Express News:
2025-08-08@10:22:50 GMT

ایران کی جنگی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

امریکا نے ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کے بعد ایران نے اسرائیل پر بلاسٹک میزائیل چلائے ہیں۔امریکا کی بمباری کے بعد امریکا کا موقف ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے اسے مزید ایران پر حملوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ایران پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور جواب میں ایران بھی اسرائیل پر میزائل حملے کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی کے حملوں کے بعد بھی سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر امریکی حملے کامیاب رہے ہیں اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہوگیا ہے تو جنگ بند کیوں نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہی بتایا گیا تھا کہ جنگ ایران کے نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔

ایران نے امریکی بمباری کے بعد کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خطہ میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ لیکن ایران نے امریکی اڈو ں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ایران نے جواب میں اسرائیل پر ہی میزائیل چلائے ہیں۔ حالانکہ ایران نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا حملہ کرے گا تو امریکی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ اس کی براہ راست امریکا سے جنگ نہ ہو۔ اسی لیے پہلے ایران کا موقف تھا کہ اگر اسرائیل نے بھی حملہ کیا تو امریکا کو جواب دیا جائے گا۔ لیکن جواب اسرائیل تک ہی محدود رہا۔ اب بھی امریکی بمباری کے جواب میں بھی امریکا کو ابھی تک جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران کی جانب سے امریکا کو جواب نہ دینا ان کی ایک جنگی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔امریکا نے بھی احتیاط کی ہے، اس کے بی ٹو بمبار خطے میں موجود کسی امریکی اڈے یا کسی مسلم ملک میں موجود امریکی اڈے سے نہیں اڑے۔ اس لیے خطے میں امریکی اڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ شاید اسی لیے ایران نے خطہ میں موجود کسی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب وہ استعمال نہیں ہوئے تو انھیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔

ایک رائے کہ خطے میں موجود مسلمان ممالک نے امریکا کو کہا ہے کہ ان کے ممالک میں موجود اڈے نہ استعمال کیے جائیں۔ بھارت کی ائیر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنوں نے بہت پراپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایئر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ویسے تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پراپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دے دیے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ تھا۔ امریکا کو ایران سے لڑنے کے لیے کسی نئے اڈے کی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس بہت اڈے پہلے ہی موجود ہیں۔ لیکن اس نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت وہ بھی استعمال نہیں کیے ہیں۔

امریکی بمباری کے بعد دنیا میں کوئی خاص طوفان نہیں آیا۔ پاکستان نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے نہیں کی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عرب ممالک نے لفظ افسوس کا استعمال کیا ہے۔

یہ کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر افسوس ہے۔ کچھ ممالک نے افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا بلکہ انھوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سوا کسی نے امریکی حملوں کی حمایت نہیں کی۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن حمایت پھر بھی نہیں کی۔

برطانیہ نے یہ کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ شامل نہیں۔ لیکن برطانیہ نے بھی حملوں کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت کی ہے۔ البتہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپ ایران کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے لیکن یورپ کمزور بھی نظر آرہا ہے۔ یورپ میں امریکا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نظر نہیں آرہی۔ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اس لیے سفارتکاری کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کمزوری کافی عیاں ہے۔ فرانس کے صدر اور جر منی کے چانسلر کا موقف جنگ کے خلاف ہے۔ لیکن وہ جنگ روکنے کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔

او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن امریکا نے ایران پر حملہ او آئی سی کے اجلاس سے ایک دن بعد کیا۔ اس لیے امریکا کے خلاف کوئی قرارداد نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ معاملہ او آئی سی کے اگلے اجلاس میں آئے گا۔ او آئی سی بھی ایک کمزور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ویسے تو غزہ کے معاملہ میں بھی او آئی سی نے بہت مایوس کیا تھا اور ایران کے معاملہ پر بھی اس نے مایوس کیا ہے۔

جن ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات نہ تو ختم کرنے اور نہ ہی خراب کرنے کے لیے تیار ہیں، جن اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کا کوئی اجتماعی موقف نہیں ہے۔ صرف اپنے موقف کے دلیل میں یہی لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم ترکی کو اب اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ نہ تو غزہ اور نہ ہی ایران کے لیے ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور تجارت بند کرنے کے لیے تیارہے۔ باقی کی صورتحال بھی یہی ہے۔

امریکی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا ایران کا فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ ایران کی لڑائی امریکا اور اسرائیل سے ہے۔ اس سے امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چین کو ہوگا۔ چین تیل و گیس کی درآمد کے لیے آبنائے ہر مز استعمال کرتا ہے۔

اس لیے ایران کو چین کو نقصان پہنچانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران سے بات کرے۔کیا چین اپنے مفاد کے لیے ایران کے خلاف جنگ میں آجائے گا۔ ایران کو ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے۔

ایران کو مزید ممالک کو جنگ میں اپنے خلاف اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ممالک آبنائے ہرمز کے بند ہونے سے متاثر ہونگے کیا وہ اسے کھلانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ایک سوال ہے۔ایران کو دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پہلے ہی بہت کم ملک ہیں۔ لیکن جو ملک نیوٹرل ہیں انھیں بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ایران کی کوئی اچھی پالیسی نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل نیوکلیئر پروگرام اسرائیل کے ساتھ بمباری کے بعد کی بمباری کے کرنے کے لیے امریکی اڈے اسرائیل سے ایران نے ا امریکا کو او ا ئی سی نے امریکی ممالک نے ایران کو ایران کے ایران کا حملوں کی نے ایران ایران کی نہیں کی کے خلاف ہے کہ ا کیا ہے نے بھی نہیں ا گیا ہے بھی اس اس لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ

یاد رہے کہ معاہدات ابراہیمی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے، جسے ٹرمپ نے اپنی گذشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے جوہری پروگرام اور معاہدات ابراہیمی سے متعلق ایک اور بیان سامنے آگیا۔ امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر جاری پیغام میں کہا اب ایران کی جوہری صلاحیت مکمل طور پر تباہ کردی گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اب جب ایران کے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل تباہ ہوچکا ہے، ان کے لیے بہت اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائیں، کیونکہ ایسا کرنے سے خطے میں امن کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

یاد رہے کہ معاہدات ابراہیمی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے، جسے ٹرمپ نے اپنی گذشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ 15 ستمبر 2020ء میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین معاہدات ابراہیمی میں شامل ہوئے تھے، تاہم بعد ازاں 10 دسمبر 2020ء کو مراکش اور 6 جنوری 2021ء کو سوڈان نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان: تیزی سے بڑھتی آبادی کے مسئلے پر قومی حکمت عملی بنانے کی ہدایت
  • ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ
  • حکومت ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے فعال حکمت عملی پر گامزن ہے، احسن اقبال
  • ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
  • پی ٹی آئی کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں، عمران خان کی رہائی کے لیے 4 سے 5 لاکھ لوگ اسلام آباد چاہیے، شیر افضل مروت
  • قیمتی پتھروں اور زیورات کا شعبہ برآمداتی حکمتِ عملی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، وزیر تجارت
  • ایران؛ اسرائیل کو شہید جوہری سائنسدان کی ’لوکیشن‘ فراہم کرنے والے کو پھانسی دیدی گئی
  • پاکستان اور ترکیہ کی بحری افواج کے درمیان دو طرفہ مشق کامیابی سے مکمل
  • ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں نیوکلئیر سائنسدان سمیت دو افراد کو پھانسی دے دی
  • صدر ٹرمپ کی نئی اقتصادی حکمت عملی: روسی تیل پر پابندیاں، خود امریکا کو خطرہ؟