WE News:
2025-09-23@22:12:13 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

جب اسرائیل نے 2 ہفتے قبل ایران پر حملہ کیا تو چین، جو ایران کا پرانا دوست ہے، فوری طور پر متحرک ہوا، مگر صرف بیانات کی حد تک۔

چین نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفون پر جنگ بندی پر زور دیا، اور چینی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے بات کی۔ لیکن چین نے ایران کو کسی قسم کی عملی یا فوجی مدد فراہم نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑا ہے؟

چین نے معمول کے مطابق صرف بات چیت اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی، لیکن کسی قسم کا ہتھیار، مالی امداد یا جنگی تعاون نہیں دیا۔ چین اگرچہ امریکا کا حریف اور عالمی طاقت بننے کا خواہشمند ہے، مگر اس نے مشرق وسطیٰ میں براہِ راست مداخلت سے گریز کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے پاس نہ تو اتنی سفارتی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اس قدر خطرہ مول لینا چاہتا ہے کہ اتنے پیچیدہ اور تیزی سے بدلتے حالات میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس لیے چین نے محتاط اور غیر جارحانہ رویہ اختیار کیا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں

چینی ماہر ژو فینگ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی چین کے تجارتی اور توانائی کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

 2024 کی امریکی رپورٹ کے مطابق ایران کا تقریباً 80 سے 90 فیصد تیل چین کو برآمد ہوتا ہے، اور چینی صنعت اس تیل پر انحصار کرتی ہے۔ اس لیے چین کسی ایسی صورتِ حال سے بچنا چاہتا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہو۔

یہ بھی پڑھیں:چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے،امید ہے امریکا سے بھی خریدے گا : ڈونلڈ ٹرمپ

جب ایرانی پارلیمان نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی تجویز دی تو چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے تاکہ عالمی معیشت پر منفی اثر نہ پڑے۔

امریکا کے صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ:

’چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے‘۔

یعنی جنگ بندی سے ایرانی تیل کی فراہمی بحال رہے گی۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک کے ماہر کریگ سنگلٹن کے مطابق چین کا ردعمل صرف تیل کی خریداری اور ’مذاکرات کی اپیل‘ تک محدود رہا۔ نہ چین نے ایران کو ڈرون دیے، نہ میزائل کے پرزے، نہ ہی کوئی ایمرجنسی قرض کی سہولت دی۔ صرف وہی الفاظ کہ جن سے تہران خوش رہے اور سعودی عرب یا امریکا ناراض نہ ہوں۔

ان کے بقول، چین کی ایران سے شراکت داری صرف کاروباری ہے، جنگی نہیں۔ جب جنگ چھڑتی ہے تو چین کی بڑی بڑی باتیں صرف بیانات میں رہ جاتی ہیں۔ وہ ایران سے سستا تیل چاہتا ہے اور خود کو ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، جبکہ اصل خطرہ امریکا پر چھوڑ دیتا ہے۔

اقوام متحدہ میں چین نے روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی جس میں ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم امریکا غالباً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اسرائیل کی جانب سے ایرانی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی کھلی مذمت کرتا ہے، اور ایران سمیت دیگر فریقوں سے رابطے میں رہنے کو تیار ہے تاکہ حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

وانگ نے عمان اور مصر کے وزرائے خارجہ سے بھی بات کی، کیونکہ دونوں ممالک خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ نے روسی صدر پیوٹن سے بھی بات کی تاکہ ایران کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی بنائی جا سکے، لیکن چین اور روس دونوں نے جنگ میں براہ راست شمولیت سے گریز کیا۔

ایران چین کے عالمی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم حصہ ہے اور 2023 میں وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہو چکا ہے، جو کہ روس اور چین نے نیٹو کے مقابلے میں قائم کی ہے۔

ایران نے چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے، جیسے کہ 2025 کی ’میرٹائم سیکیورٹی بیلٹ‘ مشق۔

نیویارک میں قائم ساؤفان سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کا ایران جیسے شراکت داروں سے تعاون اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب امریکا یا مغربی دنیا کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خدشہ ہو۔

چین اپنے معاشی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں اور کسی بڑی طاقت سے محاذ آرائی سے بچنے کو ترجیح دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چاہتا ہے نے ایران ایران سے کے مطابق چین نے چین کے ہے اور

پڑھیں:

یقیں نہ کرنا، بہت اندھیرا ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250924-03-7

 

باباالف

زمانہ اور اس کے روزو شب بدل رہے ہیں۔ بالکل بدل جانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ پرانی دنیا اختتام پذیر ہورہی ہے۔ مغربی نظریات، تصورات، احساسات اور کوششیںسند باد کے بحری اسفار کی طرح پیچھے رہ گئی ہیں۔ جنات، حسین دوشیزائیں، دیو قامت مغربی جنگی پرندے اور نظام، ایک دروازہ تھا جو بتدریج بند ہورہا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں لاکھ آوارہ گردی رہی لیکن واپس اپنے ماضی کی طرف ہی آنا ہے۔ خلافت راشدہ کے اسلامی نظام کی طرف۔

پاک سعودی معاہدے کے پیدا کردہ جوش وخروش میں ابھی تک یہ علم نہیں کہ یہ باقاعدہ پیکٹ ہے یا پھر عام معاہدہ یا اگریمنٹ۔ بجا طور پرایک سرخوشی اور نشاط کا عالم ہے۔ سعودی بھائی اور ہم یک جان دو قالب تو ابتدا سے رہے ہیں اب شہر کے چھٹے ہوئے غنڈوں اور مسٹنڈوں کے خلاف بھی معاہدے کی ڈوری میں بندھ گئے ہیں۔

ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف تو اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس معاہدے میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اشارہ اس طرف تھا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی نیو کلیئر شیلڈ یا کور فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی پھیلائو (Nuclear proliferation) کی حدود وقیود سے یہی وہ تجاوز ہے مغربی اور بھارتی میڈیا نے ابھی سے جس کا طبلہ سارنگی بجانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے یہاں خراب وخوار ہونے کی ایک دورخی ریت چلی آرہی ہے کہ مخاطب اپنے مسلمان بھائی ہوں تو اسلامی جذباتیت کا ایٹم بم ہمراہ ہوتا ہے اور اگر خطاب رائٹرز (Reuters) سے ہوتو مسلم وابستگی کا ہیجان زنگ آلود اور نیم جان ہوکر انکار میں بدل جاتا ہے۔

اس معاملے میں ابہام ہے کہ اگر ہم سعودیہ کو نیو کلیئر چھتری مہیا نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ کیا ہے جس کی سعودیہ کو کمی ہے۔ معاملہ بس اتنا تو نہیں ہے کہ عربوں کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ’’اربوں‘‘ کی۔ یا پھر یہ کہ امریکا اپنی دفاعی چھتری کی بہت زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتا تھاجب کہ پاکستان سے یہ سستے داموں مل گئی ہے۔ معاہدے کے ضمن میں امریکا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی گرہیں بھی پیٹ پھاڑ کر کلیجہ چبانے تک آگئی ہیں کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک کو امریکا پر بھروسا نہیں رہا۔ بیوگی کی چادر عرب بھائیوں سے امریکا تک تن گئی ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے جاپان امریکا طرز کے دفاعی معاہدے میں ’’نکی جئی نا‘‘ حائل ہوگئی ہے اور بس۔

امریکا ہمیں جو دے ہے نہیں لیتے ہم

کونین بھی گو دے ہے، نہیں لیتے ہم

ہم لیتے ہیں جس ڈھب سے نہیں دیتا وہ

جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے نہیں لیتے ہم

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا میلہ اور بازار پہلی مرتبہ نہیں لگا۔ یہ سلسلہ 1967 سے شروع ہوا۔ 1979 میں مسجد الحرام پر قبضے کے بعد محبت میں اضافہ مزید گہرا ہوا جب پاکستانی اسپیشل فورسز نے سعودی فوجیوں کو مسجد الحرام پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد دی۔ 1982 میں سیکورٹی تعاون کے معاہدے کے ذریعے سعودی فوجیوں کو پاکستانی تربیت، مشاورت اور معاونت سعودی سرزمین پردی جانے لگی جس میں بعض اوقات 20 ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔

دسمبر 2015 میں ’’اسلامی ملٹری کائونٹر ٹیررازم کو لیشن IMCTC‘‘ وجود میں آیا جو 43 اسلامی ممالک کے درمیان دہشت گردی کی بے چہرہ امریکی جنگ میں شرکت کا اتحاد تھا۔ 6 جنوری 2017 کو اس اتحاد کو بوسہ دینے کے لیے پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فورس کے پہلے کمانڈر جنرل کے عہدے کے لیے سعودی عرب کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ آج بھی وہی اس فورس کی کمان کررہے ہیں۔ یہ فورس آج کہاں ہے؟ سعودی فرمانروائوں کے کن محلات کی حفاظت کررہی ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ اگر یہ اسلامی دنیا کا اتحاد اور مسلم ناٹو تھا تو غزہ میں مداخلت کیوں نہیں کررہا ہے جہاں ناپاک صہیونی وجود بنام اسرائیل ہر مسلمان مردو عورت کو شہید اور ہر عمارت کو تباہ کررہا ہے۔ کیا صرف سعودیوں اور پاکستانیوں کے خون کی حرمت کعبہ کی حرمت سے سوا ہے؟ اہل غزہ کے خون، جان اور مال کی کوئی حرمت نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے اتحاد کی موجودگی میں نیا اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک سنی اتحاد تھا۔

پاکستان اور سعودی عرب کا ہی سنگم نہیں ہوا ہے آج کل ترکی اور مصر کا اتحاد بھی بغیر کسی اعلان کے جاری ہے جن کے درمیان 2016 کے بعد خاصے اختلافات رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان آج کل فوجی مشقیں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی قطر کے ساتھ ساتھ دیگر سات اسلامی ممالک پر اسرائیل کے حملے قراردیے جارہے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ مصر کا فرعون جنرل سیسی بھی امریکی ڈارلنگ ہے جس کو سالانہ ایک سے دو ارب ڈالر امریکی امداد ملتی ہے، آئی ایم ایف کے قرضے بھی ملتے ہیں صرف اس ایک شرط پر امریکا کے سامنے سرتسلیم ہی نہیں پورے کا پورا سربسجدہ رہنا ہے۔ اسرائیل بھی امریکا کا بغل بچہ ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوان بھی امریکا کی گڈ بک میں ہیں۔ تینوں کی امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ہے۔ پاک سعودی اتحاد ہو یا ترک مصر اتحاد ان ممالک کی حکمران اشرافیہ اپنے اپنے فائدے کے لیے نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہورہا امریکا کی رضا اور مرضی سے۔ امریکا چاہتا ہے کہ خطے کے بڑے ممالک آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ ان کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی ہوحالانکہ ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہیں ہے مگر امریکا کے سب قابل قدر شراکت دار ہیں تاکہ امریکا ایران، روس اور چین پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھے۔

تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے جو اپنے حکمرانوں سے شدید نا خوش ہیں خصوصاً امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے۔ ان اتحادوں سے حکمران عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکا سے دور ہورہے ہیں اور امریکا اور اسرائیل کے خلاف باہم متحد ہورہے ہیں۔ یہ اتحاد عوام کو ٹھنڈا اور خوش کرنے کے لیے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کا اس سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ عوام کو خوش کن ترانے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ان مسلم حکمرانوں کی کوئی شخصیت ہے اور نہ یہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اسرائیل سے اتنی ہی نفرت ہے تو قطر پر حملے کے فوری بعد امارات اور تل ابیب کے درمیان فلائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ سفارتی تعلقات کیوں منقطع نہیں کیے گئے۔ آج بھی ائر دبئی کی روزانہ تین مرتبہ فلائٹس اسرائیل جاتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے معاہدوں سے ان حکمرانوں کی مدت اقتدار طویل ہوجاتی ہے، پاکستان جیسے ملک کے حکمرانوں کو عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے وافر ڈالرز مل جاتے ہیں۔ رہے عوام اور ملک وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلام کا نظام چاہتے ہیں۔ آج بھی ان کے خوابوں، خیالوں اور نظریات میں خلافت راشدہ کے نظام کے سوا کچھ نہیں۔ آخر میں کالم کی ابتدائی سطریں دوباہ پڑھ لیجیے۔

بابا الف

متعلقہ مضامین

  • یقیں نہ کرنا، بہت اندھیرا ہے
  • جوہری ہتھیاربنانے کا کوئی ارادہ نہیں،مگر یورینیئم افزودگی پردباؤ میں نہیں آئیں گے:خامنہ ای
  • ایران کیساتھ مذاکرات کسی فوجی کارروائی میں رکاوٹ نہیں بلکہ جنگ کی ایک شکل ہیں، صیہونی ٹی وی
  • ٹک ٹاک تنازع: امریکا اور چین میں کشیدگی کے دوران ممکنہ ڈیل کی بازگشت
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان
  • ایران اور پاکستان کے درمیان ہفتہ وار پروازوں کو بڑھا کر 24 کر دیا گیا
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایشیا کپ سپر 4 مرحلہ: ہینڈ شیک تنازع کے بعد ایک بار پھر پاک بھارت ٹیمیں آج ٹکرائیں گی