چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے اور اُمید ہے امریکہ سے بھی خریدے گا،امریکی صدر
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل اور ایران دونوں نے اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جس کا اعلان انہوں نے گھنٹے پہلے کیا تھا اور وہ کسی بھی ملک سے خوش نہیں ہیں، خاص طور پر اسرائیل سےناراض ہیں۔
ہیگ میں نیٹو سربراہی اجلاس کے لیے روانہ ہونے سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل نے معاہدے پر رضامندی کے فوراً بعد ان لوڈ کر دیا۔ ایران کی جوہری صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ مجھے یہ حقیقت پسند نہیں آئی کہ اسرائیل نے معاہدہ کرنے کے فوراً بعد فورسز کو اتارا۔ انہیں فورسز اتارنے کی ضرورت نہیں تھی اور مجھے یہ حقیقت پسند نہیں آئی کہ جوابی کارروائی بہت سخت تھی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران اسرائیل کشیدگی: کیا جنگی صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان مسلح کشیدگی دسویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکا نے براہِ راست تنازع میں شامل ہوتے ہوئے ایران کی تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، اس اقدام کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔
دوسری جانب روس نے اس حملے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے، جب کہ چین کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اب شدت اختیار کر گیا ہے کہ کیا روس اور چین بھی اس تنازع میں براہِ راست مداخلت کر سکتے ہیں؟ اور کیا جنگی صورتحال مزید سنگین ہوتی جائے گی؟
یہ بھی پڑھیں ایران کا آبنائے ہرمز بند کرنے کا فیصلہ، دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
’جنگے کے پھیلنے کا پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے‘دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایران اپنے یورینیم اور پلوٹینیم کے حساس ذخائر کو ہر صورت محفوظ رکھنا چاہے گا، اور یہی وجہ ہے کہ ممکنہ موقع ملتے ہی وہ جنگ بندی کے لیے رضامند ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ دشمن افواج کی جانب سے بمباری بند کی جائے، جو ایران کی ایک بنیادی شرط بھی ہے، اور اس مطالبے کے پورا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
خالد نعیم لودھی نے بتایا کہ اس جنگ کے پھیلاؤ سے کسی بھی فریق کو حقیقی فائدہ نہیں، سوائے اسرائیل کے، جس کے مخصوص مفادات اس تنازعے کو وسعت دینے سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ کوئی فالس فلیگ آپریشن کرکے اس جنگ کو دانستہ طور پر پھیلا دیا جائے، جس کا سب سے زیادہ نقصان خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کو ہو سکتا ہے۔
خالد نعیم لودھی کے مطابق جہاں تک عالمی طاقتوں کا تعلق ہے، روس نے شاید پس پردہ ایران کے خلاف کسی کارروائی کی صورت میں سخت ردِعمل کا عندیہ دے دیا ہے، جبکہ چین بظاہر غیر جانبدار رہتے ہوئے درپردہ ایران کی حمایت جاری رکھے گا، کیونکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
’میرے اندازے کے مطابق یہ جنگ زیادہ طویل نہیں چلے گی‘’میرے اندازے کے مطابق یہ جنگ زیادہ طویل نہیں چلے گی اور ممکنہ طور پر ایک یا دو ہفتوں میں کسی نہ کسی سطح پر اختتام پذیر ہو جائے گی۔ تاہم چونکہ جنگ کی فطرت غیر متوقع ہوتی ہے، اس لیے حتمی پیشگوئی کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ امریکی حملہ صرف اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا، سب فریقین نے اپنا اپنا غصہ نکال لیا ہے، اس لیے اب امن کی کچھ امید کی جا سکتی ہے۔ ایران نے نہ صرف اپنے افزودہ یورینیم کے ذخائر محفوظ رکھے بلکہ اسرائیل کو ایک سبق بھی سکھا دیا، دعا ہے کہ جنگ یہیں رک جائے۔
’چین براہِ راست جنگ میں نہیں کودے گا‘دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ مسعود احمد خان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ روس کی جانب سے ایران اور اسرائیل کشیدگی میں ممکنہ مداخلت کا کہا جا رہا ہے۔ تاہم یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ ایران جوابی کارروائی کس حد تک اور کس شدت سے کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ایران پر کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ روس کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آئے۔ جبکہ چین براہ راست جنگ میں نہیں کودے گا، کیونکہ چین مشرق وسطیٰ میں امن چاہتا ہے اور وہ جنگ بندی کا حمایتی یے۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی حکام کی جانب سے اس حملے میں کسی بڑے نقصان کی تردید کی گئی ہے، جبکہ امریکی اسٹیٹ سیکریٹری کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایران کی دفاعی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جو بھی کارروائی کی گئی ہے، وہ ایران کی خودمختاری اور جغرافیائی حدود کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس صورتحال کے بعد اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ایران کی طرف سے جواب ضرور آئے گا۔
’ایران عراق میں امریکا کو جواب دے سکتا ہے‘’اب سوال یہ ہے کہ ایران یہ جواب کہاں سے دے گا؟ ممکنہ طور پر عراق، عمان، سعودی عرب، قطر یا اردن میں موجود امریکی بیسز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے بھی ردعمل دے سکتا ہے، خاص طور پر عراق میں موجود ’کتائب حزب اللہ‘ ایک مؤثر اور فعال پراکسی کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ مسعود احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ایران کے پاس آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا آپشن بھی موجود ہے، جو عالمی سطح پر تیل کی سپلائی کو متاثر کر سکتا ہے اور پوری دنیا کو معاشی طور پر جھٹکا دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ایران پر امریکی حملہ: خودمختاری کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہوگا کریں گے، ایرانی وزیر خارجہ
کیا یہ صورتحال مکمل جنگ کی طرف جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار اب مکمل طور پر ایران کے ردعمل پر ہے۔ اگر ایران کی جانب سے شدید نقصان پہنچایا گیا تو اسرائیل نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اس کا بھرپور جواب دے گا۔ ایسی صورت میں ایران کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ نہ صرف اس کی عسکری طاقت محدود ہے بلکہ موجودہ حملوں سے اس کی معیشت بھی شدید دباؤ میں آ چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آبنائے ہرمز اسرائیل امریکا ایران اسرائیل جنگ جوہری طاقت چین خالد نعیم لودھی روس مسعود احمد خان وی نیوز