WE News:
2025-08-09@17:17:07 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

جب اسرائیل نے 2 ہفتے قبل ایران پر حملہ کیا تو چین، جو ایران کا پرانا دوست ہے، فوری طور پر متحرک ہوا، مگر صرف بیانات کی حد تک۔

چین نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفون پر جنگ بندی پر زور دیا، اور چینی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے بات کی۔ لیکن چین نے ایران کو کسی قسم کی عملی یا فوجی مدد فراہم نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑا ہے؟

چین نے معمول کے مطابق صرف بات چیت اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی، لیکن کسی قسم کا ہتھیار، مالی امداد یا جنگی تعاون نہیں دیا۔ چین اگرچہ امریکا کا حریف اور عالمی طاقت بننے کا خواہشمند ہے، مگر اس نے مشرق وسطیٰ میں براہِ راست مداخلت سے گریز کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے پاس نہ تو اتنی سفارتی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اس قدر خطرہ مول لینا چاہتا ہے کہ اتنے پیچیدہ اور تیزی سے بدلتے حالات میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس لیے چین نے محتاط اور غیر جارحانہ رویہ اختیار کیا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں

چینی ماہر ژو فینگ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی چین کے تجارتی اور توانائی کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

 2024 کی امریکی رپورٹ کے مطابق ایران کا تقریباً 80 سے 90 فیصد تیل چین کو برآمد ہوتا ہے، اور چینی صنعت اس تیل پر انحصار کرتی ہے۔ اس لیے چین کسی ایسی صورتِ حال سے بچنا چاہتا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہو۔

یہ بھی پڑھیں:چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے،امید ہے امریکا سے بھی خریدے گا : ڈونلڈ ٹرمپ

جب ایرانی پارلیمان نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی تجویز دی تو چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے تاکہ عالمی معیشت پر منفی اثر نہ پڑے۔

امریکا کے صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ:

’چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے‘۔

یعنی جنگ بندی سے ایرانی تیل کی فراہمی بحال رہے گی۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک کے ماہر کریگ سنگلٹن کے مطابق چین کا ردعمل صرف تیل کی خریداری اور ’مذاکرات کی اپیل‘ تک محدود رہا۔ نہ چین نے ایران کو ڈرون دیے، نہ میزائل کے پرزے، نہ ہی کوئی ایمرجنسی قرض کی سہولت دی۔ صرف وہی الفاظ کہ جن سے تہران خوش رہے اور سعودی عرب یا امریکا ناراض نہ ہوں۔

ان کے بقول، چین کی ایران سے شراکت داری صرف کاروباری ہے، جنگی نہیں۔ جب جنگ چھڑتی ہے تو چین کی بڑی بڑی باتیں صرف بیانات میں رہ جاتی ہیں۔ وہ ایران سے سستا تیل چاہتا ہے اور خود کو ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، جبکہ اصل خطرہ امریکا پر چھوڑ دیتا ہے۔

اقوام متحدہ میں چین نے روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی جس میں ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم امریکا غالباً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اسرائیل کی جانب سے ایرانی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی کھلی مذمت کرتا ہے، اور ایران سمیت دیگر فریقوں سے رابطے میں رہنے کو تیار ہے تاکہ حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

وانگ نے عمان اور مصر کے وزرائے خارجہ سے بھی بات کی، کیونکہ دونوں ممالک خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ نے روسی صدر پیوٹن سے بھی بات کی تاکہ ایران کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی بنائی جا سکے، لیکن چین اور روس دونوں نے جنگ میں براہ راست شمولیت سے گریز کیا۔

ایران چین کے عالمی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم حصہ ہے اور 2023 میں وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہو چکا ہے، جو کہ روس اور چین نے نیٹو کے مقابلے میں قائم کی ہے۔

ایران نے چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے، جیسے کہ 2025 کی ’میرٹائم سیکیورٹی بیلٹ‘ مشق۔

نیویارک میں قائم ساؤفان سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کا ایران جیسے شراکت داروں سے تعاون اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب امریکا یا مغربی دنیا کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خدشہ ہو۔

چین اپنے معاشی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں اور کسی بڑی طاقت سے محاذ آرائی سے بچنے کو ترجیح دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چاہتا ہے نے ایران ایران سے کے مطابق چین نے چین کے ہے اور

پڑھیں:

امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ

امریکا کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے پس منظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 7 برس سے زیادہ عرصے کے بعد پہلی بار چین کا دورہ کریں گے، جو بیجنگ کے ساتھ سفارتی کشیدگی کے خاتمے کی ایک علامت قرار دی جا رہی ہے۔

رائٹرز نے ایک حکومتی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ نریندر مودی 31 اگست سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے چین روانہ ہوں گے۔ یہ اجلاس چینی شہر تیانجن میں منعقد ہوگا۔

رائٹرز کے مطابق اس حوالے سے جب بھارتی وزارت خارجہ سے مؤقف طلب کیا گیا تو فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مودی کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تجارتی کشیدگی نے کئی سال بعد نازک موڑ اختیار کر لیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر ایشیا میں سب سے زیادہ درآمدی محصولات نافذ کر دیے ہیں، جبکہ روسی تیل کی خریداری کے باعث بھارت پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

مودی کا چین کا یہ سفر جون 2018 کے بعد پہلا موقع ہوگا جب وہ چین کا رخ کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہو گئے تھے جب 2020 میں ہمالیائی سرحد پر فوجی تصادم پیش آیا تھا۔

تاہم اکتوبر میں روس میں منعقدہ برکس کانفرنس کے دوران مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک نے کشیدگی میں کمی کی جانب پیش رفت کی اور اقتصادی و سفری روابط میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ روسی تیل کی خریداری پر بھارت کے خلاف مجوزہ سزا کا تعین اس وقت کیا جائے گا جب یوکرین میں جنگ بندی سے متعلق امریکا کی آخری سفارتی کوششوں کا نتیجہ سامنے آئے گا۔

ٹرمپ کے اعلیٰ سفارتی مشیر اسٹیو وٹکوف اس وقت ماسکو میں موجود ہیں، جبکہ روس کو امن معاہدے پر آمادہ کرنے کے لیے امریکی صدر کی جانب سے دی گئی مہلت میں صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں، بصورت دیگر روس کو نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب ایک اور حکومتی ذریعے نے بتایا کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول روس کے طے شدہ دورے پر ہیں، جہاں وہ بھارت پر امریکی دباؤ کے تناظر میں روسی تیل کی خریداری کے مسئلے پر گفتگو کریں گے۔

اجیت دوول کے اس دورے میں بھارت اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات پر بھی بات چیت متوقع ہے، جس میں ماسکو سے زیر التوا ایس-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کی جلد فراہمی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ممکنہ دورہ بھارت پر تبادلہ خیال شامل ہے۔

ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی آنے والے ہفتوں میں روس کا دورہ کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکا بھارت کشیدگی امریکی ٹیرف دورے کا فیصلہ نریندر مودی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا خاتمہ تاریخی کامیابی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے بیس مبینہ جاسوس گرفتار، ایران کا سخت انتباہ
  • ویسٹ انڈیز بمقابلہ پاکستان: پہلے ون ڈے میں میزبان ٹیم کی محتاط شروعات
  • پاکستان اور ایران کے درمیان فیری سروس کا لائسنس جاری کردیا گیا
  • اسرائیل اور مصر کے درمیان 35 ارب ڈالر کا تاریخی گیس معاہدہ
  • ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ
  • بھارت نے پاکستان کیخلاف اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا؛ نیتن یاہو کا بڑا اعتراف
  • ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
  • شاہ رخ خان کے ایوارڈ پر جاری تنازع، کس بات پر شور مچ رہا ہے؟
  • امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ