Express News:
2025-06-24@01:34:21 GMT

ایران کی جنگی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

امریکا نے ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کے بعد ایران نے اسرائیل پر بلاسٹک میزائیل چلائے ہیں۔امریکا کی بمباری کے بعد امریکا کا موقف ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے اسے مزید ایران پر حملوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ایران پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور جواب میں ایران بھی اسرائیل پر میزائل حملے کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی کے حملوں کے بعد بھی سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر امریکی حملے کامیاب رہے ہیں اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہوگیا ہے تو جنگ بند کیوں نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہی بتایا گیا تھا کہ جنگ ایران کے نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔

ایران نے امریکی بمباری کے بعد کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خطہ میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ لیکن ایران نے امریکی اڈو ں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ایران نے جواب میں اسرائیل پر ہی میزائیل چلائے ہیں۔ حالانکہ ایران نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا حملہ کرے گا تو امریکی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ اس کی براہ راست امریکا سے جنگ نہ ہو۔ اسی لیے پہلے ایران کا موقف تھا کہ اگر اسرائیل نے بھی حملہ کیا تو امریکا کو جواب دیا جائے گا۔ لیکن جواب اسرائیل تک ہی محدود رہا۔ اب بھی امریکی بمباری کے جواب میں بھی امریکا کو ابھی تک جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران کی جانب سے امریکا کو جواب نہ دینا ان کی ایک جنگی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔امریکا نے بھی احتیاط کی ہے، اس کے بی ٹو بمبار خطے میں موجود کسی امریکی اڈے یا کسی مسلم ملک میں موجود امریکی اڈے سے نہیں اڑے۔ اس لیے خطے میں امریکی اڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ شاید اسی لیے ایران نے خطہ میں موجود کسی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب وہ استعمال نہیں ہوئے تو انھیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔

ایک رائے کہ خطے میں موجود مسلمان ممالک نے امریکا کو کہا ہے کہ ان کے ممالک میں موجود اڈے نہ استعمال کیے جائیں۔ بھارت کی ائیر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنوں نے بہت پراپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایئر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ویسے تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پراپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دے دیے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ تھا۔ امریکا کو ایران سے لڑنے کے لیے کسی نئے اڈے کی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس بہت اڈے پہلے ہی موجود ہیں۔ لیکن اس نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت وہ بھی استعمال نہیں کیے ہیں۔

امریکی بمباری کے بعد دنیا میں کوئی خاص طوفان نہیں آیا۔ پاکستان نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے نہیں کی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عرب ممالک نے لفظ افسوس کا استعمال کیا ہے۔

یہ کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر افسوس ہے۔ کچھ ممالک نے افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا بلکہ انھوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سوا کسی نے امریکی حملوں کی حمایت نہیں کی۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن حمایت پھر بھی نہیں کی۔

برطانیہ نے یہ کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ شامل نہیں۔ لیکن برطانیہ نے بھی حملوں کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت کی ہے۔ البتہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپ ایران کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے لیکن یورپ کمزور بھی نظر آرہا ہے۔ یورپ میں امریکا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نظر نہیں آرہی۔ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اس لیے سفارتکاری کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کمزوری کافی عیاں ہے۔ فرانس کے صدر اور جر منی کے چانسلر کا موقف جنگ کے خلاف ہے۔ لیکن وہ جنگ روکنے کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔

او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن امریکا نے ایران پر حملہ او آئی سی کے اجلاس سے ایک دن بعد کیا۔ اس لیے امریکا کے خلاف کوئی قرارداد نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ معاملہ او آئی سی کے اگلے اجلاس میں آئے گا۔ او آئی سی بھی ایک کمزور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ویسے تو غزہ کے معاملہ میں بھی او آئی سی نے بہت مایوس کیا تھا اور ایران کے معاملہ پر بھی اس نے مایوس کیا ہے۔

جن ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات نہ تو ختم کرنے اور نہ ہی خراب کرنے کے لیے تیار ہیں، جن اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کا کوئی اجتماعی موقف نہیں ہے۔ صرف اپنے موقف کے دلیل میں یہی لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم ترکی کو اب اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ نہ تو غزہ اور نہ ہی ایران کے لیے ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور تجارت بند کرنے کے لیے تیارہے۔ باقی کی صورتحال بھی یہی ہے۔

امریکی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا ایران کا فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ ایران کی لڑائی امریکا اور اسرائیل سے ہے۔ اس سے امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چین کو ہوگا۔ چین تیل و گیس کی درآمد کے لیے آبنائے ہر مز استعمال کرتا ہے۔

اس لیے ایران کو چین کو نقصان پہنچانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران سے بات کرے۔کیا چین اپنے مفاد کے لیے ایران کے خلاف جنگ میں آجائے گا۔ ایران کو ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے۔

ایران کو مزید ممالک کو جنگ میں اپنے خلاف اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ممالک آبنائے ہرمز کے بند ہونے سے متاثر ہونگے کیا وہ اسے کھلانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ایک سوال ہے۔ایران کو دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پہلے ہی بہت کم ملک ہیں۔ لیکن جو ملک نیوٹرل ہیں انھیں بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ایران کی کوئی اچھی پالیسی نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل نیوکلیئر پروگرام اسرائیل کے ساتھ بمباری کے بعد کی بمباری کے کرنے کے لیے امریکی اڈے اسرائیل سے ایران نے ا امریکا کو او ا ئی سی نے امریکی ممالک نے ایران کو ایران کے ایران کا حملوں کی نے ایران ایران کی نہیں کی کے خلاف ہے کہ ا کیا ہے نے بھی نہیں ا گیا ہے بھی اس اس لیے

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ میں امریکا کے جنگی اثاثے کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟

مشرق وسطیٰ میں امریکا نے گزشتہ 2 دہائیوں میں جس تسلسل اور قوت سے اپنی عسکری موجودگی کو پھیلایا ہے، وہ کسی بھی ممکنہ جنگ یا ہنگامی صورتحال میں اس کی فیصلہ کن مداخلت کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں یہ سوال پھر سے اٹھا ہے کہ خطے میں امریکا کے جنگی اثاثے کہاں کہاں موجود ہیں اور کس حد تک فعال ہیں؟

الجزیرہ کے دفاعی تجزیہ کار ایلیکس گیٹوپولوس کے مطابق امریکا کے پاس خلیجی خطے میں متعدد کلیدی فضائی اور بحری اڈے موجود ہیں۔ امریکا کے 5 فضائی ایکسپیڈیشنری ونگز اس وقت خلیجی ممالک میں تعینات ہیں، جن میں 2 کویت، اور ایک ایک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں موجود ہیں۔

سعودی عرب اور کویت میں تعینات ونگز F-15 اور F-16 جیسے جدید لڑاکا طیاروں سے لیس ہیں جبکہ قطر میں قائم فضائی ونگ حملہ آور صلاحیت نہیں رکھتا لیکن یہ انٹیلی جنس، فضائی ایندھن فراہمی، اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا مرکز ہے۔

مزید پڑھیں: ایران امریکی حملوں کا کیا جواب دے سکتا ہے؟ 3 ممکنہ منظرنامے

گزشتہ 18 ماہ میں امریکا نے کویت میں نئے فضائی دفاعی نظام نصب کیے ہیں جبکہ قطر میں ایک اضافی میزائل ڈیفنس سائٹ کی تعمیر کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ امارات میں پہلے ہی امریکا کا THAAD میزائل سسٹم متحرک ہے۔ خطے میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز کی موجودگی بھی مستحکم دفاعی حصار کی صورت رکھتی ہے۔

خلیج فارس میں امریکا کا 5واں بحری بیڑا بحرین میں قائم ہے، جہاں سے وہ خلیج فارس، بحر عرب، اور خلیج عمان تک کی نگرانی کرتا ہے۔ اس بیڑے کا حصہ طیارہ بردار جہاز USS Carl Vinson ہے جو اپنے فضائی اسکواڈرن، تباہ کن میزائل کشتیوں اور آبدوزوں کے ساتھ کسی بھی اندرونی ہدف پر حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امریکا کی اسپیشل فورسز عراق، شام اور اردن میں بھی محدود پیمانے پر موجود ہیں، جو مقامی اتحادی افواج کے ساتھ انسداد دہشتگردی آپریشنز میں شامل رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سائبر کمانڈ، ڈرون آپریشنز اور خلائی نگرانی کے لیے امریکا نے قطر اور متحدہ عرب امارات میں کلیدی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی حملے کے سنگین نتائج ہوں گے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی

خطے میں یہ تمام عسکری تنصیبات صرف دفاعی حصار نہیں بلکہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے بھی مکمل طور پر تیار ہیں۔ ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کی صورت میں امریکا اپنے ان جنگی اثاثوں کے ذریعے تیز، مہلک اور ہمہ گیر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے موجودہ تناظر میں یہ اثاثے محض عسکری طاقت کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہیں کہ امریکا کسی بھی بڑے تنازع کی صورت میں غیر حاضر نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

F-15 F-16 THAAD USS Carl Vinson امریکا امریکا کے جنگی اثاثے مشرق وسطیٰ

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ پھیلنے کا خدشہ
  • ایرانی سپریم لیڈر کا روسی صدر کو خط: امریکا و اسرائیل کیخلاف عملی مدد کی اپیل
  • ایران اسرائیل جنگ کے اثرات، پاکستان اسٹاک مارکیٹ گرگئی
  • ایران نے جہاد فی سبیل للہ کے مفہوم کو عملی جامہ پہنایا‘شہنشاہ نقوی
  • پاک فوج جدید جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو بھرپور جواب دے رہی ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف
  • مشرق وسطیٰ میں امریکا کے جنگی اثاثے کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟
  • امریکا کے سب سے تباہ کن طیارے بحرالکاہل روانہ کر دیے جانے کی اطلاعات
  • امریکا نے ایران کی زیر تعمیر جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی صلاحیت کے حامل بی-2 بمبار بحرالکاہل منتقل کردیے
  • ایران کی کامیاب جنگی حکمت عملی