ایران پر جارحیت کے بدلے نوبل پرائز
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
گزشتہ روز امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے تین ایرانی نیوکلیئر سائٹس فردو، نتانز اور اصفہان کو حملہ کر کے تباہ کر دیا. اس سے اسرائیل کو فیس سیونگ تو مل گئی، لیکن جنگ بندی کے امکانات محدود ہو گئے ہیں جس کے لئے اسرائیل نے خود کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے امریکی صدر کا ترلا کیا تھا۔
اس حملے سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی دورے کے پس پردہ مقاصد کی بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے کہ یہ چاند چڑھانے سے قبل امریکی صدر پاکستان کے فیلڈ مارشل کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ اس جارحیت کا انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ آخر کب تک بلاوجہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملے کر کے دنیا کے امن و سکون کو تہس نہس کرتا رہے گا۔ اس حملے سے چند روز ہی پہلے ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے بمباری کی تھی جس میں جاپان، کوریا، چین، گواتی مالا، انڈونیشیا،کیوبا، کانگو، لاس، ویتنام، کمبوڈیا، گریناڈا، لبنان، لیبیا، ایل سلواڈور، نکاراگوا، ایران، پاناما، عراق، کویت،صومالیہ، بوسنیا، سوڈان، افغانستان، یوگوسلاویہ، یمن، پاکستان اور شام وغیرہ شامل ہیں۔ یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔
چین نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کے امن و شانتی کے لئے اصل خطرہ کون ہے۔‘‘ اس شدید اور تاریخی امریکی جارحیت کے پس منظر میں پاکستان کی امریکی صدر کو نوبل پرائز کی سفارش کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر یہ حملہ اسے دو ہفتوں کی مہلت دینے سے ’’یو ٹرن‘‘ لیتے ہوئے کیا یعنی امریکہ نے واضح طور پر وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کا مظاہرہ کیا، جس سے مشرق وسطی ایک بڑی اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
اس حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ امریکہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر کامیاب بمباری کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تمام امریکی طیارے ایرانی فضائی حدود سے محفوظ باہر نکل کر واپس آ گئے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ’’امن قائم ہو‘‘۔ یہ کس قدر حیرت انگیز ڈھٹائی ہے کہ ایک ملک پر آپ حملہ کر کے اس کی سلامتی کے ضامن کیمیائی ہتھیاروں کو بھی تباہ کریں اور ساتھ میں اسے امن کا پیغام بھی دیں؟ اس حملے سے چند روز پہلے کنگز کالج لندن میں سیکورٹی سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آندریاس کریگ نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ براہ راست ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو خلیجی خطے میں شدید نوعیت کی کشیدگی بھڑک اٹھے گی۔ایران کی طرف سے اس حملے کے بعد تادم تحریر فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا، مگر سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے نے ایک نشریاتی ادارے کے افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تینوں جوہری مراکز سے تابکار مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو پہلے سے اس حملے کا خدشہ تھا۔
ادھر الجزیرہ کی رپورٹر ڈورسا جباری نے قطر سے رپورٹ کیا کہ امریکہ کی طرف سے جن تین مراکز پر حملہ کیا گیا وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی ستون تھے۔ فورڈو اور نطنز وہ مراکز ہیں جہاں ایران 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا تھا، جبکہ اصفہان میں یورینیم کو افزودہ شکل میں تبدیل کیا جاتا تھا۔
2022 ء کی آئی اے ای اے رپورٹ کے مطابق 90فیصد افزودہ یورینیم اصفہان ہی میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ایران میں کل چھ جوہری مراکز ہیں اور امریکہ نے جن تین پر حملہ کیا وہ سب سے اہم شمار ہوتے ہیں۔اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے آفیشل ٹیلیگرام اکائونٹ پر ان کا ایک پرانا وارننگ ویڈیو دوبارہ شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوتا ہے تو ’’سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کا ہو گا۔‘‘ جبکہ ایران پر براہ راست امریکی حملے کی صورت میں چین اور روس نے بھی وارننگ دی تھی کہ وہ ایران کے دفاع اور مشرق وسطی کے امن کو تباہ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے نہ صرف ایران کا مکمل دفاع کریں گے بلکہ خلیجی ممالک میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے امریکی صدر کے امن کا یہ جنگجوعانہ پیغام کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ اپنے طور پر تو امریکی صدر دنیا بھر کے اپنے ناپسندیدہ ممالک پر جارحانہ حملے کر کے امن قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے بدلے خود کو نوبل پرائز کا حقدار بھی ٹھہراتے ہیں مگر یہ طریقہ اپناتے ہوئے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امن قائم کرنے کا ایسا جارحانہ رویہ فریب اور مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے دنیا میں امن قائم کرنا اور خاص طور پر مشرق وسطی میں جنگ بندی کی لوری دینے کی بین بجانا دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
یہ طریقہ جنگ کو ہوا تو دے سکتا ہے اسے جنگ بندی یا امن قائم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا ہے۔ امریکی صدر کو حقیقی دنیا میں رہ کر سوچنا چاہئے۔ جنگ نفع و نقصان کا کاروباری عمل نہیں، بلکہ یہ وسائل اور انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی نفرت انگیز سوچ ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکی صدر امریکہ نے ایران کے اس حملے کے امن کے بعد تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمارا زمانہ فتنۂ الفاظ کا زمانہ ہے، چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک الفاظ کے ذریعے ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں کہیں صرف الفاظ کفایت کررہے ہیں، کہیں اصطلاحیں اور کہیں نعرے… لیکن ان سب کی بنیاد الفاظ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں چنگیز خان انسانی تاریخ کی بدترین شخصیت تھا، اس نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ چنگیز خان واقعتاً ایک شقی القلب انسان تھا، لیکن اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ الفاظ اور اصطلاحوں سے کھیلنے اور ان کے ذریعے اپنی شقاوت کو خوش نما بنانے والا شخص نہیں تھا۔ چنگیز خان نے کبھی نہیں کہاکہ وہ انسانی آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جمہوریت کا علَم بردار ہے۔ اس کو کبھی یہ کہتے نہیں سناگیا کہ میری قومی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ساری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ خود کو انسانی آزادی کا محافظ، انسانی حقوق کا علَم بردار اور جمہوریت کا چیمپئن بھی کہتا ہے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشیں بھی کرتا ہے۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ سے بی بی سی ورلڈ پر ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عراق پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے وہاں دس سال میں 10لاکھ افراد دوائوں اور غذا کی قلت سے ہلاک ہوگئے، ان افراد میں 5لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔ البرائٹ نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر پورے وثوق کے ساتھ فرمایا:
“It is acceptable and worth it”
یعنی دس لاکھ معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں، یہاں تک کہ ہم اسے گھاٹے کا سودا بھی نہیں سمجھتے۔
دیکھا جائے تو ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ ایک بھاری بھرکم عنوان ہے، لیکن ان تعلقات کے پردے میں سازشوں کی ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ الم ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے دو ملکوں کے تعلقات کو آقا اور غلام کے تعلق میں ڈھال دیا ہے، اور نہ صرف یہ، بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ کیا ہے کہ انہوں نے غلامی کے اس تجربے کو ’’مدلل‘‘ بنانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کو پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کہنے کا کیا جواز ہے؟
جنرل ایوب خان نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات سامنے آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کے ان رابطوں سے ظاہر تھا کہ جرنیل ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اور وہ 1958ء میں ان سازشوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے اور اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کام کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود اُس نے جنرل ایوب کو ان کے عزائم سے باز رکھنے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب نے پاکستان کے جن سول حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کیا تھا وہ کمیونسٹ یا امریکہ مخالف نہ تھے، وہ سب کے سب امریکہ کے حامی بلکہ ’’امریکہ پرست‘‘ تھے، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا اور اسے فوجی آمریت سے محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہ کیا، حالانکہ 1958ء سرد جنگ کا زمانہ تھا اور کمیونزم کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرے۔ لیکن امریکہ نے جمہوریت کے خلاف سازش میں جنرل ایوب کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن یہ ساتھ خود جنرل ایوب کے لیے اتنا شرمناک بنا کہ اُن کی خودنوشت کے عنوان تک میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں، اس کے غلام نہیں۔
پاکستان کے خلاف امریکہ کی ایک اور بڑی سازش 1962ء میں سامنے آئی۔ اس سال چین بھارت جنگ ہوئی۔ اس جنگ کا دائرہ وسیع تھا اور چینی قیادت کو معلوم تھا کہ بھارت اس جنگ میں اپنی پوری جنگی قوت جھونکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ چین نے پاکستان سے کہاکہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائے۔ کشمیر تقسیم برصغیر کے فارمولے کی رو سے پاکستان کا حصہ ہے، چنانچہ پاکستان طاقت استعمال کرے اور کشمیر پر قبضہ کرلے۔ مگر یہ بات امریکہ کو معلوم ہوگئی اور اُس نے پاکستان کے حکمرانوں سے کہاکہ وہ بھارت کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ اگر وہ اس موقع پر بھارت کے خلاف اقدام سے باز رہا تو چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرادے گا۔ لیکن چین بھارت جنگ ختم ہوگئی اور امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جب پاکستان کو مذکورہ یقین دہانی کرا رہا تھا تو پاکستان امریکہ، اور بھارت سوویت یونین کے حلقۂ اثر میں تھا اور پنڈت نہرو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ لیکن امریکہ نے اس کے باوجود دوست کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اپنے دشمن کے دوست کو تقویت فراہم کی۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ کی سازشوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان کا بحران پاکستان کا داخلی مسئلہ تھا اور بھارت کو اس بحران میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ لیکن بھارت نے مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی جسے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی مدد صرف اس صورت میں کرسکتا ہے جب اسے کسی کمیونسٹ ملک سے خطرہ لاحق ہو۔ لیکن جب پاکستان کا اصرار بڑھا تو امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کرنے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکہ کا بحری بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بیڑا کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن امریکہ کا اس جنگ میں اس سے بھی بھیانک کردار اُس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے برادر اسلامی ملک اردن سے امریکی ساختہ ایف 104 طیارے طلب کیے۔ اس درخواست کے جواب میں اردن کے شاہ حسین نے 5 دسمبر 1971ء کو امریکہ کو ایک خط لکھا جس میں پاکستان کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اردن کو ایف 104 طیارے پاکستان کو فراہم کرنے کی اجازت دے۔ لیکن امریکہ نے اردن کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل یحییٰ نے اس صورتِ حال میں امریکہ سے کہاکہ اگر وہ خود پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا تو اردن کو ہی اس کی مدد کرنے دے، لیکن امریکہ نے جنرل یحییٰ کی بات کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا، یہاں تک کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ 1971ء میں پاکستان امریکہ کا قریب ترین اتحادی تھا۔ وہ سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ بلاشبہ بھارت کمیونسٹ ملک نہیں تھا لیکن وہ کمیونزم کی سب سے بڑی علامت سوویت یونین پر انحصار کرنے والا ملک تھا اور اس کی کمزوری خطے میں سوویت یونین کی کمزوری اور اس کی قوت سوویت یونین کی قوت تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں نہ خود پاکستان کی مدد کی اور نہ اردن کو اس کی مدد کرنے دی۔ امریکہ کے اس طرزِعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ قوانین کی بہت زیادہ پابندی کرنے والا ملک ہے، حالانکہ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ نے درجنوں جنگیں ایجاد کی ہیں، درجنوں حکومتوں کے تختے الٹے ہیں، لاکھوں لوگوں کو کسی جواز کے بغیر قتل کیا ہے۔
امریکہ پاکستان کا کتنا ’’گہرا دوست‘‘ اور قوانین کا کتنا زیادہ پابند ہے اس کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں ہونے والی ایف 16 طیاروں کی خریداری کے معاملے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں امریکہ سے ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے ایک تجارتی سمجھوتہ کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پیشگی ادا کی، لیکن امریکہ نے سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے دینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پریسلر ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے چنانچہ امریکہ پاکستان کو ایف 16 طیارے نہیں دے سکتا۔ یہ زیادتی کی انتہا تھی، لیکن امریکہ نے اس انتہا پر بھی قناعت نہ کی، اُس نے نہ صرف یہ کہ طیارے نہیں دیئے بلکہ پاکستان کی رقم ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ تجارتی سمجھوتوں کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی ملک نے نہ چیز دی ہو نہ خریدار کی رقم لوٹائی ہو۔ امریکہ پاکستان کی یہ رقم بارہ سال تک دبائے بیٹھا رہا اور پھر بالآخر اُس نے اس کے عوض پاکستان کو کھانے کا تیل فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں؟ لیکن امریکہ کی دشمنی اور سازشوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوگیا۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان کے پانچ ہزار فوجی اور تیس ہزار سے زیادہ عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان کو 10 برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، لیکن امریکہ کے لیے سب کچھ گنوا دینے والوں کے ہاتھ میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے سانحات آئے جن میں امریکہ نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری ہی کو نہیں امریکہ کے لیے قربانیاں دینے والی فوج کو بھی براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایسا کرکے امریکہ نے یہ بتایا کہ وہ پاک فوج کو اپنی اتحادی نہیں بلکہ کرائے کی فوج سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کیوں بن گئی ہے؟
انسانی تاریخ میں باطل قوتوں کی مزاحمت دو ہی بنیادوں پر بروئے کار آئی ہے: ایک ایمان اور دوسری خود تکریمی یا Self Respect۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کا ایمان بھی کمزور ہے اور ان کو خود تکریمی یا Self Respect بھی چھوکر نہیں گزری۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کو ایک ملک نہیں نعوذ باللہ خدا سمجھتے ہیں۔ انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ خدا پر بھروسا کرتا ہے اور ہر قیمت پر حق کی گواہی دیتا ہے، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے امریکہ کے ساتھ پچاس سالہ تعلق میں کبھی حق کی گواہی دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ جہاں تک انسان کی خود تکریمی کا تعلق ہے تو انسان اپنی عزت اُسی وقت کرتا ہے جب وہ خود کو انسان سمجھے اور اُس کی شخصیت کی جڑیں اُس کے معاشرے اور اُس کی تاریخ اور تہذیب میں پیوست ہوں۔ مگر ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کا تصورِ ذات اتنا پست ہے کہ انہیں عالمی سیاست کا شودر بھی نہیں کہا جاسکتا۔
جہاں تک ان حکمرانوں کی شخصیت کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں اپنے معاشرے، تاریخ اور تہذیب کے بجائے سیاسی اور معاشی مفادات میں پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکمران اپنی قوم کو بار بار فتح کرتے ہیں اور دشمنوں کے سامنے بار بار ہتھیار ڈالتے ہیں۔