راولپنڈی:

عمران خان نے کہا ہے کہ میری مشاورت کے بغیر کے پی کا بجٹ منظور نہیں ہونا چاہیے تھا، سپریم کورٹ کی اجازت سے بجٹ میں وہ تبدیلیاں کرنی ہوں گی جو میں چاہوں گا یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔

اڈیالہ جیل میں عمران خان سے بہنوں کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں علیمہ خان نے کہا کہ ڈاکٹر عظمی اور نورین نیازی کی بانی سے ملاقات ہوئی مگر یہ مجھے نہیں جانے دیتے، بانی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا مشکل وقت میں عوام کی آواز بنا ہوا ہے، بانی نے کہا کہ بیرسٹر سیف بھیجے گئے تھے انھوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بجٹ اتنی جلدی اور مجبوری میں کیوں پیش کیا گیا، کہا کہ علی امین گنڈا پور کو میرے پاس بہت پہلے آجانا چاہیے تھا۔

علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ پہلے 5 رکنی ٹیم میرے پاس مشاورت کےلئے آئے، اگر بجٹ پیش کر دیا ہے تو سپریم کورٹ جائیں اور بتائیں کہ آئی ایم ایف کیسے قبول کرے گا پارٹی ہیڈ کی مشاورت کے بغیر یہ بجٹ منظور نہیں ہونا چاہیے تھا، اب سپریم کورٹ جائیں اجازت لیں، وہی مشاورتی ٹیم میرے پاس آئے، دیکھوں گا جو تبدیلیاں کرنا پڑی گی۔

علیمہ خان نے کہا کہ بانی سرپلس بجٹ پر بالکل خوش نہیں تھے اور کہا کہ آپ نے سرپلس کیوں دکھایا؟ یہ وفاقی حکومت کو بینیفٹ کرتا ہے، اب وہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ سے اجازت لے کر تبدیلیاں لائیں وہ جو تبدیلیاں کہیں گے وہ کرنا ہوں گی، یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ وہ بجٹ قبول کرلیں جو بہت جلدی تین گھنٹے میں پاس کر دیا گیا۔

یہ پڑھیں : میرا خیال ہے مائنس عمران خان ہوچکا، علیمہ خان

علیمہ خان کے مطابق بانی نے کہا ہمیشہ سے ڈرونز کے خلاف ہیں لیکن جو بھی حملے کر رہا ہے اس کے خلاف ایف آئی آرز درج کرائیں یہ اب وکلاء بتائیں گے، بانی نے ہمیشہ کہا جب آپ بے گناہ لوگوں کو ماریں گے تو اس سے دہشت گردی بڑھے گی، بانی نے کہا اس وقت ملک میں کوئی ہائبرڈ سسٹم نہیں ہے، بانی کہتے ہیں میں ان سے بات کروں گا جن کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے عاصم منیر کو بلا کر بات کی، اس کا مطلب میں ملک میں ہائبرڈ سسٹم نہیں مارشل لاء ہے، باہر کے ممالک شہباز شریف کو جانتے بھی نہیں ہوں گے نہ صدر زرداری سے بات کرتے ہیں۔

علیمہ خان کے مطابق بانی کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب عوام اپنا رد عمل دیتی ہے آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ خلاف ہے بلکہ آپ کو ان کی آواز سننا چاہیے، یہاں پر کرنل صاحب فیصلہ کرتے ہیں کہ کون جیل کے اندر ملاقات کے لیے جائے گا، تیمور جھگڑا، سلمان اکرم اور علی امین کو اجازت نہیں ملتی لیکن بیرسٹر سیف کو ملاقات کی اجازت ملتی ہے، کرنل صاحب جو فیصلہ کرتے ہیں ان کو بیرسٹر سیف ہی پسند ہیں۔

علیمہ خان کے مطابق عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اور ایران اکٹھے مل کر سیز فائر کرکے فیصلے کرلیں گے، ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے، ایران بڑی مضبوط قوم ہے ان سے سیکھنا چاہیے، ہمیں ملک میں قانون کی حکمرانی، اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان علیمہ خان کے مطابق بانی نے کہا ہونا چاہیے سپریم کورٹ خان نے کہا چاہیے تھا مشاورت کے نے کہا کہ

پڑھیں:

ہمارے انورؔ مسعود

انورؔ مسعود کے لفظوں میں لطافت بھی ہے، بصیرت بھی۔ وہ قہقہے کے دامن میں حکمت کے پھول رکھ دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں جیسے روشنی ہنستی اور خاموشی بولتی ہے۔ وہ استاد، جس نے نسلوں کو فارسی کی مٹھاس اور پنجابی کی سچائی کا ذائقہ چکھایا۔ وہ عاشقِ سخن، جس نے کہا:
’جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے، رونے کو چھپانا ہوتا ہے‘
8 نومبر 2025 ان کا 90واں یوم پیدائش تھا۔ اس موقع پر ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو ان سے کچھ غیر روایتی گفتگو (گپ شپ) بھی ہوئی، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شکر ہے شین پہ نکتے ہیں، ورنہ گپ سپ ہوجاتی۔

لفظ کی تتلی: انور مسعود کی پہلی محبت

میں گجرات کا رہنے والا ہوں۔ مودی والا گجرات نہیں، ہمارا گجرات، جو وزیرآباد اور لالہ موسیٰ کے درمیان واقع ہے۔ میرا بچپن وہیں گزرا۔ ہم صِنتکار لوگ ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے بجلی کے پنکھے بنائے تھے۔ آپ نے ’یونس فین‘ کا نام سنا ہوگا؟ وہ میرے چچا تھے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ مجھے اس صنعت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میرے اندر ابتدا ہی سے لفظ کے لیے ایک بے نام سی کشش پیدا ہو گئی تھی۔

مجھے یاد ہے، بچپن میں گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک عورت کی بطخ باہر نکل آئی۔ وہ گھبرا کر بولی: ’کاکا، بطخ نوں ڈک لے!‘ میں نے بطخ کو تو نہیں پکڑا، البتہ اتنا ضرور کہا: ’بی بی، ڈک دا مطلب وی تے بطخ ہوندا اے۔‘ یعنی میرا دھیان اُس وقت بھی بطخ پر نہیں، لفظ پر تھا۔ تب ہی سے لفظ میرے لیے ایک جادو بن گیا۔ لفظ ایک الگ دنیا ہے، اس میں معنی بھی ہیں، موسیقی بھی، مصوری بھی، اور جذبے کی لطیف لہریں بھی۔

دیکھیے، مجید امجد جیسے شاعر کے ہاں لفظ کس طرح بجتے اور بولتے ہیں۔ ان کی نظم ’پنواڑی‘ میں:

’صبح بھجن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے
ایک چتا کی راکھ ہوا کے جھونکوں میں کھو جائے
شام کو اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے
جھن جھن ٹھن ٹھن چونے والی کٹوری بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر جل جائے دوسرا آئے‘

دیکھیے، کیسی موسیقیت ہے لفظوں میں۔ یہ لفظ نہیں، جیسے کوئی ساز بج رہا ہو۔ میرا ذہن لفظ کے پیچھے اسی طرح دوڑتا رہا ہے جیسے کوئی بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ میں نے زندگی میں جو کچھ جانا ہے، وہ بھی ادھورا سا ہے، اور جو نہیں جانا وہ ’ان بیان ایبل‘ ہے۔

مطالعے سے روشن ماں، تصوف میں ڈوبا باپ

میری والدہ علم و فہم کی پیاسی اور مطالعے کی غیر معمولی شوقین تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ایک بار گھر میں طارق عزیز صاحب کا مشہور پروگرام دیکھا جا رہا تھا، تو جتنے سوالات اس پروگرام میں پوچھے گئے، اُن سب کے جوابات امّی کو آتے تھے۔ میں اُس وقت چھوٹا تھا، مگر یہ منظر آج تک ذہن میں تازہ ہے، جیسے کتابوں کی روشنی نے ہمارے گھر کا ہر گوشہ منور کر رکھا ہو۔

ابّاجی کا مزاج ذرا مختلف تھا۔ اُن کا میلان تصوف کی طرف ہو گیا تھا، وہ دنیاوی مصروفیات سے کچھ کٹ گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گھر کی بہت سی ذمہ داریاں کم عمری ہی میں میرے کندھوں پر آن پڑیں۔ بڑا کٹھن وقت تھا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اُس دور نے مجھے صبر، حوصلہ اور زندگی کو سمجھنے کا ہنر عطا کیا۔

کھُل کے رو لینے کی فُرصت پھر نہ اُس کو مل سکی
آج پھر انورؔ ہنسے گا بے تحاشا دیکھنا

’شعر کہنے کا شوق ورثے میں ملا‘

میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ میرے 3 بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک بھائی اختر پنڈی میں رہتا تھا۔ میرا ننھیال راولپنڈی ہی میں تھا۔ میری نانی کرم بی بی عاجزؔ بہت اچھی شاعرہ تھیں، ان کا شعری مجموعہ ’گل و گلزار‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔ میرے تایا جی عبدالطیف افضلؔ بھی شعر کہتے تھے۔ گویا شعر کہنے کا شوق مجھے ورثے میں ملا۔

لفظ کی پہچان کا شوق تو جیسے بچپن ہی سے میرے اندر جاگ اٹھا تھا۔ ایک دن امی نے پوچھا، تم پھوپی کے گھر گئے تھے؟ میں نے حیران ہو کر کہا، ’امی، آپ کو کیسے پتا چلا؟‘ تو مسکرا کر بولیں، ’یہ جو لفظ تم نے بولا ہے، یہ تو اُن کے گھر بولا جاتا ہے۔‘

امی لفظوں کی بڑی شناس تھیں۔ لفظ میں چھپے لہجے اور مٹی کی خوشبو تک پہچان لیتی تھیں۔ شاید یہی اثرات تھے جو رفتہ رفتہ مل کر مجھے انور مسعود بنا گئے۔

’جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ رونے کو چھپانا ہوتا ہے‘

جب میں ایف اے میں پڑھتا تھا تو پہلی بار انگریزی شاعری سے متعارف ہوا۔ اس سے میرا زاویۂ نظر بہت وسیع ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اُس زمانے میں ’بچپن‘ کے موضوع پر ایک نظم لکھی تھی کیونکہ بچپن تو رخصت ہو چکا تھا، مگر اس کی یادیں دل کو بہت ستاتی تھیں۔ وہ نظم آج بھی میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اُس کا ایک شعر ایسا ہے جو میری ساری شاعری پر صادق آتا ہے:

’جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے
رونے کو چھپانا ہوتا ہے‘

یہ میرا ابتدائی شعر تھا، اور میری شاعری کے سفر کی بنیاد بھی۔

’پیر فضل گجراتی اور چوہدری فضل حسین نے پنجابی لکھنے کی طرف مائل کیا‘

شروع میں تو صرف اردو میں شعر کہتا تھا۔ پنجابی شاعری کی طرف بعد میں آیا۔ اس وقت میں سنجیدہ شاعری کرتا تھا، مزاح کی طرف تو خیال بھی نہیں گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے 2 بڑے محسن تھے: ایک معروف پنجابی شاعر پیر فضل حسین گجراتی صاحب اور دوسرے میرے استادِ محترم چوہدری فضل حسین صاحب (سابق پروفیسر اور پرنسپل زمیندار کالج گجرات)۔ انہی بزرگوں نے مجھے پنجابی میں لکھنے کی طرف مائل کیا۔ پھر میں نے باقاعدہ پنجابی میں لکھنا شروع کیا۔

’مزاحیہ شاعری کا سفر چاند سے شروع ہوا‘

انسان کے اندر جو کچھ چھپا ہوتا ہے، بعض اوقات کوئی واقعہ ایسا پیش آتا ہے کہ وہ اندر کی بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے۔ میں نے بھی کبھی مزاحیہ شعر نہیں کہا تھا، مگر ایک دن ایسا موقع آیا کہ بات نکل ہی گئی۔

یہ جو رویتِ ہلال کمیٹی ہے جو چاند دیکھتی ہے اور دکھاتی ہے، کبھی نظر آتا ہے، کبھی نہیں آتا۔ اس پر میں نے ایک قطعہ کہا تھا وہ میرا پہلا مزاحیہ کلام تھا:

’چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمت،
ان کو یہ دھن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں،
ہم اسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں‘

یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اندازہ ہوا کہ میرے اندر مزاح لکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یوں سمجھ لیجیے، میری مزاحیہ شاعری کا سفر اسی چاند سے شروع ہوا۔

’شگفتگی وہ ہے جس میں شائستگی شامل ہو ‘

اکبر الہ آبادی بہت بڑے اور میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ضمیر جعفری میرے نزدیک بڑے معتبر شاعر ہیں، اور میں نے خوش قسمتی سے انہیں قریب سے دیکھا۔ دلاور فگار منفرد شاعر تھے: ’لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوڑ جا۔‘

ہر پھول کا اپنا رنگ ہے، اپنی خوشبو ہے، یہی حقیقت شاعری پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ روایت، یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ ہر دور کے شاعر اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، مگر روح ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

عنایت علی خان، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سلمان گیلانی، زاہد فخری اور بہت سے دیگر شاعر اس سلسلے کے وارث ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ آج بھی زندہ ہے اور یقیناً آنے والے وقت میں بھی رہے گا۔

میں جس مزاح کا قائل ہوں، وہ یہ ہے کہ اس میں شائستگی ہونی چاہیے۔ شگفتگی وہ ہے جس میں شائستگی شامل ہو یعنی آپ ایسا مزاح یا شعر کہیں کہ آپ کی ماں، بہنیں اور بیٹیاں سب سن سکیں اور کسی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔

ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ جو کچھ کہوں، وہ شائستگی کے دائرے میں رہے۔ ضروری نہیں کہ مزاح ہمیشہ پھکڑ پن سے پیدا کیا جائے۔ مزاح شائستگی کے ساتھ جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ اکبر الہ آبادی سے بھی پہلے شروع ہوا۔

کیا انسان نے ہنسنا چھوڑ دیا؟ کیا کبھی کوئی ایسا دور آیا کہ آدمی نے مسکرانا بند کر دیا ہو؟ یہ ناممکن ہے۔ ہنسی ختم نہیں ہو سکتی، بس اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

’والدین کی خواہش تھی ڈاکٹر بنوں، میں فارمیسی سے فارسی کی طرف آگیا‘

میرے والدین کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ میں نے ایف ایس سی میڈیکل میں داخلہ بھی لیا مگر میں فارمیسی سے فارسی کی طرف چلا آیا۔ (مسکراتے ہوئے) ڈاکٹر نہیں بن پایا تو اس سے بہت سے مریضوں کا بھلا ہوگیا۔ البتہ ڈاکٹروں پر لکھا بہت کچھ ہے:

سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

ہو سکتی ہے کچھ ثقل سماعت کی شکایت
بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متأثر
معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے زیادہ
پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے

یوں سمجھ لیجیے، میں طبی معالج تو نہ بن سکا، مگر ڈاکٹروں پر جو کچھ بھی لکھا (قہقہہ لگاتے ہوئے) اسے انتقامی کارروائی سمجھتا ہوں۔

’مجھے صدیقہ کی مشرقیت بہت اچھی لگی‘

زندگی عجیب چیز ہے۔ میں نے 2 سال میڈیکل میں ضائع کیے، اور پھر حالات ایسے تھے کہ ایم اے کا خواب صرف خواب ہی رہ گیا۔ اس کے بعد میں نے 2 سال کنجاہ (گجرات) کے ایک سکول میں پڑھایا۔ وسائل نہیں تھے کہ ایم اے کر پاتا اور جب حالات بہتر ہوئے، تو سوچا انگریزی پڑھیں گے، اسلامیہ کالج گئے۔ پرنسپل صاحب، حمید احمد خان، بڑے سخت تھے۔ کہا، داخلے بند ہیں۔

پھر میں نے فارسی پڑھنے کا ارادہ کرلیا۔ اورینٹل کالج پہنچا چونکہ ایف اے میں اسکالر شپ لی تھی، سارا تعلیمی سفر بھی شاندار تھا۔ وہاں پروفیسر صاحب نے پوچھا تم فارسی پڑھ کر تیل بیچو گے؟ میں نے جواب دیا کہ آپ تیل بیچ رہے ہیں؟ اس غیر متوقع جواب پر انہوں نے مسکراتے ہوئے داخلہ فارم پر دستغط کر دیے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے بعد قطار میں کھڑی جو لڑکی فارم جمع کروانے آئی، وہی میری بیوی بننے والی تھی۔ اگر وہ ضائع ہونے والے 2 سال نہ ہوتے، اسکول میں 2 برس نہ پڑھایا ہوتا تو شاید میری ان سے ملاقات ہی نہ ہوتی، زندگی کا یہ شاندار موقع کبھی نہ آتا۔ مجھے ان کی مشرقیت بہت اچھی لگی۔ پھر والدین کی رضا مندی سے ہماری شادی ہوگئی۔ اور وہ بھی فارسی کی بہت اچھی پروفیسر تھیں۔

’بہاول نگر کی پیشین گوئی جو سچ ثابت ہوئی‘

میں جب بہاول نگر میں تھا، مختلف شہروں میں میری ٹرانسفر ہوتی رہی، وہاں ایک زائچہ بنانے والا ملا۔ اس نے شادی سے پہلے مجھے کہا تھا کہ آپ کے 5 بچے ہوں گے، 3 لڑکے اور 2 لڑکیاں۔ اور زندگی یوں بدل جائے گی جیسے پردہ اسکرین پر منظر بدلتے ہیں۔

واقعی، زائچہ بنانے والے کی بات درست ثابت ہوئی۔ اللہ نے ہمیں 5 بچے دیے، 2 بیٹیاں اور 3 بیٹے۔ ایک بیٹا محمد عاقب انور ہے، جو امجد اسلام امجد کا داماد ہے، دوسرا عمار مسعود، اور تیسرا بیٹا جواد اظفر ہے۔ بچے میری خدمت ایسے کرتے ہیں جیسے پیدا ہی اس لیے ہوئے ہوں۔ اور ان کی بیگمات، جو ایک طرح سے میری بیٹیاں بھی ہیں، وہ بھی بڑی محبت اور احترام سے خدمت کرتی ہیں۔ اللہ انہیں جزا دے۔

’سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں، سفر ہی اصل منزل ہے‘

میرے فارسی مجموعے کا نام ’پایانِ سفر نیست‘ ہے، یعنی یہ سفر جو ہے، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ یہ یاد رکھیں، سفر ہی اصل منزل ہے۔ اور یہ سفر جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔ آپ کو فارسی کا ایک شعر سناتا ہوں، جو اس مجموعے میں شامل ہے:

بسی دارم اُطاقِ خواب انورؔ
ولیکن خواب در دیدہ ندارم
(ترجمہ: میرے پاس بہت سے سونے کے کمرے ’Sleepng rooms‘ ہیں، لیکن میری آنکھوں میں نیند نہیں۔)

’فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے‘

میرا تعلق 3 زبانوں سے ہے۔ پنجابی، فارسی اور اردو۔ پنجابی میری مادری زبان ہے، اور آپ کو حیرت ہوگی کہ لفظ ’پنجابی‘ خود فارسی کا لفظ ہے، یعنی 5 دریاؤں کی سرزمین۔ مجھے بچپن سے ہی اس زبان میں دلچسپی رہی۔ اردو میری قومی اور میرے بچوں کی مادری زبان ہے۔ جبکہ فارسی وہ شیریں زبان ہے جو میں نے نہ صرف خود پڑھی بلکہ 35 برس پنجاب کے مختلف سرکاری کالجوں میں پڑھائی بھی ہے۔

ایک بہت بڑے بھارتی نقاد نے کہا کہ اقبال دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ دنیا میں اٹلی کا دانتے، جرمنی کا گوئٹے، برطانیہ کا شیکسپیئر، اور برصغیر کا غالب موجود ہیں، تو اقبال سب سے بڑے کیسے ہوئے؟ پھر سمجھ آیا کہ اقبال جس کتاب کے مترجم اور مفسر ہیں ’قرآن‘ وہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب ہے۔

اقبال کہتے ہیں کہ ترجمہ: ’اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی جوہر نہیں، اور اگر میں نے قرآن سے ہٹ کر کوئی بات کی ہے، تو مجھے قیامت کے دن رسوا کر دیجیے، مجھے اپنے پاؤں کے بوسے سے محروم کر دیجیے۔‘

ہمارے ہاں تعلیمی نصاب میں بڑی غفلت برتی جا رہی ہے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے فارسی جاننا بہت ضروری ہے، کیونکہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے۔

اردو، پنجابی اور فارسی میں کتابوں کی تعداد 19 سے زیادہ ہے

اردو، پنجابی اور فارسی میں میری کتابوں کی تعداد 19 سے زیادہ ہے: شیرازه (کلیات انور مسعود )، کلیات انور مسعود (قطعات)، میلہ اکھیاں دا (پنجابی کلام، پنجاب رائٹرز گلڈ انعام یافتہ)، قطعه کلامی (اردو قطعات)، فارسی ادب کے چند گوشے (تحقیقی اور تنقیدی مقالات)، غنچہ پھر لگا کھلنے (اردو طنریہ مزاحیہ کلام)، ہن کیہ کریے؟ ( پنجابی کلام، ہجرہ ایوارڈ یافتہ)، تقریب (تعارفی مضامین- اردو)۔

اک دریچه اک چراغ (سنجیدہ شاعری۔اُردو، عجمی ایوارڈ یافته)، شاخ تبسم (مزاحیہ شاعری کا سنجیدہ مطالعہ مع انتخاب کلام)، میلی میلی دھوپ (ماحولیات پر شاعری)، درپیش (اردو دفتریه مزاحیہ کلام)، بات سے بات (مضامین)، سیف الملوک (اردو نثری ترجمه)، روز بروز ( طنزیہ و مزاحیه قطعات)، باریاب (نعتیہ کلام)، صرف تمہارا (صدیقہ انور کے نام خطوط)، سخن در سخن (اردو اور پنجابی کلام) پایان سفر نیست (فارسی کلام)۔

پنجابی مجموعہ ’میلہ اکھیاں دا‘ کے 76 ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔ میرے پنجابی کے پسندیدہ شاعر حضرت میاں محمد بخش ہیں ان کی کتاب ’سیف الملوک‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے پنجابی مجموعے ’میلہ اکھیاں دا‘ کی پہلی نظم ’ حضرت میاں محمد بخش‘ انہی کے بارے میں ہے:

’میں بے قیمت ککھاں وانگوں ہولا جیوں پرچھانواں
تساں جیہا کوئی مرد قلندر جگ تے ٹانواں ٹانواں

مِلک تہاڈی مُلک سخن دا، ساڈی باجگزاری
اِک اک شعر تہاڈے اُتے سو سو اتھر واری

کرم کرو تے دسو حضرت مینوں وی اوہ پاسه
رج رج درشن پائے جتھوں اَکھ مری دا کاسہ

عشق دا لنبو بالے جیہڑی جیہی تجلی ہووے
جھلی جیہی طبیعت میری ہور وی جھلی ہووے

ڈاہڈی بھکھ جے لگی ہووے منگنوں نہیں کوئی سنگدا
مینوں درد محبت بخشو میں نہیں دارو منگدا

انج سوال کریساں جیونکر اڑیاں کرے ایا ناں
اس درگاہوں حضرت صاحب میں نئیں خالی جاناں

’اسلامیہ کالج لاہور کے گراؤنڈ میں قائداعظم کو دیکھا تھا‘

میں گیارہ سال کا تھا اور ہمارا رہائشی علاقہ بسن پورہ لاہور تھا۔ یہ وہ یادیں ہیں جو بہت معنی رکھتی ہیں۔ میں نے اسلامیہ کالج لاہور کے گراؤنڈ میں قائداعظم کو بھی دیکھا تھا۔ یہ لمحہ میرے لیے بہت یادگار ہے۔

دور سے مجھے ایک دھان پان سا شخص نظر آیا۔ والد صاحب نے مجھے کندوں پر اٹھایا ہوا تھا، میں اس وقت چھوٹا تھا، لیکن اس تاریخی منظر کو آج بھی یاد رکھتا ہوں۔

دلیپ کمار نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا، ’یہ شخص کسی دلیپ سے کم نہیں۔‘

جب دلیپ کمار پاکستان تشریف لائے، مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر میں نے ایک نظم سنائی، جو انہیں بے حد پسند آئی:
یوسف خان (دلیپ کمار)

واقعہ یہ ہے کہ اگلا ثانیہ
ان گنت اسرار کے پردوں میں ہے
لیکن اِک فلمی کہانی کے تو ہر کردار کو
اپنی ساری داستان معلوم ہے
مسئلہ یہ ہے کہ اسں ’معلوم‘ کو
یوں بسر کرنا کہ گویا ہر گھڑی مستور ہے
کس ہنر مندی سے تو نے طے کیا !

یہ کٹھن جاده یہ مشکل مرحلہ !
بارہا دیکھی ہے میں نے، دیدہِ حیراں کے ساتھ
تیرے حرفِ زیرِ لب میں برق لہراتی ہوئی
تیرے سحر انگیز اُسلوب ادا کے سامنے
لفظ بھی مجھ کو ادھورے سے لگے !
ڈھل گتے ہیں جب ترے کردار میں
زندگی کے درد و غم اچھے لگے
تیرے طرز فن میں آئی ہے نظر
ماورائے فن کی زیبائی مجھے
یاد آتا ہے پشاور میں تراجشن پذیرائی مجھے
وہ ترے شیدائیوں کا جمگھٹا !
میں تو اس تقریب استقبال میں
دیکھنے والوں کو تکتا رہ گیا !
میرے دل میں گونجتا تھا پے بہ پے
ایک مطلع حافظِؔ شیراز کا

یوسف گم گشته باز آید به کنعان غم مخور
کلبهِ احزان شود روزے گلستان غم مخور
(ترجمہ: گمشده یوسف کنعان کو لوٹ کر آئے گا۔ غم نہ کر اور اُس کے آنے سے ہمارا غم کدہ گلستان بن جائے گا۔ غم نہ کر۔)

دلیپ کمار نے نظم کی پسندیدگی کا اظہار نہ صرف اسٹیج پر کیا بلکہ چائے کے دوران بھی کیا تھا۔ جب دلیپ کمار اسٹیج پر آئے تو انہوں نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا، ’یہ شخص کسی دلیپ سے کم نہیں ہے۔‘

یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی، کیونکہ بڑے آدمی کا ظرف بھی بڑا ہوتا ہے، اور دلیپ کمار واقعی عظیم آدمی تھے۔

’کوئی خواہش نہیں، اللہ نے بہت کچھ عطا کیا‘

کوئی خواہش نہیں، ایسا کچھ نہیں۔ اللہ نے بہت کچھ عطا کیا، بے حد عزت دی۔ میں کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ گجرات سے باہر نکلوں گا، اور آج دیکھیں، ایک طرف دنیا کا کونہ نیوزی لینڈ ہے، دوسری طرف ناروے۔ میں نے انہیں نہیں، بلکہ انہوں نے مجھے میری نظمیں سنائیں۔

یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ اللہ میری جو کوتاہیاں اور زندگی کی خامیاں ہیں، انہیں معاف فرما دے اور مجھے وہ کامیابی عطا فرمائے جسے قرآن میں ’فوزِ عظیم‘ کہا گیا ہے۔ دنیا کی یہ کامیابیاں فانی ہیں، لیکن وہ کامیابی جو ہمیشہ رہنے والی ہے، اللہ وہ عطا فرمائے۔

’تُسی وی ایتھے ای او؟‘

ایک بار عمرے کے دوران ایک نوجوان نے مجھے پہچان لیا۔ میں احرام باندھے ہوئے تھا، اور وہ بھی احرام میں تھا۔ وہ بار بار مجھے دیکھتا رہا، پھر قریب آ کر پنجابی میں بولا، ’تُسی وی ایتھے ای او؟‘

میں نے کہا، ’اللہ نے کرم کیا ہے، اس کا اذن ہے، ہم بھی حاضر ہو گئے ہیں۔‘
اس نے کہا، ’میں نے ابھی آپ کے نام کا عمرہ کیا ہے۔‘

’صرف تمہارا‘ میری زندگی کے 55 برس کی یادیں اور احوال ہیں

میری اہلیہ صدیقہ انور کے انتقال کا وقت رمضان کا مہینہ تھا۔ انہیں قرآن سے بے پناہ محبت تھی، وہ بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں اور درس بھی دیتی تھیں۔ ان کے جانے پر میں نے ایک شعر کہا تھا:
’خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا‘

شادی کے بعد جب ہمارے اسٹیشن الگ الگ تھے، تو میں انہیں خطوط لکھا کرتا تھا۔ یہ خطوط بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے، جن کا نام ہے ’صرف تمہارا‘۔ یہ مکاتیب میری زندگی کے 55 برس کی یادیں اور احوال بیان کرتے ہیں:
’دل میں ہے اُس کی یاد کی خوشبو بسی ہوئی
کیا پھول تھا کہ شاخِ زماں سے اُتر گیا
لگتا ہے یوں کہ چند مہینوں کی بات تھی
پچپن برس کا عہد رفاقت گزر گیا
انور نے جس گھڑی بھی صدیقہ کے واسطے
دست دُعا اُٹھایا تو اشکوں سے بھر گیا‘

اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے لیے فائدہ مند انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے

ہمارے رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جس کی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ دنیا میں جرائم اسی وجہ سے جنم لیتے ہیں کہ انسان دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر ہر شخص دوسروں کے بھلے کا سوچے، تو جرم کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔

یہی اصول وہ تھا جس پر مدینہ کی سوسائٹی قائم ہوئی، جہاں لوگوں کے لیے دوسروں کا بھلا اپنی ذات سے زیادہ عزیز تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس حدیث پر عمل کرنے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انورؔ
پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں

خالقِ قومی ترانہ ابو الاثر حفیظ جالندھری نے کہا تھا کہ ’انور مسعود کی پنجابی شاعری میری حسرتِ اظہار ہے۔‘ اپنے پہلے مشاعرے میں جب انور مسعود نے اپنی پہلی پنجابی نظم ’پنچائَت‘ پیش کی، تو سامعین کی داد ایسی زور دار تھی کہ ہال کی چھتیں جیسے لرز اٹھی ہوں۔ ہر مصرعے کے ساتھ داد و تحسین اور تالیاں۔ الفاظ کے تانے بانے نے محفلِ مشاعرہ میں قہقہوں کا طوفان بپا کردیا۔

نظم مکمل ہونے پر ناظمِ مشاعرہ بابائے پنجابی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے مائیک سنبھالا، تو انہوں پر مسرت لہجے میں اعلان کیا کہ اس کے بعد مشاعرے کا اختتام ہو جانا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

انور مسعود پروفیسر صدیقہ انور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر صدیقہ انور صرف تمہارا مشکورعلی میلہ اکھیاں دا ہمارے انورؔ مسعود

متعلقہ مضامین

  • ہرجانہ کیس: عمران خان کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • ہرجانہ کیس، عمران خان کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • شہباز شریف کی جانب سے ہرجانے کا کیس، عمران کے وکیل کی جرح کیلئے مہلت کی استدعا منظور
  • ہمارے انورؔ مسعود
  • 27 ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ منظور؛ بل ایوان سے منظور ہونا باقی
  • آرٹیکل 243 پر تفصیلی مشاورت،قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے منظور
  • عمران خان کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • 27ویں ترمیم پر عوامی مشاورت ہونی چاہیے‘سراج الحق
  • عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • منظور وسان کو پھر خواب نظر آگیا، نومبر دسمبر میں کیا ہوگا، بتا دیا