ایک ڈیسپیشن تکنیک تھی، شاید جب سے دنیا بنی ہے جنگیں لڑی جا رہی ہیں، دشمن کو گمراہ کیا جاتا ہے، شاید اس کو جسٹیفائیڈ بھی سمجھا جاتا ہے، ایک سٹریٹیجی یا آپشن یہ نظر آتی ہے لیکن ایک اور کمپلشن بھی نظر آتی ہے جو شاید ان فورسین تھی اسرائیل اور امریکا کے نقطہ نظر سے، میرا خیال یہ ہے کہ اسرائیل نے جب پہلے دن حملہ کیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ ہم لیڈرشپ، ملٹری اور مورال کی اتنی زیادہ تباہی کریں گے ہم ایران کو اٹھنے کا موقع نہیں دیں گے، ایران نے جس طرح جواب دیا تو انھیں احساس ہوا کہ ایران توحملے کرتا جا رہا ہے.
تجزیہ کار اویس توحید نے کہا کہ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسرائیل کو سپورٹ کرنا امریکاکی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے، کوئی بھی امریکی صدر ہو چاہے وہ رونلڈ ریگن ہوں، جارج بش ہوں، بارک اوباما ہوں، جو بائیڈ ن ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ مان لیا تھا اور امریکا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا.
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے کہہ رہے تھے کہ ہم ایران کے ساتھ سفارت کاری سے کوئی راستہ نکالیں گے، مذاکرات کے پانچ دور بھی ہو گئے تھے۔ اب بمباری کر دی ہے، سفارت کاری میں جو لینڈ مائنز بچھائی ہیں وہ تو امریکا اور اسرائیل نے بچھائی ہیں ایران تو سفارت کاری سے انکاری نہیں ہے وہ تو مذاکرات کی میز پر تھا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم پر پرویز رشید نے کیا کہا؟
پرویز رشید—فائل فوٹومسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سینیٹر پرویز رشید نے 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کو پیش کرنے کا فیصلہ پارلیمانی لیڈرز اور سیاسی قیادت کرے گی، اطلاع کے مطابق آئندہ ہفتے سے اس عمل کو شروع کر دیا جائے گا۔
پرویز رشید کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 243 میں تبدیلیاں ہوں گی یا نہیں، اس کی تفصیلات مجھے نہیں معلوم، نظام کو بہتر کرنے کے لیے اگر تبدیلیوں کی ضرورت ہوئی تو ترمیم کر لینی چاہیے، ریاست، عوام اور حکومت کی ضروریات پورا کرنے کے لیے تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں تو کر لینی چاہئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو استحکام ملا ہے، معیشت بہتر ہے، دنیا اس کی تعریف کرتی ہے، استحکام اور معیشت میں بہتری مضبوط بنانے کے لیے ترامیم یا اضافے کی ضرورت ہے تو کرنی چاہیے، جو بھی کچھ کرنا ہے پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی سوچ موجود ہے، جو دھرنے اور یلغار کی سیاست کرتے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں، ہر ایک کی تعداد اتنی ہے کہ ان کو نظر انداز کر کے کچھ نہیں کر سکتے۔
انہو ں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں کوئی تجویز یا ترمیم پر پارلیمانی قوت استعمال کرنی چاہیے، سڑکوں پر قوت کے اظہار سے آپ اپنا اور ملک کا نقصان کر سکتے ہیں کوئی بہتری نہیں لا سکتے۔
پرویز رشید نے کہا کہ اگر ہر پارٹی اپنا پارلیمانی کردار ادا کرے تو آپ کو کسی ترمیم سے کوئی خوف یا خطرہ نہیں ہو گا، اگر تجاویز کے بجائے شرطیں عائد کریں تو اتفاقِ رائے نہیں ہو سکے گا، اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کے لیے اختلافات ہونے کے باوجود سب نے اتفاقِ رائے کیا۔
ایک صحافی نے پرویز رشید سے سوال کیا کہ کیا 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق نواز شریف سے بھی مشاورت کی گئی ہے؟
سینیٹر پرویز رشید نے جواب دیا کہ نواز شریف کے بغیر ہم سانس بھی نہیں لیتے، ہماری سانس ان کے نام کے ساتھ چلتی ہے، شہباز شریف نے جس طرح بھائی کا کردار ادا کیا دنیا دعا کرتی ہے، ایسا بھائی اللّٰہ سب کو دے، دیگر سیاسی جماعتیں بھی نواز شریف کی عزت کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میثاقِ جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنے کے لیے سب سیاسی جماعتیں ان سے مشورہ کرتی ہیں، نواز شریف کی اجازت، مشاورت، تجاویز اور رہنمائی سے ساری سیاست کرتے ہیں۔