Express News:
2025-09-22@15:49:34 GMT

ایران کی جنگی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

امریکا نے ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کے بعد ایران نے اسرائیل پر بلاسٹک میزائیل چلائے ہیں۔امریکا کی بمباری کے بعد امریکا کا موقف ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے اسے مزید ایران پر حملوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ایران پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور جواب میں ایران بھی اسرائیل پر میزائل حملے کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی کے حملوں کے بعد بھی سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر امریکی حملے کامیاب رہے ہیں اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہوگیا ہے تو جنگ بند کیوں نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہی بتایا گیا تھا کہ جنگ ایران کے نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔

ایران نے امریکی بمباری کے بعد کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خطہ میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ لیکن ایران نے امریکی اڈو ں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ایران نے جواب میں اسرائیل پر ہی میزائیل چلائے ہیں۔ حالانکہ ایران نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا حملہ کرے گا تو امریکی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ اس کی براہ راست امریکا سے جنگ نہ ہو۔ اسی لیے پہلے ایران کا موقف تھا کہ اگر اسرائیل نے بھی حملہ کیا تو امریکا کو جواب دیا جائے گا۔ لیکن جواب اسرائیل تک ہی محدود رہا۔ اب بھی امریکی بمباری کے جواب میں بھی امریکا کو ابھی تک جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران کی جانب سے امریکا کو جواب نہ دینا ان کی ایک جنگی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔امریکا نے بھی احتیاط کی ہے، اس کے بی ٹو بمبار خطے میں موجود کسی امریکی اڈے یا کسی مسلم ملک میں موجود امریکی اڈے سے نہیں اڑے۔ اس لیے خطے میں امریکی اڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ شاید اسی لیے ایران نے خطہ میں موجود کسی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب وہ استعمال نہیں ہوئے تو انھیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔

ایک رائے کہ خطے میں موجود مسلمان ممالک نے امریکا کو کہا ہے کہ ان کے ممالک میں موجود اڈے نہ استعمال کیے جائیں۔ بھارت کی ائیر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنوں نے بہت پراپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایئر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ویسے تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پراپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دے دیے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ تھا۔ امریکا کو ایران سے لڑنے کے لیے کسی نئے اڈے کی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس بہت اڈے پہلے ہی موجود ہیں۔ لیکن اس نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت وہ بھی استعمال نہیں کیے ہیں۔

امریکی بمباری کے بعد دنیا میں کوئی خاص طوفان نہیں آیا۔ پاکستان نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے نہیں کی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عرب ممالک نے لفظ افسوس کا استعمال کیا ہے۔

یہ کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر افسوس ہے۔ کچھ ممالک نے افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا بلکہ انھوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سوا کسی نے امریکی حملوں کی حمایت نہیں کی۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن حمایت پھر بھی نہیں کی۔

برطانیہ نے یہ کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ شامل نہیں۔ لیکن برطانیہ نے بھی حملوں کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت کی ہے۔ البتہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپ ایران کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے لیکن یورپ کمزور بھی نظر آرہا ہے۔ یورپ میں امریکا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نظر نہیں آرہی۔ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اس لیے سفارتکاری کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کمزوری کافی عیاں ہے۔ فرانس کے صدر اور جر منی کے چانسلر کا موقف جنگ کے خلاف ہے۔ لیکن وہ جنگ روکنے کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔

او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن امریکا نے ایران پر حملہ او آئی سی کے اجلاس سے ایک دن بعد کیا۔ اس لیے امریکا کے خلاف کوئی قرارداد نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ معاملہ او آئی سی کے اگلے اجلاس میں آئے گا۔ او آئی سی بھی ایک کمزور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ویسے تو غزہ کے معاملہ میں بھی او آئی سی نے بہت مایوس کیا تھا اور ایران کے معاملہ پر بھی اس نے مایوس کیا ہے۔

جن ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات نہ تو ختم کرنے اور نہ ہی خراب کرنے کے لیے تیار ہیں، جن اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کا کوئی اجتماعی موقف نہیں ہے۔ صرف اپنے موقف کے دلیل میں یہی لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم ترکی کو اب اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ نہ تو غزہ اور نہ ہی ایران کے لیے ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور تجارت بند کرنے کے لیے تیارہے۔ باقی کی صورتحال بھی یہی ہے۔

امریکی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا ایران کا فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ ایران کی لڑائی امریکا اور اسرائیل سے ہے۔ اس سے امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چین کو ہوگا۔ چین تیل و گیس کی درآمد کے لیے آبنائے ہر مز استعمال کرتا ہے۔

اس لیے ایران کو چین کو نقصان پہنچانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران سے بات کرے۔کیا چین اپنے مفاد کے لیے ایران کے خلاف جنگ میں آجائے گا۔ ایران کو ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے۔

ایران کو مزید ممالک کو جنگ میں اپنے خلاف اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ممالک آبنائے ہرمز کے بند ہونے سے متاثر ہونگے کیا وہ اسے کھلانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ایک سوال ہے۔ایران کو دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پہلے ہی بہت کم ملک ہیں۔ لیکن جو ملک نیوٹرل ہیں انھیں بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ایران کی کوئی اچھی پالیسی نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل نیوکلیئر پروگرام اسرائیل کے ساتھ بمباری کے بعد کی بمباری کے کرنے کے لیے امریکی اڈے اسرائیل سے ایران نے ا امریکا کو او ا ئی سی نے امریکی ممالک نے ایران کو ایران کے ایران کا حملوں کی نے ایران ایران کی نہیں کی کے خلاف ہے کہ ا کیا ہے نے بھی نہیں ا گیا ہے بھی اس اس لیے

پڑھیں:

اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی

تجزیہ کار نے کہا کہ بہت سے مغربی ماہرین نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں ایران کا ہاتھ اوپر ہی تھا، ایران واحد ملک ہے جو تل ابیب اور حیفہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہا۔ اسلام ٹائمز۔ بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار ملیحہ محمدی نے ایران میں قومی سلامتی کے فقدان اور غیر ملکی خطرات کے مقابلے میں ملک کی بے بسی کے بارے میں برطانوی نیوز نیٹ ورک کے معاندانہ دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایران کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ مسخ شدہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہے، ایران کی قومی سلامتی کسی بھی طرح خطرے  کی زد نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے 12 روزہ جنگ میں کھل کر اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا، بہت سے مغربی ماہرین نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں ایران کا ہاتھ اوپر ہی تھا، ایران واحد ملک ہے جو تل ابیب اور حیفہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہا، یہاں تک کہ ایک اسرائیلی اہلکار نے اعتراف کیا کہ میں یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ تل ابیب ہے یا غزہ۔ دوسری جانب حیرت کی بات ہے کہ بی بی سی ایران کی بے بسی کی بات تو کرتا ہے لیکن اسرائیل کی مایوسی اور بربادی کے پورے دنیا میں ہونیوالے چرچوں سے چشم پوشی کرتا ہے، اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک بار پھر 12 روزہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ تواٹل ہے کہ اسرائیل باقی نہیں رہے گا لیکن ایران باقی ریہگا۔  

متعلقہ مضامین

  • ایرانی پارلیمنٹ کے 71 سخت گیر اراکین کا ایٹم بم بنانے اور دفاعی حکمتِ عملی پر نظرثانی کا مطالبہ
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایشیا کپ 2025: بھارت کے خلاف میچ سے قبل پاکستان نے حکمت عملی طے کرلی
  • امریکا اسرائیل کو 6 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرے گا
  • امریکی پابندیوں سے چھوٹ کا خاتمہ: بھارت کی چابہار حکمت عملی پر کاری ضرب
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟
  • مسلم حکمران اپنے مفادات اورامریکی خوف کے باعث اہل غزہ کی مددسے گریزاں ہیں