لاہور:

 ایرانی صحافی جون حسین کا کہنا ہے کہ میرا ذاتی خیال ہے ہو سکتا ہے سرپرائز ہو، ہو سکتا ہے کہ ریئلائزیشن بھی ہو کہ اب شاید ایران بات چیت نہیں کرے۔ اب ساکھ بچانے اور فوراً حملہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے جس میں سرپرائز کے عنصر کو بھی شامل کیا گیا ہے، دونوں چیزوں کا مکسچر بھی ہو سکتا ہے لیکن انہیں احساس ہو گیا تھا کہ امریکا کے ساتھ کوئی بھی مذاکرات نہیں ہوں گے.

 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایران کا جو سسٹم ہے، جو موجودہ صدرمسعود پزشکیان ہیں وہ اصلاح پسند ہیں اور جو پارلیمنٹ ہے اس میں اصول پرست بیٹھے ہوئے ہیں. 

(ر)ایئر کموڈور خالد چشتی نے کہا کہ میری نظر میں یہ ٹو فرنٹ ہے، ٹوفرنٹ یہ ہے کہ یہ ایک ڈیسپیشن تکنیک تھی، شاید جب سے دنیا بنی ہے جنگیں لڑی جا رہی ہیں، دشمن کو گمراہ کیا جاتا ہے، شاید اس کو جسٹیفائیڈ بھی سمجھا جاتا ہے، ایک سٹریٹیجی یا آپشن یہ نظر آتی ہے لیکن ایک اور کمپلشن بھی نظر آتی ہے جو شاید ان فورسین تھی اسرائیل اور امریکا کے نقطہ نظر سے، میرا خیال یہ ہے کہ اسرائیل نے جب پہلے دن حملہ کیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ ہم لیڈرشپ، ملٹری اور مورال کی اتنی زیادہ تباہی کریں گے ہم ایران کو اٹھنے کا موقع نہیں دیں گے، ایران نے جس طرح جواب دیا تو انھیں احساس ہوا کہ ایران توحملے کرتا جا رہا ہے. 

تجزیہ کار اویس توحید نے کہا کہ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسرائیل کو سپورٹ کرنا امریکاکی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے، کوئی بھی امریکی صدر ہو چاہے وہ رونلڈ ریگن ہوں، جارج بش ہوں، بارک اوباما ہوں، جو بائیڈ ن ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ مان لیا تھا اور امریکا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا. 

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے کہہ رہے تھے کہ ہم ایران کے ساتھ سفارت کاری سے کوئی راستہ نکالیں گے، مذاکرات کے پانچ دور بھی ہو گئے تھے۔ اب بمباری کر دی ہے، سفارت کاری میں جو لینڈ مائنز بچھائی ہیں وہ تو امریکا اور اسرائیل نے بچھائی ہیں ایران تو سفارت کاری سے انکاری نہیں ہے وہ تو مذاکرات کی میز پر تھا۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ایک یمنی کا بے باک تجزیہ

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

جدید تاریخ میں مغرب اور عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ مفادات اور طاقت کے توازن پر مبنی رہے ہیں۔ جب بھی یہ توازن مغرب کے نقصانات کی طرف منتقل ہوا ہے، ان کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ آج مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے خطے میں برسوں کے طویل اور مہنگے تنازعات کے بعد، بڑی طاقتوں کے رویئے میں تھکاوٹ اور دوبارہ سوچنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ اسرائیل بھی اب علاقائی تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں ہے اور محفوظ فاصلے سے تبدیلیوں کی رہنمائی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کا تجزیہ قابل غور ہے۔ موجودہ سیاسی موڑ اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے مستقبل نیز یمن کے خلاف جنگ کے اثرات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں اس تجزیہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن میں انصار اللہ (حوثی) اور یمنی مسلح افواج کے مقابلے میں سعودی عرب، امارات اور قطر کو اب عسکری، سیاسی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے سے گریز کریں گے۔ وہ سابقہ ​​تنازعات میں شکست کھا چکے ہیں اور اب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیلی فوجیں یمن کے ساتھ جنگ ​​کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان ممالک کی افواج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی خفیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یمن کے خلاف جنگ کو ایک لا حاصل جنگ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر الحوثی اپنے تجزیئے میں بتاتے ہیں کہ یہ رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ سعودی عرب کو چاہیئے کہ وہ جلد از جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور امریکہ سے بغیر کسی حمایت اور  توقع کے اسے یہ اقدامات انجام دینا ہوگا۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے محمد بن سلمان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر حکومت کرنے کی خواہش ترک کر دیں اور آل سعود خاندان کو ان کی جگہ نیا حکمران منتخب کرنا چاہیئے۔

یہی بات متحدہ عرب امارات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ محمد بن زاید کو مستعفی ہونا چاہیئے اور اسے اپنا ایک جانشین انتخاب کرنا چاہیئے۔ قطر میں تمیم بن حمد کو مستعفی ہونا چاہیئے اور ایک مناسب جانشین کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ یہ اقدامات امن کے ذریعے یا عوامی انقلاب کے ذریعے انجام پانے چاہئیں۔ یمنی تجزیہ نگار کے مطابق امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی محمد بن سلمان کو اپنے مرحوم والد کی جگہ سعودی عرب کا بادشاہ تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاہ سلمان کا انتقال ایک سال سے زائد عرصہ قبل ہوا تھا، لیکن محمد بن سلمان نے اپنے خلاف بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اپنے والد کی موت کا باضابطہ اعلان کرنے اور ان کی جانشینی کے لیے شاہی فرمان جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ الحوثی کے مطابق یمنی مسلح افواج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دارالحکومتوں میں چند دنوں یا اس سے بھی کم یعنی چند گھنٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یمنی فورسز بڑی آسانی سے تیل کی تنصیبات، آرامکو، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور سعودی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کا کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی مزید لکھتے ہیں: سعودی عرب نے یمن میں جن گروہوں پر انحصار کیا ہے، جیسے کہ سیاسی قیادت کونسل، طارق افش، العرادہ اور الاصلاح پارٹی، یہ سب بدعنوان گروہ ہیں اور سعودی پیسہ ہڑپ کر رہے ہیں۔ یہ یمن کی حفاظت یا حوثی اور یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحادی بھی کرائے کی خواتین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی، برطانوی اور اسرائیلی فوجیں صنعا کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کو تیار نہیں ہیں، خاص طور پر حوثیوں کی فوجی، میزائل اور بحری صلاحیتوں میں اضافے کے بعد امریکا، برطانیہ اور حتیٰ کہ اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ اس یمنی مصنف کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ بھی صنعاء کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کے قابل نہیں ہے اور امریکی فوج، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی آمرانہ اور جابر حکومتوں کی جانب سے کوئی نئی جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور،نابینا افراد مطالبات کی عدم منظوری پر سڑک پردھرنا دیے بیٹھے ہیں
  • ایران نے پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش ظاہر کر دی
  • ایران نے پاکستان اور  سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کردی
  • اسلام آباد :ایران کی مجلس شوری کے اسپیکر ڈاکٹرمحمد باقر قالیباف پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیٹر بک میں اپنے تاثرات درج کر رہے ہیں
  • ایران کے میزائلوں نے آہنی گنبد کے افسانے کا خاتمہ کر دیا، ایاز صادق
  • اسلامی انقلاب ایران عوام میں مکتبِ فاطمیہ کی حقیقت طلبی کی تجلی ہے، آیت اللہ جنتی
  • غلط یا ڈپلیکیٹ ای چالان گھر بیٹھے منسوخ کرنے کا طریقہ سامنے آگیا
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر پرویز رشید نے کیا کہا؟
  • 27ویں ترمیم میں کسی غلط شق کی حمایت نہیں کی جائے گی، پی پی رہنما ناصر حسین شاہ
  • ایک یمنی کا بے باک تجزیہ