ہنود و یہود کا گٹھ جوڑ پھر بےنقاب، ایران کیخلاف کردوں کی اسرائیل کی حمایت
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ہنود و یہود کے گٹھ جوڑ نے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے، مودی حکومت اسرائیل کی پراکسی کے طور پر کام کرنے لگی ہے۔
ہنود و یہود کے گٹھ جوڑ سے نہ صرف بھارت کی خارجہ پالیسی بلکہ خطے کے توازن پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل خطے میں ایران کے اثر کو کم کرنے کے لیے کردوں کو سپورٹ کر رہا ہے اور یہی نیٹ ورک بی ایل اے جیسے گروپوں تک رسائی دیتا ہے۔ کالعدم تنظیم بی ایل اے اور کُرد ہنود و یہود کی پراکسیز کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
شواہد اور ثبوتوں سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ’’بی ایل اے کے سرکردہ سرغنہ بھارتی ایجنٹوں سے مالی معاونت اور ہدایات لیتے ہیں۔‘‘
ذرائع کے مطابق بھارتی اکاؤنٹس سے پاکستان میں دہشتگردی کی بزدلانہ کارروائیوں کی پیشگی اطلاع بطور بریکنگ نیوز دی جاتی ہے۔
حال ہی میں کُرد اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔ کُرد فوجی کمانڈر جنرل یزدانپنا نے بیان دیا کہ ’’اسرائیل ہمارا دوست ہے اور ہم ایک مشترکہ دشمن ایران کے خلاف کھڑے ہیں۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ کُرد گروپ کا اسرائیل کے حق میں بیان، ایران کے خلاف پراکسی جنگ کی نئی جہت ہے، جس طرح بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے میانوالی ایئر بیس اور جعفر ایکسریس پر حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔ اسی طرح کُرد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اسرائیل کو ایرانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر حملے کا اشارہ دیا، اسرائیل نے ایران کے اندر جاسوسی کے لیے کُردوں کو استعمال کیا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، کئی سالوں سے عراقی کردستان میں موجود کچھ عسکری و سیاسی گروہوں کو مالی معاونت، ٹیکنالوجی اور عسکری تربیت فراہم کر رہی ہے۔ اس تعاون کا مقصد ایران کے مغربی علاقوں میں خفیہ کارروائیوں کے لیے ’’اندرونی سپورٹ‘‘ مہیا کرنا تھا۔ ایرانی سیکیورٹی اداروں نے 2022 تا 2024 کے درمیان متعدد بار کُرد اسرائیلی ایجنٹس کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا۔
بی ایل اے اور کُرد گروپوں کے ذریعے جاری پراکسی جنگ اب ہنود و یہود کی چالوں کا عکاس بنتی جا رہی ہے۔
بھارتی ایجنسیاں اسرائیلی ٹیکنالوجی کے ذریعے اندرون اور بیرون ملک جاسوسی کا نیٹ ورک چلا رہی ہیں۔ ہنود و یہود کا نیٹ ورک عالمی امن کے لئے سنگین خطرے کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہنود و یہود بی ایل اے ایران کے گٹھ جوڑ
پڑھیں:
استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
اسلام ٹائمز: امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ تحریر: محمد بشیر دولتی
دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ یورپی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے کو خون میں نہلا دیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساحلوں سے لے کر شہروں کے قلب تک لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ہر طرف آگ اور خون کا بازار گرم تھا، لیکن اس تباہی کے باوجود انسانیت کے دشمن مطمئن نہ تھے۔ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن چکے تھے، مگر جنگی جنون رکھنے والے افراد پلک جھپکنے میں لاکھوں اور انسانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ اور جرمنی دونوں ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے۔ دونوں جانب جان لیا گیا تھا کہ جو فریق یہ ہلاکت خیز ہتھیار پہلے بنائے گا اور استعمال کرے گا، وہی اس جنگ کا فاتح ٹھرے گا۔
ہٹلر کی نگاہوں میں جرمنی کے یہودی دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ۳ جون ۱۹۳۳ء کو ۲۶ ممتاز جرمن سائنسدانوں میں سے ۱۴ نے ملک چھوڑ دیا۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں ایٹمی تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ٹیم میں میکس بورن، جیمز فرانک، ماریا گوپرٹ مایر اور دیگر اہم سائنسدان شامل تھے۔ یوں دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کو کامیاب بنانے اور عالمی طاقت بنانے میں ان سائنسدانوں، خصوصاً یہودی سائنسدانوں کا اہم کردار رہا۔ جرمنی سے ہجرت کرنے والے بعض یہودی سائنسدان برطانیہ اور بعض فرانس چلے گئے۔ یہودی سائنسدانوں کی اس خدمات اور اتحاد کا اثر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب، ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں فزکس کے ممتاز سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد، ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے لاکھوں جاپانی شہری لقمہ اجل بنے اور پورا شہر تباہ ہوگیا۔ تین دن بعد، ۹ اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا، جس نے مزید لاکھوں جانیں لیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اب تک تیس کے قریب ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، اور آج خود کو "عالمی امن کا علمبردار" قرار دیتا ہے جبکہ امن عالم کو انہیں سے سب سے ذیادہ خطرہ رہا ہے اور رہے گا۔
امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ وقت ہے کہ عالمی برادری جاگے، اس سے پہلے کہ سب کچھ کچلا جائے۔ امریکہ و اسرائیل عالمی قوانین کی سب سے ذیادہ خلاف ورزی کرنے والے لاپرواہ ممالک ہیں۔
دونوں ممالک خود کئی ایٹم بم بنا رکھے ہیں اور ایٹم بم سمیت انتہائی کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کر کے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام اور حق قبول نہیں ہے۔ آج سے سات سال قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں یہ رپورٹ عام تھی جس کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد ۹ ہے، جن کے پاس مجموعی طور پر ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق: امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں، جن کی تعداد بالترتیب تقریباً ۳۳۰ سے زائد ہے۔ چین کے پاس تقریباً ۲۸۰، برطانیہ کے پاس ۲۲۵ کے قریب، پاکستان کے پاس ۱۵۰ کے لگ بھگ، بھارت کے پاس ۱۴۰ کے قریب، شمالی کوریا کے پاس ۳۰ سے ۴۰، اسرائیل کے پاس بھی تقریباً ۴۰ سے ۹۰ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
پاکستان، ایران اور دیگر ۳۵ ممالک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے رکن ہیں، جو عالمی قوانین کے مطابق اپنی جوہری پالیسیز کو پُرامن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف IAEA کا رکن نہیں ہے، بلکہ اُس پر کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ظاہر کرے یا پُرامن رویہ اختیار کرے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ چاہے غزہ پر حملہ کرے یا شام و لبنان اور یمن پر، کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دوسری طرف ایران، جو IAEA کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲ جون کو امریکہ نے IAEA میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو "دنیا کے لیے خطرہ" قرار دیا گیا۔ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان پر بھی ایران کے خلاف ووٹ دینے کے لیے شدید دباؤ تھا، تاہم پاکستان نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے شماری میں شرکت نہ کرنے کو مناسب سمجھا۔
امریکہ، مغربی طاقتوں اور بعض مسلم ممالک کے دباؤ کے باوجود پاکستان کا مؤقف اس موقع پر نہایت متوازن، حقیقت پسندانہ اور باوقار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے اور شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ جون کو امریکی قرار داد کے بعد، اسرائیل نے رات کی تاریکی میں ایران پر ایک بڑا حملہ کیا۔ داخلی و خارجی حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ پوری طاقت سے جواب دینا بھی شروع کر دیا۔ دنیا اس وقت حیران ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بیلسٹک میزائل، ہائپرسونک میزائلز اور کروز میزائلز کس طرح امریکی، برطانوی، اردنی اور فرانسیسی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا مشہور دفاعی نظام آئرن ڈوم بھی کئی مرتبہ مکمل ناکام ہوا، اور ایران نے تل ابیب اور حیفا جیسے شہروں میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔
یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ بعض دعووں کے مطابق متعدد F-35 جیسے جدید جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں البتہ اس کی ابھی تک باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی و اسرائیلی ڈرونز کو گرانا ایرانی دفاعی نظام کے لیے اب معمول بن چکا ہے۔ اب تو ڈرون حملا کرنا اور دشمن کا ڈرون گرانا یمنیوں کا معمول بن چکا ہے۔ ان تمام صورت حال میں، امریکہ جو خود کو عالمی امن کا محافظ کہتا ہے، اس جنگ میں براہِ راست شامل ہوچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس تنازع کا مرکزی فریق ہے۔ یہ دونوں ممالک، اپنے اقدامات کی بنیاد پر، عالمی سطح پر امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چاہیئے کہ مل کر ان ظالم ملکوں کو لگام دیں اور عملی میدان میں ایران کا ساتھ دیں تاکہ دنیا ایک پرامن جگہ بن سکے اور یہاں سب برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جی سکیں۔