اسلام ٹائمز: صدر ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اپنی کانگریس سے بھی اس کی منظوری نہیں لی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے چہرے پر جو اثرات چھوڑے ہیں ان کی وجہ سے وہ اب امریکی عوام کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ کل تک جو میزائل ایران کی زمین سے پرواز کر رہے تھے آج وہ ٹرمپ کے چہرے سے ہوائیاں بن کر اڑ رہے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر
اسرائیل نے ایران کے ساتھ جو براہ راست جنگ چھیڑی تھی، امریکہ نے اس میں اپنا حصہ ڈال کر یہ خیال کیا تھا کہ اس جنگ میں وہ بزعم خود فتح یاب ہو کر اپنی کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا لیکن وقت کے ہاتھ میں جو قلم تھا اس نے ٹرمپ کی خواہشات کے برعکس ایسی تاریخ لکھی ہے جس کا ہر باب اپنے دامن میں ٹرمپ کی رسوائی کی ایک تاریخ لیے ہوئے ہے۔ 2006ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی امریکہ کی سیکرٹری آف فارن افئرز، ”کنڈولیزا رائس“ امریکہ کا ترتیب دیا ہوا نقشہ لیے مڈل ایسٹ میں گھوم رہی تھیں لیکن ”حزب اللہ“ نے پھر اس نقشے کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔
آج بھی اپنی میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں ”مخبوط الحواس“ قرار دیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ذہن میں ایران کی بربادی کا جو خبط لیے ہوئے تھے اسے ایران کے میزائیلوں کی دھمک نے ایسا ٹھکانے لگایا ہے کہ اب وہ ایران کا شکریہ ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایران جب ایک طرف اپنی ایٹمی تنصیبات پر امریکہ کے بے مقصد گرائے گئے میزائلوں کا حساب برابر کر رہا تھا تو اس وقت دوسری جانب ٹرمپ دن میں آسمان پر نظر آنے والے تاروں کی گنتی کر رہے تھے۔ اس صورت حال نے امریکی صدر کو ایسا چکر دیا ہے کہ کل تک وہ جو جنگ کے راستے پر گامزن تھا، آج اس کی سوئی امن کی راہ پر آ کر اٹک گئی ہے۔
صدر ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اپنی کانگریس سے بھی اس کی منظوری نہیں لی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے چہرے پر جو اثرات چھوڑے ہیں ان کی وجہ سے وہ اب امریکی عوام کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ کل تک جو میزائل ایران کی زمین سے پرواز کر رہے تھے آج وہ ٹرمپ کے چہرے سے ہوائیاں بن کر اڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ تو شاید عارضی طور پر ختم ہو جائے لیکن اس کے بعد امریکی عوام ٹرمپ کے مواخذے کی جو جنگ شروع کریں گے وہ اپنے انجام تک پہنچے گی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے اسرائیل سے عشق کے اس جذبے کو نقطہء انجماد تک پہنچا دیا ہے جو وہ اپنے دل ناتواں میں رکھتے تھے۔
ایران کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی لڑی جانے والی اس ”فائٹ“ میں ٹرمپ کو ”ریسلنگ رنگ“ سے باہر پھینک دے۔ ٹرمپ جو کسی دور میں ایک ریسلر کی حیثیت سے ریسلنگ کے قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر اپنے حریف کا سر مونڈنےکے عادی تھے، انہیں خبر ہونی چاہیئے کہ اب انہوں نے جس جنگ میں قدم رکھا ہے وہ کھیل کا میدان نہیں ہے بلکہ یہ خیبر کی طرز کا ایسا میدان ہے جس میں ان کا مقابلہ خیبر شکن کے وارثین سے ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ کے چہرے ایران کی
پڑھیں:
79 سالہ ٹرمپ نے اپنے سیاسی جانشین کا فیصلہ کرلیا؛ قرعہ فال کس کے نام نکلا ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ممکنہ سیاسی جانشین کے نام کا اعلان کردیا جو اُن کے اگلے صدارتی امیدوار بھی ہوں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سیاست میں ایک نئی پیش رفت نے ہلچل مچادی ہے جس کے سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوسکیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائب صدر جے ڈی وینس کو مستقبل میں اپنا جانشین تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا۔
ایک انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ٹرمپ نے واضح انداز میں کہا کہ انصاف کی بات کی جائے تو وینس نائب صدر ہیں اور یہ خود ایک بڑی نشانی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے سے گریز کیا لیکن ان کے تاثرات سے یہ پیغام ضرور ملا کہ وہ جے ڈی وینس کو 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے ایک ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں جے ڈی وینس کے شدید مخالف تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے خیالات میں ہم آہنگی پیدا ہوئی، خاص طور پر امیگریشن، تعلیم اور مذہب جیسے موضوعات پر اب وہ ایک صفحے پر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے دورَ اقتدار میں اپنے نائب کے لیے جے ڈی وینس کو چُنا۔
اگرچہ اس انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ مارکو روبیو سمیت کئی اور رہنما بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاہم پلڑا جے ڈی وینس کا بھاری نظر آتا ہے۔
خیال رہے کہ جے ڈی وینس کا سیاسی کردار حالیہ مہینوں میں خاصا نمایاں ہوا ہے۔ اندرونی و بیرونی پالیسی امور پر ان کی سنجیدہ اور متوازن رائے نے انہیں سیاسی حلقوں میں خاصا معتبر بنا دیا ہے۔
جے ڈی وینس کی عوامی اور میڈیا میں موجودگی نے ان کے تجربے اور تدبر کو اجاگر کیا ہے جو انہیں مستقبل کا مضبوط صدارتی امیدوار بناتا ہے۔
قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے وینس کی ذاتی زندگی بھی ان کی سیاسی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اوہائیو کے ایک صنعتی مگر زوال پذیر علاقے میں غربت اور خاندانی مسائل کے سائے میں پروان چڑھے۔