Express News:
2025-06-23@23:34:19 GMT

بُک شیلف

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

تبصرہ نگار: سید عاصم محمود
’’21ویں صدی کے ماڈرن مسلمان کے لئے 
شخصیت سازی کے سنہرے اصول ‘‘
مصنف : محمد بلال لاکھانی 
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور 
قیمت :770روپے۔4کلر آرٹ پیپر ،برائے رابطہ : 042-37324034

پیش نظر کتاب ’’ 21ویں صدی کے ماڈرن مسلمان کے لئے شخصیت سازی کے سنہرے اصول ‘‘ دارالسلام کی بہت ہی خوبصورت اور مفید کتاب ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد بلال لاکھانی ہیں جو قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں محمد بلال لاکھانی نے اصل میں یہ کتاب انگریزی زبان میں real Life Lesson From The Holy Quran(for the 21 Ist Century Muslim) کے نام سے لکھی تھی۔

زیر نظر کتاب انگلش کااردوترجمہ ہے جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام نے آرٹ پیپر پر چہار کلر، دلکش اور جاذب نظر طریقے سے باتصویر شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی افادیت اور اہمیت کااندازہ اس کے نام سے بھی کیاجاسکتا ہے۔یہ کتاب کامیاب زندگی گزارنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے مشعل راہ اور کامیابی کازینہ ہے۔

زندگی بہت قیمتی شہ ہے ، اسے ہم اپنی مرضی سے نہیں گزارسکتے۔ اس لئے کہ زندگی کاایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق بسر کی جائے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ کامیاب زندگی بسر کرے ، اس کی زندگی میںآرام اورسکون ہو۔ آرام دہ اور پرسکون زندگی کاراز اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہے۔

دنیاامتحان گاہ ہے اور زندگی ایک امتحان ہے۔امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو محنت کرے اور امتحان کی تیاری کے لئے سب سے پہلے طے شدہ نصاب پڑھے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر بہت مشفق ومہربان ہے یہ اس کی شفقت ومحبت اور رحمت ہے کہ اس نے ہمیں دنیا میں ہی نصاب اور امتحان کے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے طریقے سے تیاری کرلیں۔ یہ نصاب قرآن مجید ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس نصاب کو بہت کم پڑھاجاتا ہے یا پڑھتاتو جاتا ہے لیکن سمجھا نہیں جاتا۔ زندگی کے پرچے حل کرتے وقت جوبڑی غلطیاں کی جاتی ہیں وہ نصاب ِ زندگی کوتوجہ سے نہ پڑھنے کا ہی منطقی نتیجہ ہے۔

چنانچہ دنیا کے دیگر امتحانوں کی طرح زندگی کے امتحان کے نصاب کو پڑھنا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ پیش نظر کتاب کا مقصد بھی یہی باور کروانا ہے کہ اکیسویں صدی کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان قرآن مجید سے زندگی کے اسباق تلاش کریں اور اس کو نصاب زندگی کے طور پرپڑھیں۔ یہ کتاب ان شاء اللہ قارئین میں قرآن مجیدکے تفصیلی مطالعے اور اس پر گہرے غوروخوض کاشوق اور جذبہ پیداکرے گی۔

اس کتاب میں اکیسویں صدی کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان کے لئے قرآن مجید سے اخذ کئے گئے سو سے زائد اسباق دیے گیے ہیں اور زندگی کے معاملات ومسائل کے متعلق قرآن مجید سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کے آسان اور موثر طریقے بتائے گئے ہیں۔ کتاب کاانداز بیان سادہ ، دلنشین اور عام فہم ہے۔ قرآن مجید سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کے لئے مختلف اسالیب کی مناسب تشریح بھی کتاب میں شامل ہے۔ کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے باب میں بتایاگیا ہے کہ زندگی خوشگوار ہوتوکیاکرنا چاہئے ،زندگی خوشگوار نہ ہوتو کیاکرناچاہئے ،اللہ تعالیٰ دولت اور صحت واپس لے لے توکیاکرناچاہئے ؟مشکلات ومصائب میں کون سی قرآنی آیات مددگار ہیں ، آدمی خود کوشیطان کاپیروکار بنتادیکھے تو کیا کرے؟۔ دوسرے باب میں حصول جنت کی قدم بہ قدم منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اور ان افعال ، احوال اور معاملات کاتذکرہ کیاگیاہے جن پر عمل پیرا ہوکر بندہ یقینی طور جنت کاحقدار بن جاتا ہے۔ تیسرے باب میں جہنم سے بچنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں اور کارآمد نصیحتیں بیان کی گئی ہیں۔چوتھے باب میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کی روشنی میں حقیقی زندگی کے اسباب بیان کئے گئے ہیں۔

آخری باب میں بیان کیا گیا ہے کہ روپیہ اور اسلام دوست ہیں یادشمن ؟۔اہم بات یہ ہے کہ کتاب میں مذکور تمام واقعات اور تمثیلات قرآن مجید سے ہی لئے گئے ہیں اور قرآن مجید سے خوب استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کاہرہر باب اچھی ، کامیاب اور حقیقی زندگی گزارنے کے متعلق کئی کئی اسباق پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید کے زریں اصولوں ، ہدایات ، اسباق پر مشتمل یہ کتاب ہرنوجوان بچے ، بچی کی ضرورت ہے ۔

قرآن مجید سے ماخوذ نصاب ِ زندگی کی یہ کتاب اکیسویں صدی کے جدید مسلمان کو غلطیوں سے بچائے گی اور سیدھی راہ پرچلائے گی۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا کے انسان اپنے مسائل کے حل کے لئے قرآن مجید سے رہنمائی لیں۔ ظاہری اعتبار سے یہ کتاب جس قدر خوبصورت ہے مضامین کے اعتبار سے اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت اور دلکش ہے۔ یہ کتاب ہر گھر اور ہر لائبریری کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب اپنے بچوں ، بچیوں اور دوست احباب کو تحفہ میں بھی دی جاسکتی ہے۔

سماجی رویوں کی تشکیل 
(سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں)
مصنف: ڈاکٹر عباس علی رضا
ناشر: صبح نور پبلی کیشنز، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور: صفحات: 336

ڈاکٹر عباس علی رضا کی تصنیف ’’سماجی رویوں کی تشکیل، سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں‘‘ ایک علمی اور فکری کاوش ہے جس میں مصنف نے نہایت ہی خوبصورتی اور جامعیت کے ساتھ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ کے ان پہلوئوں کو بیان کیا ہے، جو ہمارے سماجی رویوں کو سنوارنے اور مہذب بنانے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔

کتاب میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح نبی کریمﷺ نے ایک غیر منظم، جاہل اور غیر مساوی معاشرے کو عدل، مساوات، رواداری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ایک مثالی معاشرے میں تبدیل کیا۔ مصنف نے سیرتِ طیبہﷺ کی روشنی میں فرد اور معاشرے کے تعلق، معاشرتی انصاف، بین الانسانی روابط، اور اسلامی سماج کے اصولوں کو نہایت مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب عصر حاضر کے مسائل کے حل کے لیے سیرتِ نبویﷺ کو ایک زندہ رہنما اصول کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اسلامیات کے طلبہ کے لیے مفید ہے بلکہ معاشرتی علوم اور اخلاقی تربیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی ایک قیمتی اضافہ ہے۔

مصنف نے کتاب میں مختلف ابواب کو جن شہ سرخیوں سے سینچا ہے یعنی ’’عہد حاضر میں مطالعہ سیرت النبیﷺ کے فروغ کی عملی تعبیرات، تعمیرِ شخصیت میں سماجی رویوں کی اہمیت اور تقاضے، حسن اخلاق، رواداری، ایثار و ہمدردی، حلم و بردباری، شرم و حیات، عدل و انصاف اور عزم و استقلال کی اہمیت‘‘ وہ نہایت فکر انگیز اور عصر حاضر کی لازمی ضرورت بن چکے ہیں۔

اگرچہ سیرت النبیﷺ پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں اورآئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی لیکن یہ موضوع ایسا ہے، جس پر جتنا لکھا جا سکے وہ کم اور مجموعی طور پر معاشرے کے لئے نہایت ضروری ہے تاکہ امت محمدیہﷺ کو پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماجیات کے حوالے سے یہ کتاب سیرت طیبہﷺ اور فرمان مصطفیﷺ کا ایسا گل دستہ ہے، جس کی خوشبو کبھی مانند پڑے گی نہ اس سے سکون قلب میں کمی واقع ہو گی۔ (تبصرہ نگار: رانا نسیم)

 تعلیمی تربیتی سنہری کہانیاں 
مصنف : عبدالمالک مجاہد ،صفحات : 408،قیمت : 1500روپے 
ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل ، لوئر مال ، نزد سیکرٹیریٹ سٹاپ ، لاہور 
برائے رابطہ :37324034 042

زیر تبصرہ کتاب ’’ سنہری کہانیاں ‘‘ نوجوان بچوں ، بچیوں اور خصوصاََ آٹھویں ، نویں اور دسویں کے طلبہ وطالبات کے لیے لکھی گئی ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی تربیت واصلاح کے حوالے سے یہ بہت ہی شاندار ، لاجواب اور مفید کتاب ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جو نوجوان ایک بار یہ کتاب پڑھ لے۔ ممکن نہیں کہ وہ اپنے اندر مثبت اور مفید تبدیلی نہ پائے۔ ہمارا معاشرہ جس تیزی سے تباہی کا شکار ہے ان حالات میں نوجوانوں کی تربیت واصلاح کی بے حد ضرورت ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ قوم کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوان ہی قوم کی تعمیر وترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

24 کروڑ آبادی کے حامل ملک پاکستان کی مجموعی آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر کے جوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ان میں 29 فیصد 15 سے 29 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح 195 ممالک میں سے پاکستان یوتھ پاپولیشن کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کسی بھی قوم کی کامیابی وناکامی ، فتح وشکست ، ترقی وتنزلی اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ باوجود اس بات کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک تعمیر وترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔

وجہ یہ کہ نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہیں کی جارہی۔ آج بھی اگر نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کی جائے تو یقینا یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل بن سکتا ہے اور قوم کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں دارالسلام انٹر نیشنل بچوں اور نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ کتابیں شائع کررہا ہے۔ پیش نظر کتاب ’’ سنہری کہانیاں ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں ’’ جب بھی کوئی مصنف یا مؤلف کوئی کتاب لکھتا یا تالیف کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ ’’ سنہری کہانیاں ‘‘ لکھنے کا سبب بھی ایک ایسے سکول ٹیچر ہیں جو ایک دفعہ مجھے سے ملے اور کہنے لگے ’’ مجاہد صاحب ! میرا معمول ہے کہ کلاس میں بچوں کو پڑھانے سے پہلے آپ کی کسی نہ کسی کتاب کا کوئی واقعہ اپنے شاگردوں کو سناتا ہوں۔

اس سے بچوں کے دل نرم اور دماغ فریش ہوجاتے ہیں۔ اس طرح میں بڑے اچھے انداز میں اپنے شاگردوں کو پڑھا لیتا ہوں‘‘۔مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ قوم کا ایک معمار اورمعلم بچوں کی اصلاح و تربیت میں میری کتابوں سے مدد لیتا ہے۔ اس ایک واقعہ سے بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ کتابوں میں لکھے بعض واقعات بہت عمدہ اور دلچسپ ہوتے ہیںجو سامعین کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اگر واقعات سچے ہوں تو ان کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں جبکہ اس کائنات میں سب سے سچی کتاب قرآن مجید ہے جس کا ایک ایک لفظ صحیح ہے یا پھر صحیح احادیث میں جو واقعات مذکور ہیں وہ بھی بالکل صحیح ہیں۔ پیش نظر کتاب ’’ سنہری کہانیاں ‘‘ کی تیاری میں قرآن مجید ، احادیث سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود واقعات سے مدد لی گئی ہے۔

اسی طرح بعض واقعات عصر حاضر میں پیش آتے ہیں، بعض معاصر کتابوں اور اخبارات میں جگہ پاتے ہیں ،بعض علماء کرام ، خطباء اور واعظین بیان کرتے ہیں۔اس طرح کے ایک سو سبق آموز اور نصیحت آموز واقعات اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب میں موجود کہانیوں کا انتخاب عمدہ ، دلچسپ ، تربیتی اور اصلاحی ہے۔جن کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل موضوعات سے کیا جاسکتا ہے : اپنے قاتل پر لطف وکرم ، جب بھی نواسہ رسولﷺ کو دیکھا آنکھیں بھیگ گئیں ، لاالہ الا کی فضیلت وبرکت ، ایک ذہین جرنیل کی کہانی ، دماغ سے کام لو جیبوں کو بھر لو ، قریشی نوجوان کی ایمان افروز کہانی ، یہودی بچے کی عیادت ، عبرتناک موت کے واقعات ، طاقت کے باوجود معاف کرنے والا جنتی ، انگور کے خوشے نے وزارت دلا دی ، طلبہ کے ساتھ حکمت ، چرواہے کا تقویٰ حیران کرگیا ، بیت الخلا میں موت ، فضول خرچ آدمی شیطان کا بھائی ، احسان اور وفا کا دن ، سب سے زیادہ مہمان نواز مکی گھرانہ ، جھوٹی قسم کھانے والے کا عبرناک انجام ، سر قلم ہونے والا تھا کہ معاف کردیا ، امی فرشہ فرشتہ آگیا آگیا ، اللہ کی رضا پر راضی رہنے والی ماں ، نبی علیہ السلام کی خاص دعا خاص موقع کے لیے ، خیر اور بھلائی کی خصلتیں ، چھوٹے بچے بڑوں کے رہبر ، غریب بڑھیا کی دعا کا معجزہ ، سکول ٹیچر کی کہانی اس کی زبانی ، براء بن مالک نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ، بھلائی بری موت سے بچاتی ہے ، میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا ، نبیﷺ کا ایک خوش قسمت دیہاتی دوست۔ کتاب میں شامل دیگر موضوعات بھی اسی طرح دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب ہر گھر کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہئے کہ گھروں میں اپنے بچوں کو یہ واقعات سنائیں ، اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں یہ واقعات سنائیں ، دوست اپنی محفلوں اور مجالس میں اور واعظین اپنے خطبوں اور تقاریر میں یہ واقعات بیان کریں۔ ان شاء اللہ ان واقعات سے معاشرے میں ایک واضح اور مثبت تبدیلی آئے گی۔

 مرے ہمدم مرے دوست
مصنف: ڈاکٹر محمد جواد، پبلشر: عکس پبلی کیشنز لاہور، سنِ اشاعت: مئی 2025

ڈاکٹر محمد جواد محض میرے استاد نہیں، میرے فکری سفر کے ہم رکاب، میرے ذوقِ جمال کے راہبر، اور میرے حرف و خیال کے اولین معمار ہیں۔ اگر آج میری تحریر میں کوئی روانی، کوئی معنویت، یا کوئی لطیف سی فکری رمق موجود ہے تو وہ بلا شبہ انہی کی صحبتِ علم و آگہی، تربیتی شفقت اور بصیرت افروز رہنمائی کی دین ہے۔ میری پہلی نثر، پہلا خاکہ، پہلا مقالہ۔سب کچھ انہی کے زیرِسایہ نمو پایا۔ گویا میرے قلم نے انہی کی انگلی تھام کر حرف کی دنیا میں قدم رکھا۔

ڈاکٹر جواد کی تازہ ترین تصنیف "مرے ہمدم مرے دوست"، محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک درویش مزاج فکری عاشق کا خراجِ تحسین ہے ان عظیم روحوں کے نام، جنہوں نے مصنف کے شعور کو جلا بخشی، ان کی فکری ساخت کو سنوارا، اور ان کے ذاتی و تخلیقی وجود کو مہمیز دی۔ یہ کتاب محض شخصی تاثرات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ، رواں اور متفکر مکالمہ ہے—قلم اور قلب کے درمیان؛ شاگرد اور استاد کے مابین؛ اور مصنف اور ان ہستیوں کے بیچ جو ان کے ذہن و دل کے افق پر ستاروں کی مانند روشن رہیں۔

مصنف نے اس کتاب میں پچیس ایسی ہستیوں کو شامل کیا ہے جنہوں نے ان کے ذاتی اور تخلیقی سفر کو متاثر کیا۔ ان میں شیکسپئیر، چیخوف، میر، غالب، اقبال، ٹیگور اور صوفی تبسم جیسے کلاسیکی نام بھی شامل ہیں، اور ان کے ہم عصر دانشور، ادیب، موسیقار، نقاد، ہدایت کار اور گلوکار بھی—جن میں انور سجاد، قاسمی صاحب، گلزار، خواجہ خورشید انور، ملکہ ترنم، یوسفی، وارث علوی اور خورشید رضوی جیسے گوہر نایاب شامل ہیں۔ ان سب ہستیوں سے مصنف کی وابستگی محض علمی یا جمالیاتی نوعیت کی نہیں، بلکہ ایک ایسی باطنی ہم آہنگی کی مظہر ہے جو ہر سچے تخلیق کار اور قاری کے درمیان پْل باندھتی ہے۔ جیسے قاری اور مصنف کے درمیان ایک مکالمہ جاری ہو، ایک ایسا مکالمہ جو وقت، ثقافت، زبان اور مسافت کی قید سے ماورا ہو کر خالص روحانی و فکری سطح پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔

کتاب میں شامل مضامین کا اولین وصف ان کی انفرادیت اور اخلاص ہے۔ یہ روایتی سوانحی خاکے یا تعریفی تاثرات نہیں، بلکہ ایسے فکری مرقعے ہیں جن میں مصنف نے ہر شخصیت کو اس زاویے سے دیکھا ہے جہاں وہ ان کے باطن میں ایک زندہ تجربہ بن کر موجود ہے۔ نہ یہاں مدح سرائی ہے، نہ بے جا ستائش؛ نہ تعصب ہے، نہ عقیدت کا اندھا جوش۔ بلکہ ایک محبِ فن اور طالبِ علم کی وہ سچی، دھیمی اور وقار سے لبریز آواز ہے جو ہر جملے میں ماضی کی کسی فکری نشست، کسی ادبی لمحے یا کسی جمالیاتی مکاشفے کی بازگشت سناتی ہے۔کتاب کا مطالعہ گویا وقت کی کمان سے نکلے ایک ایسے لمحے میں واپسی کا تجربہ ہے، جہاں کلاس روم کی سنجیدہ فضا، استاد کی پْراثر آواز، اور خیالات کی پرواز ہمیں دوبارہ اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان مضامین میں روایتی تعریف و توصیف کا شائبہ نہیں۔ یہاں شخصیت پرستی نہیں، بلکہ شخصیت شناسی ہے؛ عقیدت نہیں، مگر فکری قربت ہے؛ تعریف نہیں، بلکہ دریافت ہے۔

ہر شخصیت کا ذکر مصنف کی اپنی بصیرت، اپنے فہم اور اپنی دریافت کی روشنی میں ہے۔ سب کچھ اس کتاب کے اوراق میں اس طرح سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں جیسے وقت ٹھہر گیا ہو، اور ہم ان لمحوں میں دوبارہ داخل ہو گئے ہوں جہاں علم، حسن اور فکر کی مثلث نے ہمیں گھیر رکھا تھا۔جواد صاحب کا یہ اعتراف کہ "عظیم شخصیات اپنی آمد یا الہام سے جو تخلیق کرتی ہیں، وہ larger than life ہوتی ہیں"، درحقیقت اس کتاب کا جوہری نکتہ ہے۔ زندگی کے کسی بھی مقام پر، جب انسان غالب یا میر کی شاعری میں اپنا عکس دیکھتا ہے، جب چیخوف یا سارتر کے افکار میں زندگی کا پرتو محسوس کرتا ہے، یا جب نورجہاں کی آواز میں اپنے جذبات کی مکمل ترجمانی سنتا ہے—تو وہ لمحہ دراصل ادب اور انسان کے مابین روحانی اتصال کا لمحہ بن جاتا ہے۔

"مرے ہمدم مرے دوست" ایک ایسی کتاب ہے جو مصنف کی فکری حیات کا آئینہ بھی ہے اور اس کے تخلیقی سفر کا خالص ترین حاصل بھی۔ یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ استاد صرف نصاب نہیں پڑھاتا، وہ اپنی زندگی، اپنے محسوسات، اپنی ترجیحات اور اپنی دریافتیں بھی اپنے شاگردوں کے سپرد کرتا ہے۔ اور جب شاگرد ان عطاؤں کو محسوس کرتا ہے، تو وہ انہیں لفظوں کی صورت میں محفوظ کر لیتا ہے۔ایسے لفظ، جو صرف پڑھنے کے نہیں، جینے کے ہوتے ہیں۔یہ تصنیف اْن تمام قاریوں کے لیے ایک تحفہ ہے جو علم و ادب کو محض موضوعِ مطالعہ نہیں، ایک طرزِ زیست سمجھتے ہیں؛ جو فنکاروں اور مفکرین کو مجسم روشنی تصور کرتے ہیں؛ اور جو جانتے ہیں کہ بعض شخصیات اپنے فن سے بڑھ کر، ہماری زندگیوں کے ہم سفر بن جاتی ہیں۔خاموشی سے، مگر مستقل۔

ڈاکٹر جواد کی یہ کاوش ان کی وسعتِ نظر، گہرائیِ فکر اور صداقتِ احساس کا درخشندہ استعارہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف علم دوست حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک فکری حوالہ بنے گی۔ایک ایسا حوالہ جو دل کو چھو جائے، اور ذہن کو جھنجھوڑ دے۔(تبصرہ نگار: قراۃالعین حیدر)
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سنہری کہانیاں کتاب میں میں نوجوانوں پیش نظر کتاب کی روشنی میں سماجی رویوں نوجوانوں کی اللہ تعالی کی اہمیت بلکہ ایک ہوتے ہیں ضرورت ہے زندگی کے کتاب کا جاتا ہے ہوتا ہے گئے ہیں ہیں اور اس کتاب کرتا ہے یہ کتاب گئی ہے کیا ہے گیا ہے اور اس اور ان بلکہ ا صدی کے کے لئے ہیں کہ

پڑھیں:

آسانی سے معاف نہیں کرتی، والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگے:جیا علی

کراچی(نیوز ڈیسک)ماضی کی مقبول اداکارہ جیا علی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو آسانی سے معاف نہیں کر پاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگ گئے۔
ڈان کے مطابق حال ہی میں جیا علی نے توثیق حیدر کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔
ایک سوال کے جواب میں جیا علی نے بتایا کہ وہ پاکستانی ڈرامے یا فلمیں نہیں دیکھتیں اور اس میں اُن کے اپنے ڈرامے بھی شامل ہیں۔
اداکارہ کے مطابق اس کی کوئی خاص وجہ نہیں، بس انہیں لگتا ہے کہ زیادہ تر ڈراموں میں ایک جیسی کہانیاں ہوتی ہیں، جیسے کہ ساس بہو کے جھگڑے، جنہیں وہ دیکھنا پسند نہیں کرتیں، البتہ انڈسٹری کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ بعض اوقات ایسے ڈراموں میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈراموں میں بہت کم کام کرتی ہیں، کیونکہ انہیں ان کرداروں سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔
جیا علی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن اور لکڑی کے چمچ استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی سے کیمیکلز کا استعمال کم کر دیا ہے، ان کا کھانا مٹی کے برتنوں میں تیار ہوتا ہے اور وہ برتن سوڈا اور لیموں سے دھوئے جاتے ہیں، وہ نہیں چاہتیں کہ مصنوعی مواد ان کے کھانے میں شامل ہو۔
اداکارہ نے مزید بتایا کہ انہیں اپنے والد کو معاف کرنے میں کئی دہائیاں لگیں، ان کے والدین کے درمیان کشیدہ تعلقات تھے اور بعد میں ان کی طلاق ہوگئی۔
جیا علی کے مطابق، انہوں نے اپنے والدین کے رشتے میں تشدد بھی دیکھا اور اگرچہ ان کی والدہ انہیں ہمیشہ والد سے ملنے کی ترغیب دیتی رہیں، لیکن انہیں اس رشتے کو بہتر بنانے اور نارمل محسوس کرنے میں کئی سال لگے۔
مزیدپڑھیں:ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے امریکا کیلئے نئی جنگ کا آغاز کردیا،دمتری میدویدیف

متعلقہ مضامین

  • مصنف فرمان علی چوہدری عجمی
  • آئی پی ایل کو ترجیح دینے پرتحفظات ہیں‘، مچل جانسن ساتھی کھلاڑیوں پر برس پڑے
  • ہم ہارے نہیں، دل جیتے، ہاکی کو دوبارہ زندگی دی: عماد بٹ
  • آسانی سے معاف نہیں کرتی، والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگے:جیا علی
  • ایرانی لیڈرشپ نے کبھی لگژری زندگی نہیں گزاری، وہ مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں، پروفیسر قندیل عباس
  • ایران کا جذبہ جہاد
  • ڈیجیٹل ڈیپریشن اور سوشل میڈیا پر مقابلے کا رجحان
  • افغانستان: طالبان نے کلاشنکوف چھوڑ کر قلم اٹھا لیے
  • اپنی خود کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں!