Daily Ausaf:
2025-06-24@14:00:54 GMT

ایران پر جارحیت کے بدلے نوبل پرائز

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

گزشتہ روز امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے تین ایرانی نیوکلیئر سائٹس فردو، نتانز اور اصفہان کو حملہ کر کے تباہ کر دیا. اس سے اسرائیل کو فیس سیونگ تو مل گئی، لیکن جنگ بندی کے امکانات محدود ہو گئے ہیں جس کے لئے اسرائیل نے خود کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے امریکی صدر کا ترلا کیا تھا۔
اس حملے سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی دورے کے پس پردہ مقاصد کی بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے کہ یہ چاند چڑھانے سے قبل امریکی صدر پاکستان کے فیلڈ مارشل کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ اس جارحیت کا انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ آخر کب تک بلاوجہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملے کر کے دنیا کے امن و سکون کو تہس نہس کرتا رہے گا۔ اس حملے سے چند روز ہی پہلے ماسکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے بمباری کی تھی جس میں جاپان، کوریا، چین، گواتی مالا، انڈونیشیا،کیوبا، کانگو، لاس، ویتنام، کمبوڈیا، گریناڈا، لبنان، لیبیا، ایل سلواڈور، نکاراگوا، ایران، پاناما، عراق، کویت،صومالیہ، بوسنیا، سوڈان، افغانستان، یوگوسلاویہ، یمن، پاکستان اور شام وغیرہ شامل ہیں۔ یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔
چین نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کے امن و شانتی کے لئے اصل خطرہ کون ہے۔‘‘ اس شدید اور تاریخی امریکی جارحیت کے پس منظر میں پاکستان کی امریکی صدر کو نوبل پرائز کی سفارش کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر یہ حملہ اسے دو ہفتوں کی مہلت دینے سے ’’یو ٹرن‘‘ لیتے ہوئے کیا یعنی امریکہ نے واضح طور پر وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کا مظاہرہ کیا، جس سے مشرق وسطی ایک بڑی اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
اس حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ امریکہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر کامیاب بمباری کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تمام امریکی طیارے ایرانی فضائی حدود سے محفوظ باہر نکل کر واپس آ گئے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ’’امن قائم ہو‘‘۔ یہ کس قدر حیرت انگیز ڈھٹائی ہے کہ ایک ملک پر آپ حملہ کر کے اس کی سلامتی کے ضامن کیمیائی ہتھیاروں کو بھی تباہ کریں اور ساتھ میں اسے امن کا پیغام بھی دیں؟ اس حملے سے چند روز پہلے کنگز کالج لندن میں سیکورٹی سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آندریاس کریگ نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ براہ راست ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو خلیجی خطے میں شدید نوعیت کی کشیدگی بھڑک اٹھے گی۔ایران کی طرف سے اس حملے کے بعد تادم تحریر فوری ردعمل تو سامنے نہیں آیا، مگر سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے نے ایک نشریاتی ادارے کے افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تینوں جوہری مراکز سے تابکار مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کو پہلے سے اس حملے کا خدشہ تھا۔
ادھر الجزیرہ کی رپورٹر ڈورسا جباری نے قطر سے رپورٹ کیا کہ امریکہ کی طرف سے جن تین مراکز پر حملہ کیا گیا وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی ستون تھے۔ فورڈو اور نطنز وہ مراکز ہیں جہاں ایران 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا تھا، جبکہ اصفہان میں یورینیم کو افزودہ شکل میں تبدیل کیا جاتا تھا۔
2022 ء کی آئی اے ای اے رپورٹ کے مطابق 90فیصد افزودہ یورینیم اصفہان ہی میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ایران میں کل چھ جوہری مراکز ہیں اور امریکہ نے جن تین پر حملہ کیا وہ سب سے اہم شمار ہوتے ہیں۔اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے آفیشل ٹیلیگرام اکائونٹ پر ان کا ایک پرانا وارننگ ویڈیو دوبارہ شیئر کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوتا ہے تو ’’سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کا ہو گا۔‘‘ جبکہ ایران پر براہ راست امریکی حملے کی صورت میں چین اور روس نے بھی وارننگ دی تھی کہ وہ ایران کے دفاع اور مشرق وسطی کے امن کو تباہ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے نہ صرف ایران کا مکمل دفاع کریں گے بلکہ خلیجی ممالک میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے امریکی صدر کے امن کا یہ جنگجوعانہ پیغام کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ اپنے طور پر تو امریکی صدر دنیا بھر کے اپنے ناپسندیدہ ممالک پر جارحانہ حملے کر کے امن قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے بدلے خود کو نوبل پرائز کا حقدار بھی ٹھہراتے ہیں مگر یہ طریقہ اپناتے ہوئے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امن قائم کرنے کا ایسا جارحانہ رویہ فریب اور مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے دنیا میں امن قائم کرنا اور خاص طور پر مشرق وسطی میں جنگ بندی کی لوری دینے کی بین بجانا دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
یہ طریقہ جنگ کو ہوا تو دے سکتا ہے اسے جنگ بندی یا امن قائم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا ہے۔ امریکی صدر کو حقیقی دنیا میں رہ کر سوچنا چاہئے۔ جنگ نفع و نقصان کا کاروباری عمل نہیں، بلکہ یہ وسائل اور انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی نفرت انگیز سوچ ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امریکی صدر امریکہ نے ایران کے اس حملے کے امن کے بعد تھا کہ

پڑھیں:

امریکی جارحیت کے خلاف ردعمل کا تعین مسلح افواج کرے گی، ایران

نیویارک:

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے نمائندے امیر سعید ایراوانی نے امریکہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے ایران کے خلاف من گھڑت اور بے بنیاد بہانے کے تحت جنگ مسلط کی ہے۔

ایراوانی نے مزید کہا کہ ایران اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور امریکہ کی کھلی جارحیت کے خلاف اس کا ردعمل متناسب" ہوگا جس کا تعین ایرانی مسلح افواج کریں گی۔

اپنے طویل بیان میں ایراوانی نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو پر بھی الزام عائد کیا کہ انہوں نے امریکہ کو ایک اور مہنگی اور بے بنیاد جنگ میں دھکیل دیا ہے۔

ایران کے نمائندے نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے اقدامات بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی" ہیں۔

ایراوانی نے اسرائیل پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے ایران کے بارے میں جھوٹا اور غلط بیانیہ پھیلایا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب ہے۔

ایران کے نمائندے نے مزید کہا کہ بین الاقوامی تنظیموں اور کچھ مغربی ممالک، بشمول فرانس اور برطانیہ، کی خاموشی، دوہرا معیار اور مداخلت بھی اتنی ہی قابلِ مذمت ہے۔"

اپنے خطاب کے اختتام پر امیر سعید ایراوانی نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ امریکہ اور اسرائیل کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے دوبارہ جارحیت کی تو جواب پہلے سے کہیں زیادہ سخت اور تباہ کن ہوگا . کمانڈر پاسداران انقلاب
  • ایران پر امریکی حملے کیخلاف جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے
  • انسانی لہو ٹپکتے ہاتھ اور امن نوبل ایوارڈ
  • امریکی جارحیت ،جماعت اسلامی کا آج یوم احتجاج کا اعلان
  • امریکی جارحیت کے خلاف ردعمل کا تعین مسلح افواج کرے گی، ایران
  • ایران پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کیخلاف کل بلتستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
  • ٹرمپ کو نوبل پرائز کی سفارش کرنا بلنڈر ہے، لیاقت بلوچ
  • حکومت کا ٹرمپ کو نوبل پرائز کیلیے نامزد کرنا غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • حکومت کا ٹرمپ کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کرنا غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے،حافظ نعیم الرحمن