WE News:
2025-11-08@03:43:07 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

جب اسرائیل نے 2 ہفتے قبل ایران پر حملہ کیا تو چین، جو ایران کا پرانا دوست ہے، فوری طور پر متحرک ہوا، مگر صرف بیانات کی حد تک۔

چین نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفون پر جنگ بندی پر زور دیا، اور چینی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے بات کی۔ لیکن چین نے ایران کو کسی قسم کی عملی یا فوجی مدد فراہم نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑا ہے؟

چین نے معمول کے مطابق صرف بات چیت اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی، لیکن کسی قسم کا ہتھیار، مالی امداد یا جنگی تعاون نہیں دیا۔ چین اگرچہ امریکا کا حریف اور عالمی طاقت بننے کا خواہشمند ہے، مگر اس نے مشرق وسطیٰ میں براہِ راست مداخلت سے گریز کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے پاس نہ تو اتنی سفارتی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اس قدر خطرہ مول لینا چاہتا ہے کہ اتنے پیچیدہ اور تیزی سے بدلتے حالات میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس لیے چین نے محتاط اور غیر جارحانہ رویہ اختیار کیا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں

چینی ماہر ژو فینگ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی چین کے تجارتی اور توانائی کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

 2024 کی امریکی رپورٹ کے مطابق ایران کا تقریباً 80 سے 90 فیصد تیل چین کو برآمد ہوتا ہے، اور چینی صنعت اس تیل پر انحصار کرتی ہے۔ اس لیے چین کسی ایسی صورتِ حال سے بچنا چاہتا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہو۔

یہ بھی پڑھیں:چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے،امید ہے امریکا سے بھی خریدے گا : ڈونلڈ ٹرمپ

جب ایرانی پارلیمان نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی تجویز دی تو چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے تاکہ عالمی معیشت پر منفی اثر نہ پڑے۔

امریکا کے صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ:

’چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے‘۔

یعنی جنگ بندی سے ایرانی تیل کی فراہمی بحال رہے گی۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک کے ماہر کریگ سنگلٹن کے مطابق چین کا ردعمل صرف تیل کی خریداری اور ’مذاکرات کی اپیل‘ تک محدود رہا۔ نہ چین نے ایران کو ڈرون دیے، نہ میزائل کے پرزے، نہ ہی کوئی ایمرجنسی قرض کی سہولت دی۔ صرف وہی الفاظ کہ جن سے تہران خوش رہے اور سعودی عرب یا امریکا ناراض نہ ہوں۔

ان کے بقول، چین کی ایران سے شراکت داری صرف کاروباری ہے، جنگی نہیں۔ جب جنگ چھڑتی ہے تو چین کی بڑی بڑی باتیں صرف بیانات میں رہ جاتی ہیں۔ وہ ایران سے سستا تیل چاہتا ہے اور خود کو ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، جبکہ اصل خطرہ امریکا پر چھوڑ دیتا ہے۔

اقوام متحدہ میں چین نے روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی جس میں ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم امریکا غالباً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اسرائیل کی جانب سے ایرانی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی کھلی مذمت کرتا ہے، اور ایران سمیت دیگر فریقوں سے رابطے میں رہنے کو تیار ہے تاکہ حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

وانگ نے عمان اور مصر کے وزرائے خارجہ سے بھی بات کی، کیونکہ دونوں ممالک خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ نے روسی صدر پیوٹن سے بھی بات کی تاکہ ایران کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی بنائی جا سکے، لیکن چین اور روس دونوں نے جنگ میں براہ راست شمولیت سے گریز کیا۔

ایران چین کے عالمی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم حصہ ہے اور 2023 میں وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہو چکا ہے، جو کہ روس اور چین نے نیٹو کے مقابلے میں قائم کی ہے۔

ایران نے چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے، جیسے کہ 2025 کی ’میرٹائم سیکیورٹی بیلٹ‘ مشق۔

نیویارک میں قائم ساؤفان سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کا ایران جیسے شراکت داروں سے تعاون اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب امریکا یا مغربی دنیا کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خدشہ ہو۔

چین اپنے معاشی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں اور کسی بڑی طاقت سے محاذ آرائی سے بچنے کو ترجیح دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چاہتا ہے نے ایران ایران سے کے مطابق چین نے چین کے ہے اور

پڑھیں:

بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات تو کسی تردد کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کی تاریخ میں ان جیسا صدر نہیں گزرا۔ امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین ان کے رویے اور بیانات پر حیران ہیں۔

امریکا میں تاثر عام ہے کہ صدر جھوٹ بولنے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ امریکا کے ایک مقبول اور ممتاز صدر آئزن ہاور کہا کرتے تھے کہ امریکا کے صدر کے پاس جو سب سے موثر ہتھیار ہے، وہ لوگوں کا اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر اعتبار ہے۔ یہاں ٹرمپ کے معاملے میں صورت یہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کا اعتبار یہ بات طے کرتی ہے کہ وہ الفاظ کس کے بارے میں کہے گئے ہیں۔

آیا وہ دوست ہے یا دشمن‘ اپنی جماعت کا ہے کہ مخالف پارٹی کا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کی اس طرح کی باتیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی کہی ہوئی اکثر باتیں مزاحیہ پن کا شاہکار ہوتی ہیں اور سننے والا ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اپنے عرصہ صدارت کے آغاز میں انھوں نے امریکا کے ایک مقبول ٹیلی ویژن ہوسٹ ’جو ساربروہ‘ کو قاتل قرار دے دیا۔

انتخابات ابھی ہوئے نہیں تھے لیکن ٹرمپ انھیں ’’عنقریب ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے الزام لگا دیا کہ صدر اوباما ان کی انتخابی مہم کی جاسوسی کروا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید امریکی تاریخ میں پیش آنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل‘ کا تصور ہو جب امریکی صدر نکسن کو مخالف جماعت کی جاسوسی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں تھی اور امریکا میں ہزاروں لوگ اس وباء کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’’صرف وہی ڈیموکریٹ ایک اچھا ڈیموکریٹ ہے جو وفات پا چکا ہو‘‘۔ڈیمو کریٹ سے مراد مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا بندہ۔

"The only good democrat is a dead democrat" یہ بلاشبہ ایک سفاکانہ تبصرہ ہے۔

صدر ٹرمپ کا ایک اور ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ آپ ان کی اگلی بات یا عمل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی قائم کردہ کسی تاثر کے بالکل الٹ حرکت یا فیصلہ کر دیں۔ ابھی حال ہی میں جب فلسطین کے معاملے پر اہم مسلم ممالک کے سربراہان صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو ترکی کے صدر اردوان سے ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر دونوں صدور ساتھ ساتھ بیٹھ کر پریس سے مخاطب تھے۔

صدر ٹرمپ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ’’صدر اردوان میرے قریبی دوست ہیں۔ گزشتہ چار برس سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ جب مجھے ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے سیاست سے دیس نکالا دے دیا گیا‘‘ … یہاں ٹرمپ ڈرامائی انداز میں رکتے ہیں اور صدر اردوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دھاندلی زدہ الیکشن کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔‘‘حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت بھی صدر ٹرمپ کی گفتگو کا خاص موضوع رہے‘ بالخصوص دونوں ملکوں میں ہونے والی 4 روزہ جنگ پر صدر ٹرمپ نے بہت دلچسپ تبصرے کیے۔ پہلے تو انھوں نے جنگ رکوانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا بڑے خطرے سے دوچار ہو جاتی۔

دو روز قبل میامی میں امریکن بزنس فورم سے خطاب میں انھوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں‘ میں نے آٹھ جنگیں ختم کروائی ہیں‘‘۔ ان میں سے آخری جنگ پاکستان اور بھارت کی تھی۔ پھر فرمایا ’’میں دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب تھا کہ ایک اخبار کی شہہ سرخی میں دونوں ملکوں کی جنگ کی خبر تھی‘ اخبار کا نام نہیں لوں گا کیونکہ یہ اکثر جھوٹی خبریں چھاپتا ہے‘ پھر پتہ چلا کہ واقعی جنگ ہو رہی ہے۔ آٹھ طیارے…سات طیارے تو گرا دیے گئے۔ آٹھواں شدید زخمی تھا … یہی کہنا بنتا کہ آٹھ طیارے گرے۔‘‘ اور پھر انھوں نے وہی بات دھرائی کہ میں نے دونوں ملکوں سے کہا کہ جنگ کرو گے تو تجارتی معاہدہ نہیں ہو گا۔

ان دنوں انھوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کی سُبکی کا کوئی موقع نہیں جانے دیا اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ حتی کہ اس تاثر کے زیر اثر نریندر مودی نے ٹرمپ کے سامنے نہ آنے کی شعوری کوشش شروع کر دی۔ لیکن کہانی میں اب ایک اور ڈرامائی موڑ آ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا ہے۔

دونوں ملکوں کے وزراء دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کا معاملہ بھی بھارت کی سہولت کے مطابق طے پا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کی ان ڈرامائی حرکتوں سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی دوڑ شروع کرانا چاہتے ہیں۔ طیارے گرنے کے بار بار ذکر کے بعد اب امریکا بھارت معاہدے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بھارت کو امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے جدید ترین امریکی طیارے F-35 ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔

اسی طرح امریکا کی کوشش ہو گی کہ اسلحہ کے لیے بھارت کے روس پر انحصار کو ختم کرا دے۔ نئی صورتحال میں پاکستان اور چین کے لیے پیغام ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے بھارت پر امریکی انحصار کا تصور برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکی مفاد میں کسی نئی جنگ یا محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔

متعلقہ مضامین

  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • ایشیاکپ ٹرافی تنازع، آئی سی سی کی بڑی پیشکش
  • امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر
  • امریکا کی قیادت میں تشکیل دی گئی بین الاقوامی فورس غزہ میں امن و استحکام کو یقینی بنائے گی: ٹرمپ
  • بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے ایٹمی مرکز پر حملے کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ سابق سی آئی اے افسر کا انکشاف
  • آج ایک اور ملک ابراہم معاہدے میں شامل ہونے جا رہا ہے، اسٹیو وٹکوف
  • ابراہیم معاہدوں میں نیا ملک شامل، امریکا کی جانب سے آج اعلان متوقع
  • قومی ایئرلائن اور انجینئرز کے تنازع پر درجنوں پروازیں تاخیر اور منسوخی کا شکار
  • پاکستان، ایران کے درمیان میڈیا کے شعبے میں تعاون کیلئے مفاہمتی یاداشت پر دستخط